محمود غزنوی نے ہندوستان، افغانستان اور وسطِ ایشیا میں اپنی فتوحات کا ڈنکا بجایا، لیکن بعد میں آنے والا کوئی حکمران اُس کے پائے کا نہیں تھا۔ خود محمود کے بیٹے مسعود غزنوی نے سلجوقوں کے ہاتھوں اپنا تخت کھویا اور یوں وسطِ ایشیا کا بڑا حصہ اُن کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ پھر غزنویوں کی زیادہ تر توجہ افغانستان اور دریائے سندھ کی وادیوں تک رہی، یہاں تک کہ انہیں اپنے ہی علاقوں میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت کا سامنا کرنا پڑا: ایک نیا خاندان جو دُور دراز افغان علاقے غور سے تعلق رکھتا تھا اور اسی نسبت سے غوری کہلایا۔ اس نے محمود غزنوی ہی کے طرزِ حکومت کی نقل کرتے ہوئے ایک بڑی ریاست کی بنیاد ڈالی، جس نے خاص طور پر ہندوستان و پاکستان کی تاریخ پر اپنے گہرے نقوش چھوڑے۔
غوریوں کے ابتدائی سردار
غوری کہاں سے آئے؟ اور ان کی اصل تاریخ کیا ہے؟ اس بارے میں بہت زیادہ معلومات موجود نہیں ہے۔ البتہ یہ واضح ہے کہ جب نئے ہزاریے کے آغاز پر محمود غزنوی نے اُن کا علاقہ فتح کیا تھا تو یہ مسلمان نہیں تھے۔ 1009ء میں ابو علی وہ پہلا غوری سردار تھا، جس نے اسلام قبول کیا۔
پوری گیارہویں صدی میں غوری سردار غزنویوں کے ماتحت رہے اور کبھی کبھار حالات کو دیکھتے ہوئے سلجوقیوں کی حمایت کا دم بھی بھرتے تھے۔ انہی میں سے ایک سردار علاء الدین حسین تھا، جس نے غزنی پر قبضہ کیا اور پھر بہت بھیانک انداز میں اپنے بھائیوں کے قتل کا بدلہ لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے غزنوی خاندان کے حکمرانوں کی قبریں تک کھود ڈالی تھیں اور نہ صرف اُن کی ہڈیاں بلکہ پورے شہر کو بھی جلا کر خاک کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ اسے علاء الدین جہان سوز یعنی دنیا کو جلا ڈالنے والا کہتی ہے۔
یہی علاء الدین تھا جس نے 1152ء میں سلجوقیوں کو خراج دینے سے انکار کیا اور پھر سلطان احمد سنجر کے مقابلے پر آ گیا تھا۔ بُری طرح شکست کھائی، پکڑا گیا اور دو سال تک قید میں رہا۔ بھاری تاوان کے عوض رہائی پانے کے بعد غور واپس آیا اور پھر یہاں مرتے دم تک سردار رہا۔
علاء الدین کے بعد اس کا بیٹا سیف الدین محمد حکمران بنا، جو ایک جنگ میں مارا گیا اور حکومت اُس کے چچا زاد غیاث الدین محمد کے ہاتھ آئی، جو بہت قابل حکمران تھا۔ اس نے اپنے بھائی معز الدین محمد کی مدد سے غزنی کو دوبارہ فتح کیا۔ اس کامیابی کی یادگار کے طور پر ہری رُود کے کنارے ایک عظیم مینار بھی تعمیر کیا جسے منارِ جم کہا جاتا ہے۔ 213 فٹ بلند یہ مینار آج بھی موجود ہے اور اس پر غیاث الدین محمد کا نام کندہ ہے۔
دو بھائی، غیاث الدین اور شہاب الدین
غیاث الدین محمد کے دور میں ہی اس کا بھائی معز الدین محمد عملاً سلطنت کے مشرقی حصوں کا مالک تھا۔ وہ غزنی سے ان تمام علاقوں پر حکمرانی کرتا تھا جو آج افغانستان، پاکستان اور ہندوستان میں واقع ہیں۔ در حقیقت ہندوستان پر مسلمانوں کی عملی حکومت قائم کرنے کا کام اسی نے کیا تھا۔ سن 1202ء میں غیاث الدین کے بعد معز الدین سلطنت کا حکمران بنا اور شہاب الدین محمد غوری کے نام سے تخت پر بیٹھا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ خراسان سے بنگال اور ہمالیہ کے دامن سے دریائے سندھ کے دہانے تک غوری سلطنت کا علم لہرا رہا تھا۔
غوری اور پرتھوی
یہ وہ دور تھا جب دلّی اور اجمیر پر چوہان خاندان کی حکومت تھی، جس کا حکمران پرتھوی راج چوہان تھا۔ غوری اور پرتھوی کی باہمی کشاکش ایسی تھی کہ آج تقریباً 800 سال بعد بھی ہمیں اس کا اندازہ پاکستان اور بھارت کے میزائل پروگرام سے ہوتا ہے۔ ایک طرف بھارت کا پرتھوی میزائل ہے تو دوسری جانب پاکستان کا غوری۔
پرتھوی راج چوہان اور شہاب الدین غوری کی پہلی بڑی لڑائی سن 1191ء میں ترائن کے مقام پر ہوئی تھی، جو موجودہ کرنال اور تھانیسر کے درمیان واقع ہے۔ غوری کو یہاں شکست ہوئی، وہ زخمی بھی ہوا اور بڑی مشکل سے جان بچا سکا۔ لیکن اگلے سال وہ پھر اسی میدان پر مقابلے کے لیے آیا اور اس بار پرتھوی راج چوہان کو شکستِ فاش دی، جو جنگ میں مارا بھی گیا۔
پھر اجمیر سے لے کر دلّی تک سب کچھ شہاب الدین اور اس کے سالار قطب الدین ایبک کے قدموں تلے تھا، جس نے ایک کے بعد دوسرے علاقے فتح کیے اور کچھ ہی عرصے میں غوری سلطنت کو بامِ عروج تک پہنچا دیا۔
شہاب الدین کی شہادت
ہندوستان میں عظیم فتوحات کے بعد شہاب الدین نے مشرق کی جانب توجہ کی۔ 1204ء میں خوارزم فتح کرنے کی کوشش کی، جو بُری طرح ناکام ہوئی، ایسی کہ خود اس کے مارے جانے کی افواہ تک پھیل گئی۔ یہ خبر سنتے ہی پنجاب میں بغاوت پھوٹ پڑی، جسے ختم کرنے کے لیے وہ 1205ء میں دوبارہ لاہور آیا اور اس بغاوت کا خاتمہ کر دیا۔ لیکن واپس غزنی جاتے ہوئے جہلم کے قریب دریائے سندھ کے کنارے ایک شخص نے اسے قتل کر دیا۔ کچھ مؤرخ کہتے ہیں کہ قاتل کھوکھر تھا، کچھ گھکڑ قوم سے قرار دیتے ہیں، لیکن لگتا یہی ہے کہ قاتل اسماعیلی تھا، جن کے خلاف شہاب الدین نے بھرپور کارروائیاں کی تھیں۔
بہرحال، شہاب الدین غوری کا مقبرہ آج جہلم کے قریب سوہاوہ کے اسی مقام پر موجود ہے۔
تبصرہ لکھیے