میرا موضوع تو حضرت بہائوالدین زکریا ملتانی ہے، مگر اس سے پہلے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ملک میں سیلاب آیا ہوا ہے دیگر صوبوں کی طرح وسیب کا دامان بہت متاثر ہوا ہے۔ سیلاب زدہ علاقوں کا آنکھوں دیکھا حال مسلسل لکھ رہا ہوں۔
سندھ سے زائرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ سندھ کے بہت سے احباب سے سیلاب کی صورتحال جاننے کا موقع ملا۔ بلوچستان کی طرح سندھ کا بھی بہت نقصان ہوا ہے۔ اب تمام جماعتوں کو اختلافات بھلا کر متاثرین کی مدد کیلئے آگے آنا چاہئے۔ سیاست کیلئے بہت ٹائم پڑا ہے۔ کوہ سلیمان کے رودکوہی سیلاب کے بعد دریائوں میں بھی سیلاب ہے۔ دریائے سندھ کو تغیانی ہے۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ کا 783 واں عرس شروع ہونیوالا ہے اور زائرین کو سہولیات میسر نہیں، ان کیلئے رہائش ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ، محکمہ اوقاف کی طرف سے دربار پر زائرین کی رہائش کیلئے ایک بھی کمرہ نہیں اور نہ ہی کوئی باتھ ہے جس کے باعث مرد تو کیا سندھ اور دوسرے علاقوں سے آئی ہوئی خواتین مستورات کوجو مشکل پیش آتی ہے وہ بیان سے باہر ہے ۔
تکلیف دہ بات یہ بھی ہے کہ عرس کے موقع پرکئی دن کیلئے تعلیمی ادارے بند کرا کر وہاں زائرین کو رہائش دی جاتی ہے اس سے بچوں اور بچیوں کا سخت تعلیمی نقصان ہوتا ہے ۔قدیم قلعہ ملتان جہاں حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی اور دوسرے بزرگان کے مزارات ہیں ، وہاں تجاوزات کی بھرمار ہے ، دمدمے کے ساتھ ایس ٹی این کو جگہ دی گئی ، ٹیلیفون کا کھمبا نصب کرایا گیا ، سٹیڈیم اور پولیس اسٹیشن بنوایا گیا ، اگر نہیں بنوائے گئے تو زائرین کیلئے اقامت گاہیں ، واش روم ، لائبریری ، میوزیم ، کانفرنس ہال ، سہولتوں کا فقدان ہے، زائرین کو سہولتوں کے حوالے سے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا ؒ کا سب سے بڑا حوالہ علم دوستی ہے ۔ گزشتہ روز کے اخبارات میں یہ خبر پڑھ کر بہت افسوس ہوا ہے کہ زائرین کیلئے محکمہ تعلیم کے ادارے، جن میں سکول و کالج شامل ہیں ، خالی کرا لئے گئے ہیں ۔
موسم گرما کی چھٹیوں کے بعد حال ہی میں تعلیمی ادارے کھیل ہیں ، اس لئے تعلیم کے حوالے سے ایک ایک پل قیمتی ہے۔ آج اگر یورپ پوری دنیا پر راج کر رہا ہے تو اپنے تعلیمی اداروں کی وجہ سے ۔ اگر یورپ میں ایک ہزار سال پہلے قدیم یونیورسٹیوں کے حوالے ملتے ہیں تو سرائیکی وسیب بھی اس سے پیچھے نہ تھا مگر وہ سب کچھ ہو چکا ہے۔ جب تک وسیب کی عظمت رفتہ بحال نہیں ہوگی ، ہم اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ آج وسیب کے لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ وسیب کا ورثہ ہے ۔ حضرت بہاؤ الدین زکریا سئیں کو علم سے کتنی محبت تھی ؟کہ ملتان کو علم کا مرکز بنا دیا ۔ حضرت بہاء الدین زکریا ملتانی کی اقامتی یونیورسٹی مدرسہ بہائیہ ملتان میں بنگال ، آسام ، انڈونیشیا ، تاجکستان ، غزنی ، فارس ، روم ، برما ، ترکی اور عرب سے طلبہ پڑھنے کیلئے آتے تھے۔
کشمیر کے حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدان سری نگر نے حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی ؒ کے مدرسے سے فیض حاصل کیا ۔اسی طرح آپؒ کے رفقاء حضرت بابا فرید الدین ؒگنج شکر، حضرت سید جلال بخاریؒ ‘ حضرت شہباز قلندر ‘ ؒحضرت شاہ جلال سلہٹیؒ بنگلہ دیش ‘ حضرت امیر خسروؒ، حضرت نظام الدین اولیاء ؒبھارت، حضرت فخر الدین عراقی ؒ ایران و دیگر نے پوری دنیا میں علم کا نور پھیلایا ۔مدرسہ بہائیہ کی بہت بڑی لائبریری تھی ، جن میں سے بہت سی کتابیں آبِ زر سے لکھی گئی تھیں ، آج صورتحال یہ ہے کہ دربار کے ساتھ نہ تو مدرسہ ہے اور نہ ہی لائبریری ، آج ایک بار پھر لائبریری قائم کرنے اور ملتان کو علمی مرکز بنانے کی ضرورت ہے ۔ تاریخی ‘ ثقافتی اور جغرافیائی لحاظ سے ملتان اتنا بڑا ہے کہ اس کی تاریخی قدامت میں پاکستان ہندوستان تو کیا پورا جہان سما سکتا ہے۔
بلاشبہ یہ ایسا خطہ تھا جس پر بغداد اور دمشق والے بھی رشک کرتے تھے مگر آج معاشی معاشرتی اور تعلیمی لحاظ سے اس خطے کی یہ حالت بنا دی گئی ہے کہ یہاں کے لوگ دوسرے شہروں کے ’’ محتاج محض ‘‘ بن کر رہ گئے اور وہ ملتان جس کے بارے میں حضرت داتا گنج بخش ؒنے اپنی کتاب کشف المحجوب میں خود لکھا ’’ لاہور یکے از مضافات ملتان است ‘‘ آج آج اسی ملتان کو لاہور کا مضافات بنا دیا گیا ہے، سوال یہ ہے کہ سرائیکی وسیب کی سیاست میں بڑے بڑے نام آج میں سیاست میں موجود ہیں ‘ وہ نسل در نسل اقتدار کا حصہ بھی بنتے آ رہے ہیں ‘ کیا ان کی ذمہ داری نہیں کہ وہ ملتان کی عظمت رفتہ کو بحال کرائیں ۔ وقت کی بات وقت پر ہی اچھی لگتی ہے، آج حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کا عرس بھی ہے اور بات کرنے کا موقعہ بھی تو کیوں نہ یہ بات کی جائے کہ آج حکومت کو قدیم ملتان دہلی روڈ بحال کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا کہ یہ راہداری سو فیصد پاکستانیوں کے مفاد میں ہے کہ اسے حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی اور حضرت نظام الدین اولیاء کے زائرین کا راستہ قرار دیا جاتا ہے۔
درگاہ عالیہ حضرت بہاؤ الدین زکریا ملتانی کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی کے پاس وزارت خارجہ کا اہم منصب رہا ہے اور آج بھی براجمان حکومت تحریک انصاف کی ہے اور مخدوم شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کی سینئر قیادت میں سے ہیں لہٰذا ضروری ہے کہ وہ حکومت پنجاب اور محکمہ اوقاف سے اسی طرح کی سہولتیں حاصل کریں جس طرح دربار حضرت داتا گنج بخشؒ و دیگر مزارات کو حاصل ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ہم پہلے تخت لاہور کے حکمرانوں کو دوش دیتے تھے کہ وہ وسیب کا استحصال کرتے ہیں ۔ جب عرس شروع ہوتا تھا تو ہم مطالبات کرتے تھے کہ زائرین کو سہولتیں دی جائیں مزارات کے مسئلے حل کئے جائیں ۔ وسیب کو اس کے حقوق ، اس کی پہچان اور اس کا صوبہ دیا جائے ۔ آج تو کیا مخدوم صاحب اور ان کا خاندان ہمیشہ برسراقتدار چلا آرہا ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا آج بھی یہ پنجاب میں برسراقتدار ہیں اور خاص بات یہ ہے کہ یہ اقتدار ان کو ملا بھی سرائیکی ووٹوں سے ہے ۔اگر آج بھی کچھ نہیں ہوا تو ذمہ دار کون ہے؟ سوال یہ ہے کہ کس سے فریاد کریں اور کس کو دہائی دیں ۔ خدارا مخدوم شاہ محمود قریشی اور دوسرے اکابرین اس طرف توجہ کریں ورنہ وسیب کو ملنے والے طعنوںکے’’ تحائف ‘‘میں ایک اور طعنے کا اضافہ ہوجائے گاکہ بر سر اقتدار آنے کے باوجود وسیب کے سیاستدان کام نہیں کراتے تو تخت لاہور کو دوش کیوں؟
تبصرہ لکھیے