سہ ماہی ’’ورثہ‘‘ کو نیویارک سے نکلتے ہوئے ابھی کوئی دو تین سال ہی ہوئے ہیں مگر اس جریدے نے ادب پاروں اور ادبی صحافت کے حوالے سے جو نام کمایا ہے، وہ اپنی مثال آپ ہے، اس کے مدیر اعلیٰ رئیس وارثی سے ہماری بہت پرانی یاداللہ ہے۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے نوّے کی دہائی میں جب ابھی اُردو اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے لوگ امریکا میں نسبتاً کم کم تھے، اُس وقت بھی رئیس وارثی مسلسل ادبی تقریبات کا انعقاد کرتے رہتے تھے اور پاکستان سے وزٹ پر آنے والے ادیبوں اور شاعروں کی میزبانی میں بھی وہ سب سے پیش پیش تھے، پھر شوکت فہمی جیسے احباب کی وجہ سے حلقہ ارباب ذوق اورجوہر میر جیسے ترقی پسند تحریک کے کچھ پسماندگان کے باعث ادب برائے زندگی پر ایمان رکھنے والی محفلیں بھی مقبول ہوگئیں اور کچھ دیر کے لیے یوں لگا جیسے رئیس وارثی اپنی اننگز کھیل چکے ہیں۔
اتفاق سے اس دوران میں ان سے ملاقاتیں بھی بوجوہ کم ہوئیں لیکن اب جو وہ ’’ورثہ‘‘ کی معرفت اُردو کی عالمی ادبی برادری کے ہم قدم چلنے کا ایک سنجیدہ اور باوقار رُوپ لے کر پھر سے نیویارک کی ادبی دنیا میں پورے زور و شور اور ساز و سامان کے ساتھ چہرہ نما ہوئے ہیں تویک دم ذہن میں گزشتہ تین دہائیاں بھی جگمگ کرنے لگی ہیں۔یہ پرچہ چونکہ اُردو ادب کی عالم گیر روایت کا حصہ ہے، اس لیے ضروری تھا کہ اسے ہر طرح کے تعصب اور پارٹی بازی سے اُوپر اُٹھ کر ایک وسیع تر سطح پر سوچا اور ترتیب دیا جاتا رئیس وارثی اور ان کے نیویارک کے احباب نے سب سے اچھی بات تو یہ کی کہ نہ صرف پوری اُردو دنیا کے نمایندہ لوگوں سے رابطہ کیا بلکہ انھیں کسی نہ کسی طرح رسالے کے ساتھ نتھی بھی کر لیا ۔
حال ہی میں اس دنیا سے رخصت ہونے والے پروفیسر گوپی چند نارنگ اس کے سرپرستِ اعلیٰ ٹھہرے اُن کا ساتھ دینے کے لیے پاکستان سے ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کو چنا گیا اور پھر ایک عالمی مجلسِ مشاورت کے قیام کے ساتھ ساتھ مختلف حیلوں بہانوں سے زیادہ سے زیادہ لکھنے والوں کو اس تحریک کا حصہ بنا دیا گیا، اس وقت اس کی جلد نمبر دو کا شمارہ نمبر چھ میرے سامنے ہے جو جولائی تا ستمبر 2022 پر محیط ہے جو کہنے کو 92صفحات پر مشتمل ہے مگر اس میں ادبی تحریروں ، یادوں اور دنیا بھر سے اُردو سے متعلق خبروں کا ایک ایسا مجموعہ جمع کر دیا گیا ہے کہ بعض اوقات یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ ایک صفحے میں کتنے مضامین کی جھلکیاں جمع ہوگئی ہیں۔
22جولائی کو نیویارک میںبرادر شاہد حیات نے ایک رفاعی تنظیم کے تعارف کے حوالے سے ایک شاندار پروگرام کیا جس میں میرے علاوہ شوکت فہمی اور خالد عرفان بطور شاعر شامل تھے، شاہد بھائی نے جب یہ بتایا کہ اس کی نظامت رئیس وارثی کریں گے تو بہت خوشی ہوئی کہ خط و کتابت اور ٹیلی فونک رابطوں سے قطع نظر اُن سے براہ راست ملے دس بارہ برس ہوچکے تھے، وہ اپنی جاب سے سیدھے تقریب میں آئے اوراس محبت اور وارفتگی سے ملے کہ جی خوش ہوگیا بدقسمتی سے آج کل سینئرز کو تعظیم دینے کا رواج بھی کچھ کم ہوتا جا رہا ہے لیکن جس اہتمام سے رئیس وارثی ملے اور پروگرام میں اُنہوں نے اپنی مودب کا اظہار کیا وہ ایک بہت دل خوش کن تجربہ تھا، اسی ملاقات میںمختلف وقفوں کے دوران اُن سے ’’ورثہ‘‘ کے بارے میں بھی بات ہوتی رہی، انھوں نے بتایا کہ آیندہ شمارے میں میرا وہ انٹرویوبھی شامل ہے جو ان کی طرف سے چند ماہ قبل محترمہ حنا خراسانی رضوی نے بہت تفصیل سے کیا تھا، اب جو پرچہ ملا تو واقعی وہ انٹرویو خاصا طویل ہے۔
اس کے علاوہ پروفیسر گوپی چند کی وفات پر کئی تحریریں شامل کی گئی ہیں اور اب غالباً اگلا پرچہ پورے کا پورا اُن کی یاد میں ہوگا۔پرچے کو مختلف گوشوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں سے چند کے نام غیر مانوس اور اجنبی ہونے کی وجہ سے پہلے پہلے خاصے عجیب لگتے ہیں مثلاً ’’گوشہ انٹرویو‘‘، ’’گوشہ نعتیہ ادب‘‘، ’’گوشہ یاد رفتگاں‘‘ وغیرہ وغیرہ ان گوشوں اور صفحات کی ترتیب سے اندازہ ہوتا ہے کہ غالباً مدیران کے پاس مواد پرچے کی ضحامت کے اعتبار سے زیادہ ہوگیا تھا۔اس لیے انھوں نے کوئی جگہ خالی نہیں چھوڑی بلکہ بعض اوقات ایک گوشے کے اندر سے ہی دوسرا گوشہ شروع ہوگیا ہے، بھارت کی یونیورسٹیوں اور اساتذہ سے مضبوط رابطہ ہونے کے باعث وہاں کے ادیبوں اور شاعروں کی تحریریں نسبتاً زیادہ ہیں مگر ایک اچھی بات یہ بھی ہے ترکی، مصر، ایران اور دیگر ممالک کی اُردو یونیورسٹوں سے بہت سے لوگوں کو شامل کیا گیا ہے جن میں کچھ نام بالکل نئے بھی ہیں اور چونکادینے والے ہیں۔
امریکا سمیت برطانیہ ، ناروے ، ترکی اور کئی دیگر ممالک سے بھی اُردو رسالے اور ادبی مجموعے شائع ہوتے رہتے ہیں مگر کسی مہ نامے یا سہ ماہی کی شکل میں اس کی باقاعدہ اشاعت ایک بہت دلچسپ اور قابل قدر تجربہ ہے کہ اس طرح ہم ایک ہی وقت میں پوری ادبی دنیا میں ہونے والی کارروائیوں سے باخبر ہوسکتے ہیں، میرے ذاتی علم میں ہے کہ ترکی میں خلیل طوقار اور آسمان اوزجان اور ایران میں ڈاکٹر علی بیات اُردو کے جدید ادب پر بہت وقیع تر جمے اور تحقیق و تنقید کا کام کررہے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ رُوس سے اُردو کے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو پھر سے استوار کیا جائے اور چین میں اس لیے فضا ہموار کی جائے اور یہ کام ’’ورثہ‘‘ جیسے بین الاقوامی جریدے بہت احسن طریقے سے کرسکتے ہیں اب چونکہ رئیس وارثی نے مجھے اس کا ایڈوائزر بھی بنا لیا ہے ا س لیے میں آخر میں یہی مشورہ دوں گا کہ ’’ورثہ‘‘ کا روپ زیادہ سے زیادہ بین الاقوامی رکھنے کی کوشش کریں۔
تبصرہ لکھیے