ایک عرصے تک یورپی اقوام اس غلط فہمی یا دانستہ ابہام کا شکار رہیں کہ رومن امپائر کے خاتمے کے بعد ایک تاریک دور شروع ہوا اور پھر اچانک یورپ کی نشاۃ ثانیہ نے اس تاریکی میں علم و فضل کی شمع روشن کر دی اور سارا ماحول بدل گیا اور جہالت چھٹ گئی۔
حقیقت مگر اس سے مختلف ہے۔ یہ علمی تبدیلی راتوں رات برپا ہونے والا انقلاب نہیں تھا ، یہ ایک طویل ارتقائی عمل تھا جس میں مسلمانوں اور عربی زبان کا کرداربہت اہم تھا۔ حتی کہ اس علمی سفر میں ریاضی کی دنیا میں اس برصغیر کا کردار بھی غیر معمولی رہا جسے اب لارڈ میکالے صاحب تہذیب سکھانے آئے تھے کہ ان کی زبان تو کیا ان کے لہجے بھی ٹھیک نہیں اس لیے انہیں مہذب ہونے کے لیے انگریزی سیکھنی چاہیے۔ ٓٓآٹھویں صدی کے دوسرے نصف میں عباسی دور حکومت میں خلیفہ المنصور کے دور میں یونانی علوم کے تراجم پر کام ہوا۔
یہ ایک غیر معمولی کام تھا۔ ایک تہذیب جسے وجود کھوئے قریب دو صدیں ہو چکی تھیں اس تہذیب کے علم فنون کا عربی میں ترجمہ کرنا آسان نہ تھا۔عربوںنے مگر یہ کر دکھایا۔ پھر یہ مسلمانوں کا دور عروج تھا تو خود مسلمان اہل علم سائنس ، طب ، فلسفے اور دیگر علوم میں کام کر رہے تھے۔ یہی تراجم اور یہی کام بعد میں لاطینی زبان میں ترجمہ کر کے یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھانا شروع کیے گئے اور پھر یورپ میں اس سفر کی ابتدا ہوئی جسے نشاۃ ثانیہ کہا جاتا ہے۔اس ضمن میںکانسٹنٹین کا نام بطور مترجم بہت نمایاں ہے۔جنہوں نے طب کی دنیا میں مسلمانوں کی عربی میں لکھی متعدد کتابوں کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا جو بعد میں یورپ میں پڑھایا جاتا رہا۔چنانچہ اندلس میں مسلمانوں کا علمی ذخیرہ یورپ کے فکری ارتقا کا ایک بڑا عامل تصور کیا جاتا ہے۔
علمی بد دیانتی یہ ہے کہ اس سارے سفر میں عربی زبان اور مسلمانوں کے کردار کا ذکر نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ یورپی اہل علم نے مسلمانوں کی کتابیں نقل کر کے اپنے نام سے چھاپ لیں اور بہت بعد میں معلوم ہوا کہ یہ تو فکری واردات کی گئی ہے ا ور اصل کام تو کسی اور کا ہے۔نکولس کوپرنیکس فلکیات اور ریاضی کا بہت بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے۔ اسے مغربی تہذیب کا پہلا جدید سائنسدان بھی کہا جاتا ہے۔اس نے جب یہ تصور دیا کہ نظام شمسی کا مرکز زمین نہیں بلکہ سورج ہے تو گویا علم کی دنیا میں ایک تہلکہ مچ گیا۔ یہ قدیم یونانی عقیدے کے برعکس تصور تھا۔ ایک عرصے تک یہ سب ان کے علم و فضل کا کمال سمجھا جاتا رہا مگربہت بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے فلکیاتی مشاہدے میں بنیادی تصورات معروف مسلمان سائنسدان جابر بن سنان البتانی کے تھے۔ بعد میں اپنے ایک اور علمی مقالے میں البتہ انہوں نے جابر بن سنان البتانی کی تحقیق کو بطور حوالہ پیش کیا۔ ایک یا دو بار نہیں، پورے 23 بار اور ایک مقالے میں۔ اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ البتانی کا مقام و مرتبہ کیا تھا۔
یہ جابر بن سنان البتانی ہی تھے جنہوں نے پہلی بار فلکیات اور ریاضی کو اکٹھا کیا اور اسے ایک شعبہ تعلیم بنایا۔ انہوں نے ریاضی کے فارمولے فلکیات پر پر عائد کیے اور انہوں نے ہی یہ طے کیا کہ شمسی سال میں 365 دن ہوتے ہیں۔ یہ بھی البتانی ہی تھے جنہوں نے سورج کی حرکت سے معلوم کیا کہ بطلیموس کی تحقیق میں نقائص ہیں چنانچہ انہوں نے بطلیموس کے یونانی ورثے کو درست کیا۔ مثلیات یا ٹرگنومیٹری کے اصول بھی انہوں نے وضع کیے۔ خیر واپس آتے ہیں یورپ کے ’’ پہلے جدید سائنسدان‘ نکولس کوپرنیکس کی فکری واردات کی طرف ۔موصوف نے ایک اور عظیم سائنسی دریافت کی جس کے بارے میں اب دنیا کو معلوم ہو چکا ہے کہ یہ تو اصل میں مسلمان سائنسدان نصیر الدین طوسی کا کام تھا ۔
اب دنیا اسے Tusi Couple کے نام سے جانتی ہے اور یہ نصیر الدین طوسی سے منسوب ہے۔ یورپ کے پہلے جدید سائنسدان نے طوسی کا سارا کام اٹھا لیا اور جہاں جہاں طوسی نے جیومیٹرک مقامات پر عربی میں کچھ لکھ رکا تھا وہاں جدید سائنسدان نے بعینہ انہی مقامات پر اے ، بی ، سی اور ڈی کوڈ کر دیانکولس کوپرنیکس نے 1496 سے 1503 تک کا وقت اٹلی میں گزارا اور اٹلی کی یونیورسٹی آف پڈوا میں پڑھتے رہے۔ یہ وہ وقت ہے جب اسی یونیورسٹی میں نصیر الدین طوسی کے کام کا یونانی ا ور لاطینی زبان میں ترجمہ ہو چکا تھا اور نکولس ان دونوںزبانوں کا علم رکھتا تھا۔ جدید سائنسدان گویا ایک اچھا مترجم تھا اور سرقہ کرنے پر اسے ملکہ حاصل تھا ۔ مغرب کے پہلے جدید سائنسدان نے ایک اور مسلمان سائنسدان کا کام بھی چوری کیا اور حوالہ تک دینا مناسب نہ سمجھا ۔ یہ موید الدین اردی العامری الدمشقی تھے ۔فلکیات پر ان کی دو کتابیں سند کی حیثیت رکھتی ہیں۔
ایک کتاب الرسد اور دوسری کتاب الہیئۃ۔ نکولس کوپرنیکوس نے ریاضی کے جو اصول وضع کر کے داد وصول کی بعد میں معلوم ہوا وہ موید الدین اردی العامری الدمشقی کا کام تھا۔مغرب کے پہلے جدید سائنسدان نے چاند کی حرکیات پر جو کام کیا یہ ابو الحسن علائوالدین ( ابن الشاطر) کے کام کی مکمل نقل ہے۔ابن الشاطر مسلمان ماہر فلکیات اور ریاضی دان تھے۔ مغرب کا ایک اور بڑاریاضی دان فیبو ناچی ہے جس نے وہاں اعداد متعارف کرائے۔ یعنی 1،2،3،4 وغیرہ۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ جس مقامی تہذیب اور مقامی زبان کو لارڈ میکالے مکمل طور پر رد کرتے ہیں۔ فیبوناچی کہتا ہے کہ اعداد اسی برصغیر کے لوگوں نے بنا ئے ہیں۔ اسی لیے انہیں Indian Numerals کہا گیا۔کتاب میں الجبرا پر صاحب نے جو تحقیق فرمائی اس میں سے بائیس نکات خوارزمی کے اور 53 نکات ابو کامل الحاسب کے اٹھائے گئے تھے۔
ابو کامل کی مہارت کا یہ عالم تھا کہ انہیں مصری کیلکولیٹر کہا جاتا ہے۔خوارزمی نے ہی سب سے پہلے یہ بتایا تھا کہ آپ کسی بھی نمبر کو 10آسان حروف سے ظاہر کر سکتے ہیں۔انہیں ’ فادر آف الجبرا‘ بھی کہا جاتا ہے۔سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی کے جان جوزف کے مطابق ایسے متعدد تصورات جنہیں سولہویں ، سترہویں اور اٹھارویں صدی کے دوران یورپی ریاضی دانوں کی تحقیق سمجھا جاتا تھا اصل میں عربی اور اسلامی ریاضی دان چار سو سال پہلے پیش کر چکے تھے۔ان کے خیال میں جو ریاضی اس وقت ہم پڑھتے ہیں یہ یونانیوں سے زیادہ عربی یا اسلامی خدمات سے قریب ہے۔ مسلمانوں کے علمی ذخیرے کا ترجمہ کرنے میں ایک معروف نام قسطنطین الافریقی( Constantine : the African) کا ہے۔
اس نے 70 سے زائد عربی کتب کا لاطینی زبان میں ترجمہ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ان تراجم میں کئی ایسے ہیں جو اس نے خود سے منسوب کر لیے۔علی بن موسیٰ مجوسی کی کتاب ’ کامل الصناعۃ الطبیۃ‘ کو دو سو سال تک قسطنطین صاحب ہی کی علمی کاوش سمجھا جاتا رہا اور دو صدیوں کے بعد جب اصل کتاب کا ترجمہ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ یہ توعلی بن موسی کی کتاب تھی۔( جاری ہے)
تبصرہ لکھیے