ایک طرف ملک میں بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے دوسری طرف سیاستدان کرسی اور اقتدار کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ سب کچھ ذاتی مفاد کیلئے ہو رہا ہے، عوام کی کسی کو پرواہ نہیں۔ حکومت، اپوزیشن اور میڈیا نے شہباز گل کی گرفتاری کو جتنی اہمیت دے رکھی ہے اگر اس کا ایک فیصد بھی سیلاب زدہ علاقوں پر توجہ دی جاتی تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے تھے۔ بلوچستان اور سندھ کے علاوہ سیلاب نے سب سے زیادہ متاثر سرائیکی وسیب کو کیا ہے۔
ڈیرہ غازیخان ڈویژن کے مختلف علاقوں میں آئے دن سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں۔ گزشتہ روز فاضل پور میں پانی داخل ہو گیا، راجن پور کو بچانے کیلئے بند کو کٹ لگایا گیا تو درجنوں دیہات زیر آب آگئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل درابن اور ضلع ٹانک کے علاوہ سیلاب نے ڈیرہ غازیخان اور راجن پور کے بعد مظفر گڑھ کا بھی رخ کر لیا ہے۔ علی پور کے دو درجن سے زائد مواضعات میں پانی آگیا۔ ہزاروں ایکڑ کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ مویشی پانی میں بہہ گئے۔ سیلاب میں ایک مسئلہ گندم کا بھی ہے کہ بہت سے علاقوں میں پاسکو اور محکمہ خوراک کی طرف سے کھلیانوں میں سٹاک کی گئی کروڑوں روپے کی گندم خراب ہو گئی، اگر یہی گندم سیلاب متاثرین اور غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی تو کتنا اچھا تھا۔ سیلاب سے مہنگائی بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، غریبوں کو ایک طرف سیلاب نے اور دوسری طرف مہنگائی نے مار دیا ہے۔
وسیب میں ہونیوالے سیلاب سے ہلاکتوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے بڑھ چکی ہے۔ تونسہ کے علاقے وڈور ، سانگھڑ و دیگر مقامات میں بہت سی اموات ہو چکی ہیں۔ حکومتی اقدامات صرف فوٹو سیشن کی حد تک ہیں۔ ایک طرف سیلاب ہے دوسری طرف وسیب میں بارشیں ہیں۔ وسیب کا ہر شخص پریشان نظر آتا ہے۔ بھارت نے دریائے ستلج میں پانی چھوڑ دیا ہے جس کے باعث بہاولپور کے دریائی علاقوں میں سیلاب کا خطرہ پیدا ہو چکا ہے۔ کمشنر بہاولپور نے حفاظتی اقدامات کا حکم دیا ہے اور حکومت کی طرف سے لوگوں کو محفوظ مقامات کی طرف سے منتقل ہونے کیلئے کہا گیا ہے۔ سندھ میں شدید بارشوں کے باعث گزشتہ روز گمبٹ اور روہڑی کے درمیان ریلوے ٹریک بیٹھ گیا جس کے باعث گاڑیوں کی آمدو رفت معطل ہو گئی اور پشاور سے کراچی کے درمیان چلنے والی تمام ریل گاڑیوں کو روک دیا گیا۔ لاکھوں مسافروں کو سخت مشکلات اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ ریلوے کی طرف سے مسافروں کو ریلیف کیا ملنا تھا ریلوے کے سٹالوں نے ناقص اشیاء مہنگے داموں فروخت کرکے مسافروں سے زیادتی کی۔
یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ محکمہ ریلوے نے جو گاڑیاں پرائیویٹ کی ہیں ان کا رویہ مسافروں سے بدتر تھا۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ سیلاب اور بارشوں نے سندھ اور بلوچستان کو بھی متاثر کیا مگر وہاں کی صوبائی حکومتوں نے متاثرین کی مدد کی جبکہ وسیب کے سیلاب متاثرین بے یارو مددگار ہیں۔ وسیب کا علاقہ ٹانک، ڈی آئی خان خیبر پختونخوا میں آتا ہے۔ وہاں کی حکومت کو پرواہ نہیں ہے۔ اسی طرح ڈی جی خان ڈویژن پنجاب میں آتا ہے۔ سب سے زیادہ تباہی ہونے کے باوجود کوئی ریلیف نہیں ملا۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اس علاقے کے لوگوں نے احتجاج کیا تو ان کے خلاف مقدمات قائم کئے گئے۔ وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی اس علاقے کے دورے پر آئے تو وسیب کے عوامی نمائندے اُن کو صحیح معنوں میں بریف ہی نہ کر سکے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے سیلاب متاثرین کیلئے 25 ہزار روپے فی کس ریلیف پیکیج کا اعلان ہوا ہے تو بتایئے کہ 25 ہزار میں تو سادہ باتھ بھی نہیں بن سکتا۔ جن کا سب کچھ جاتا رہا وہ کیا کریں گے؟ یہ بھی دیکھئے کہ وسیب میں ایک طرف سیلاب اور بارشیں ہیں دوسری طرف لمپی سکن کی وباء سے جانور مر رہے ہیں۔ اب تک اس بیماری سے ہزاروں جانور مر چکے ہیں جن کی مالیت اربوں روپے ہے مگر حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔
ابھی تک بیماری کی روک تھام کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے جا سکے۔ وسیب میں سیلاب سے انڈس ہائی وے میں بہت سی جگہ شگاف پڑنے سے ٹریفک رک چکی ہے۔ اسی طرح فورٹ منرو میں رودکوہی کے سیلاب نے بہت سی جگہوں پر سڑک کو اکھاڑ دیا ہے۔ ایک طرف وسیب میں 25-33کلو میٹر تک گاڑیوں کی لائنیں ہیں دوسری طرف بلوچستان تک گاڑیاں رکی ہوئی ہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ فوری طور پر بحالی کے کام میں مدد دے۔ سچی اور حقیقی بات یہ ہے کہ کرسی اور اقتدار کی جنگ لڑنے والے سیاستدانوں نے وسیب کو بے یارو مددگار چھوڑ دیا ہے۔ (ن) لیگ، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کی قیادت میں سے کوئی سیلاب زدگان کے پاس نہیں پہنچا۔ عمران خان کو یہاں ہونا چاہئے تھا مگر وہ بنی گالہ میں بیٹھے ہیں۔ البتہ جماعت سلامی کے سراج الحق وسیب کے سیلاب زدہ علاقوں میں آئے اور امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا۔ مقامی سرائیکی جماعتیں وسائل نہ ہونے کے باوجود اپنے وسیب کے دکھوں میں شریک ہیں۔
صوبائی حکومتوں نے سیلاب متاثرین کو پٹواریوں، گرداوروں اور نائب تحصیلداروں کے حوالے کر رکھا ہے جو صرف گھر بیٹھے اپنے موبائل سے فرضی رپورٹیں بنا بنا کر حکومت کو بھیج رہے ہیں۔ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں فوجی جوانوں نے سیلاب متاثرین کی مدد کی۔ وسیب کے احساس محرومی میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ بلوچستان میں ہیلی کاپٹر سروس کام کرتی رہی مگر سرائیکی وسیب میں ایک دن پہلے ہیلی کاپٹر ریسکیو سروس دیکھنے کو ملی جبکہ وسیب میں تباہی کا سلسلہ ایک ماہ سے جاری ہے۔ کوہ سلیمان کے سیلاب سے بہت سی قیمتی جانوں کا نقصان ہو اہے۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سی لاشیں لا پتہ ہیں، جس کیلئے ریسکیو کی ضرورت ہے۔ پچھلے دنوں بھی سکھر بیراج اور گڈو بیراج سے جو پھنسی ہوئی لاشیں ملیں اُن میں زیادہ تعداد وسیب کی ہے کہ کالا باغ سے کشمور تک وسیب کا وسیع دریائی علاقہ ہے۔
وزیر اعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے وسیب کے سیلاب زدہ علاقوں کو آفت زدہ قرار دے کر آبیانہ اور مالیہ معاف کر دیا ہے مگر جب پانی نے ہی سارا نقصان کیا تو آبیانہ کس بات کا؟ اور جب آفت سے فصلیں تو کیا گھر ہی نہ رہے تو مالیہ کس بات کا؟ وزیر اعلیٰ کو اس سے آگے بڑھنا چاہئے اور سیلاب زدہ علاقوں کی بحالی کیلئے بھاری پیکیج کا اعلان کرنا چاہئے۔ سرائیکی وسیب جو کہ زرخیزی کے لحاظ سے پاکستان کا مثالی اور پسماندگی کے حوالے سے بے نظیر علاقہ ہے، پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے ۔
تبصرہ لکھیے