کچھ غم آباد ہوتے ہیں ، ان میں ہنگامہ ، روانی، آوازیں ، سرگرمیاں ، تیاریاں اور باآواز نوحے ہوتے ہیں ۰۰۰ اس غم کی شدت وقت کے ساتھ ماند پڑتی جاتی ہے ۰۰۰ آخر کار یہ غم گزر جاتا ہے ۰۰۰ صرف کچھ ماضی کے قصے رہ جاتے ہیں اور کچھ ایسے اقتصادی نقصان جن کا حساب رہتا رہتا رہ جاتا ہے ۰۰ اس غم میں کوئی سہارا مل جائے ، کوئی دوا مل جائے تو اس درد کے مند مل ہونے کا عمل تیز ہو جاتا ہے ۰۰
کچھ غم اجاڑ ہوتے ہیں ۰۰۰ ان میں بیابانی، سنسان خاموشی ، دل کو دیمک کی طرح چاٹتی ہوئی وحشت ، روح میں پیوسٹ کانٹے اور بے آواز ماتم ہوتا ہے ۰۰۰ جو زندگی کے رواں عکس کے پیچھے لگے مستقل اور ساکت پردے کی طرح یوں قائم رہتا ہے کہ ناظرین اسے دیکھ نہیں پاتے ۰۰۰ یہ غم منجمد ہو جاتے ہیں ۰۰۰ ان کی شدت اور تاثیر کم نہیں ہو پاتی ۰۰ یہ گزرتے نہیں ہیں ۰۰ ٹھہر جاتے ہیں ۰۰۰ کئی بار اتنی گہری جڑوں کے ساتھ ٹھہر جاتے ہیں انسان حواس کھو بیٹھے ، یادداشت کی تختی پوچ دی جائے ، وجود کا احساس چھن جائے ، بھر بھی اس غم کی تحریر نہیں مٹتی ۰۰۰ اس میں کوئی سہارا کوئی دوا کام نہیں آتی ۰۰۰ اس کا علاج صرف آسمانوں سے بلاواسطہ دل پر اتارا گیا صبر ہے ۰۰۰ اور یہ معجزہ سب کے ساتھ نہیں ہوتا ۰۰۰
آباد غم وہ ہے جو اس وقت سیلاب کے بعد ٹی وی سکرین اور سوشل میڈیا پر نظر آرہا ہے ۰۰ لوگوں کے گھر ، املاک ، جینے کا سامان بہہ گیا ہے ۰۰۰ سب اجڑ گیا ہے ۰۰۰ لیکن یہ غم آباد غم ہے ۰۰ اس میں لوگوں کی مدد ، انہیں سہارا دے کر انہیں اس غم سے باہر نکالا جا سکتا ہے ۰۰۰ ان کی مدد کیجیے ۰۰ جیسے بھی، جتنی بھی ۰۰۰
اجاڑ غم وہ ہے جو اس وقت ان ماوں پر اترا ہے جن کے بچے ان کے ہاتھوں سے چھوٹ کر بےرحم موت میں بہہ گئے ۰۰ انکے لیے دعا کیجئے ۰۰۰ اور دعا کیجیے کہ یہ غم کسی پر نہ اترے ۰۰۰
تبصرہ لکھیے