اب وہ دور آگیا ہے کہ جہاں دیکھو وہاں طلاق اور خلع کا ذکر چل رہا ہوتا ہے۔ میرے نزدیک معاشرے میں طلاق کے بڑھتے ہوئے رجحانات کی بڑی وجہ صنف نازک ہے۔ خدا نے بےشک مرد کو حاکم بنایا ہے مگر رشتے نبھانا اور گھر سنبھالنا عورت کے ہاتھ میں ہے۔ آج کی 90% عورت عدم برداشت ، بےحیائی ، ناشکرے پن اور انا پرستی کے مرض میں مبتلا ہے۔
پہلے وقتوں کی عورتیں اپنی زندگیاں سنوارنے کے لیے دین کی تعلیم حاصل کیا کرتی تھیں۔ لیکن اب دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے دین کا سہارا لیا جاتا ہے۔ میں نے باشعور اور دین دار گھرانوں کی بچیوں کو شوہر کی ناقدری کرتے ، پردے میں رہ کر بھی بےحیائی کرتے ، اور اچھے بھلے شوہروں سے خلع لیتے دیکھا ہے۔ ایک خاتون میاں سے لڑ کر اپنے چار بچوں کو (جس میں ایک گود کا بھی تھا) چھوڑ کر میکے آکر بیٹھ گئیں۔ دو ماہ سے اوپر ہونے والے ہیں۔ وہ بےفکری سے رات کو اپنی والدہ کے ساتھ مووی دیکھتی ، کافی پیتی ، آدھا دن سوتی اور آدھا شاپنگ اور سہیلیوں کے ساتھ ہوٹلنگ میں گزار دیتی۔ جب میں نے بچوں کا پوچھا تو کہنے لگی۔ " بچوں کو بھائی کے گھر میں تو نہیں لاسکتی ناں۔"
دوسری جانب مرد کا بھی قصور ہے۔ مرد چاہے باپ ہو ، بھائی ہو یا شوہر۔ عورت پر اس کی سختی ضروری ہے۔ بےجا ڈھیل اور غیر ضروری محبت عورت کو خودسر بنادیتی ہے۔
جی ہاں ! آپ کو میری بات عجیب لگے گی۔ لیکن اگر آپ آج کے معاشرے اور ماحول سے واقف ہیں تو اس بات سے آپ کو اعتراض نہیں ہوگا کہ اب شوہر حضرات ویسے نہیں رہے جیسے پرانے زمانوں میں ہوتے تھے۔ مرد کی سختی بھری محبت ، بےبسی سے بھری نرمی میں بدل گئی ہے۔ اس کی شخصیت کا رعب و دبدبہ کہیں دب سا گیا ہے۔ چار شادی کا حق رکھنے والے پہلی بیوی پر ہی اس قدر نچھاور ہوجاتے ہیں، جیسے اس لڑکی نے شادی کرکے کوئی بہت بڑا احسان کیا ہو۔
نرمی اچھی چیز ہے۔ پیارے نبیؐ بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ بہت محبت بھرا، مہربان رویہ رکھتے تھے۔ لیکن ساتھ ساتھ تربیت کو بھی مدنظر رکھتے تھے۔
خود پر طلاق کا داغ لگانے والی عورتوں کے لیے میرا پیغام ہے کہ اپنی ازدواجی زندگی کو خوشگوار بنانے پر توجہ دیں۔ غیر مردوں کو لبھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی کو اپنے شوہر کی خوشی تک کے لیے محدود رکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں آپ کو پچھتاوا ہو اور آپ کی حالت۔
" دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو۔"
والی نہ ہوجائے۔
وقت گزرنے کے بعد سوائے پچھتاوے کے آپ کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔ آپ جتنا بھی عزت سمیٹنے کی کوشش کریں ، ذلت آپ کے ماتھے پر شکن بن کر نمودار رہے گی۔ کیونکہ طلاق بھلے اسلام میں جائز ہو لیکن اللہ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ عمل ہے۔۔
تبصرہ لکھیے