عمران خان کے چیف آف سٹاف شہباز گل کے مسئلے پر ایک روز قبل عجب ماجرا ہوا۔ یعنی پنجاب وفاق کے مقابل آ گیا۔ پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا۔ وزیر اعظم بے نظیر اور وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف میں سخت دشمنی تھی۔
نواز شریف پنجاب میں بے نظیر کا استقبال کرتے تھے نہ ان کے بارے میں کوئی اور نرم رویہ اپناتے۔ بے نظیر بھی انہیں کوئی رعایت نہیں دیتی تھیں لیکن دونوں لیڈر نظام مملکت کے حوالے سے سمجھ بوجھ رکھتے تھے چنانچہ سخت دشمنی کے باوجود ایسی صورت حال کسی نے پیدا نہیں ہونے دی جسے دو حکومتوں کے درمیان ٹکراﺅ کا نام دیا جا سکے لیکن اب تو ایسا ہوا۔
چیف آف سٹاف غدّاری پر اکسانے کے ”اقراری الزام“ کے تحت جیل میں ہیں۔ عدالت نے انہیں دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر ا سلام آباد پولیس کے حوالے کر دیا لیکن پنجاب حکومت بیچ میں آ گئی۔ اڈیالہ جیل سے پنجاب کے کسی ہسپتال لے جانے پر بضد ہو گئی اور اسلام آباد پولیس کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا۔ شاید دو گھنٹے ایسی صورت حال رہی۔ پھر اسلام آباد پولیس نے رینجرز طلب کر لی۔ رینجرز حرکت میں آئے تو پنجاب حکومت کو حالات کی سنگینی کا احساس ہوا اور پیچھے ہٹ گئی چنانچہ اسلام آباد پولیس عمران کے چیف آف سٹاف کو ساتھ لے گئی۔
یعنی پہلے پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا کہ ڈٹ جانا ضروری ہے
اور پھر پنجاب حکومت نے فیصلہ کیا کہ ہٹ جانا ضروری ہے
یہ دو گھنٹے کا ”سٹینڈ آف“ وفاقی حکومت کے لیے گورنر راج لگانے کی بنیاد بنانے کے لیے کافی ہے۔ اگرچہ وہ ایسا کرے گی نہیں کہ ”سازمان بندوبست “چاہتے ہیں کہ جو بندوبست کر دیا ہے، وہی چلے۔ وفاق میں شہبازی حکومت رہے اور پنجاب میں پرویزی۔ شنید ہے کہ پرویز الٰہی نے ٹکراﺅ سے پہلے ”سازمان بندوبست“ کو فون کیا تھا کہ کیا کروں۔ جواب ملا قانون کے مطابق کرو۔ پرویز الٰہی نے نہ جانے کون سا قانون پڑھا کہ ان کی سمجھ میں وہی آیا جو انہوں نے کیا، یہ کہ عمران خان کے چیف آف سٹاف کو اسلام آباد پولیس کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا جس کا وہ قیدی تھا۔
اللہ بھلا کرے، رینجرز نے حرکت میں آ کر پرویز الٰہی صاحب کو درست قانون کی نشاندہی کر دی۔ یوں پرویز الٰہی نے اپنی ”غلط فہمی“ کو درست فہمی میں بدل لیا۔
پی ٹی آئی کہتی ہے چیف آف سٹاف صاحب بیمار ہیں اور پوری قوم چیف آف سٹاف کے ساتھ کھڑی ہے اور پی ٹی آئی ساتھ ہی یہ بھی کہتی ہے کہ ان کے چیف آف سٹاف نے وہ بیان دے کر غلطی کی جس پر انہیں پکڑا گیا۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید نے تو یہ بھی کہا کہ بہت بڑی غلطی کی۔ چیف آف سٹاف کے چیف عمران خان نے کہا کہ چیف آف سٹاف نے وہ والی لائن غلط پڑھی، اس سے یہ تاثر ملا کہ ہم فوج کو (افسران بالا کیخلاف) اکسا رہے ہیں۔
اس بیان سے ثابت ہوا کہ مقدمہ جس الزام پر درج ہوا، وہ غلط نہیں، پھر، اس سب کے باوجود، پی ٹی آئی یہ کیوں کہتی ہے کہ ساری قوم ہمارے چیف آف سٹاف کے ساتھ کھڑی ہے۔ پتہ نہیں اب یہ معاملہ کس کے سمجھنے کا ہے اور کس کے سمجھانے کا ہے۔ بہرحال، پرویز الٰہی کی اس ”درست فہمی“ نے پی ٹی آئی کے بعض احباب کے مزاج برہم کر دئیے۔ وہ ناراض ہیں کہ پرویز الٰہی ڈٹے کیوں نہیں رہے۔ ہم نے قربانی دے کر انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا۔ وہ ہماری خاطر اتنا بھی نہیں کر سکتے تھے۔
مطلب وہ پنجاب پولیس کو حکم دیتے کہ رینجرز سے بھڑ جاﺅ، ایسا حکم کوئی وزیر اعلیٰ پنجاب دے سکتا، یہاں تک کہ اگر عثمان بزدار ہوتا تو وہ بھی نہیں دے سکتا تھا۔ لیکن چلیے، فرض کر لیجیے کہ پرویز الٰہی ایسا حکم دے دیتے تو پھر کیا ہوتا؟ ۔ یہی ہوتا کہ پنجاب پولیس انکار کر دیتی۔ اس انکار کے بعد پرویز الٰہی کے پلّے کیا رہتا؟۔ پرویز الٰہی کے پلّے کچھ نہ رہنے کے بعد خود پی ٹی آئی کے پلّے کیا رہ جاتا۔ پنجاب حکومت دونوں کے ہاتھ سے نکل جاتی۔ دونوں اتحادی پلّہ خالی ہونے کے باب میں ہم پلّہ ہو جاتے۔ پرویز الٰہی نے سمجھداری کر کے اپنی وزارت اعلیٰ بھی بچا لی اور پی ٹی آئی کی صوبائی کابینہ بھی۔
پی ٹی آئی صورت حال سے جتنی پریشان ہے، اس سے سو گنا زیادہ پریشان خود عمران خان ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ ان کا چیف آف سٹاف ریمانڈ کے دوران کچھ ایسا ویسا بیان نہ دے دے جو خان کے لیے ہتھکڑی بن جائے۔ یہاں ایک مزے کی بات ہے اور مزید مزے کی بات یہ ہے کہ یہ مزے کی بات خود عمران خان کو بھی معلوم ہے اور مزے کی وہ بات یہ ہے کہ چیف آف سٹاف ایسا ویسا بیان پہلے ہی دے چکا ہے جو خان صاحب کے خدشات درست ثابت کرنے کے لیے اپنی جگہ کافی ہے۔ مزید تفتیش تو ”موراوور“ کے لیے ہے۔
بہرحال، خان صاحب کو زیادہ گھبرانے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ ”سازمانِ بندوبست“ کا فی الحال کوئی ارادہ خان صاحب کو بہت زیادہ تنگ کرنے کا نہیں ہے۔ بہت سی مصلحتیں اور رموز ہائے ناز و نیاز کا تقاضا یہی ہے کہ ”غداری کیس“ کو شہباز گل( اور ایک آدھ مزید اگر قابو میں آ جائے ) تک محدود رکھا جائے۔ غداری کیس کے بجائے، چنانچہ خان صاحب کو توشہ خانہ کیس پر توجہ دینی چاہیے۔ جس کا ”ارلی وارننگ سگنل“ خان صاحب کو وصول ہو چکا ہے۔
کاش پاکستان سری لنکا بن ہی جائے۔
یہ دعا آج کے اخبار کی خبر پڑھ کر دل سے نکلی۔ ایک عالمی ادارے نے رپورٹ جاری کی ہے کہ ”بھوک“ کے اعتبار سے پاکستان عالمی فہرست کے بہت نچلے درجے یعنی 92 نمبر پر ہے۔ خطے کے دیگر ممالک پاکستان سے بہتر ہیں اور سری لنکا تو بہت ہی بہتر جو پاکستان سے 26 درجے اونچا ہے یعنی 66 ویں نمبر پر ہے۔ بنگلہ دیش 76 ویں نمبر پر یعنی پاکستان سے وہ بھی 14 درجے اونچا ہے۔ پاکستان کی یہ ترقی معکوس پچھلے چار برسوں میں بہت بڑھی۔ بس یہ دیکھ کر دعا کر ڈالی!
تبصرہ لکھیے