جناب جاوید چوہدری اور برادرم امجد اسلام کو سرکار کی طرف سے جو قومی اعزازات ملے ہیں، ان پر انھیں جس قدر بھی تہنیت پیش کی جائے وہ کم ہے۔ ان کے علاوہ دوسرے ادیبوں، فنکاروں کو بھی ہماری مبارکباد۔
گزشتہ کالم میں آزادی کے 75 برسوں کو یاد کیا گیا تھا۔ اس میں مشرقی پاکستان کا بھی ذکر تھا۔ چند نوجوانوں کو سرے سے اس بارے میں کچھ معلوم ہی نہ تھا، اس لیے خیال آیا کہ کیوں نہ اس خطے کا ذکر کیا جائے جس نے اگر ووٹ نہ ڈالے ہوتے تو پاکستان وجود میں ہی نہ آتا۔ شیخ مجیب 17 مارچ 1920میں ٹنگی پاڑا (اب بنگلہ دیش) میں پیدا ہوئے۔ گھر والے انھیں ’’کھوکا‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کی آنکھوں میں تکلیف کی وجہ سے ان کی تعلیم کا سلسلہ چار برس کے لیے منقطع رہا۔ 1938 میں ان کی شادی ہوئی ۔ 15 اگست 1975 کو ان کے تینوں بیٹے اپنی بیویوں سمیت قتل کردیے گئے۔
وہ اپنے گھر کی سیڑھیوں سے نیچے اتر رہے تھے جب گھر میں گھس آنے والے فوجیوں نے انھیں نشانہ بنا کر اڑا دیا۔ یاد رہے کہ یہ وہی شیخ مجیب الرحمن ہیں جو 1944 میں مسلم لیگ میں شامل ہوئے اور اسی وقت سے وہ آل بنگال مسلم اسٹوڈنٹس لیگ میں شریک ہوئے اور انھوں نے مسلمانوں کے خلاف ہونے والے نسلی فسادات میں مسلمانوں کو بچانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا۔ وہ پہلے طلبا کی سیاست سے وابستہ ہوئے۔ کبھی گرفتار ہوئے، کبھی رہا ہوئے۔ آہستہ آہستہ انھوں نے پاکستانی سیاست میں مرکزی حیثیت حاصل کرلی۔ وہ لوگ جو اس زمانے کی سیاست سے آگاہ ہیں انھیں معلوم ہے کہ وہ ایک ایسے سیاسی رہنما تھے جو عوام میں سے اٹھا تھا۔
اپنے لوگوں کے دکھ درد سے آگاہ تھا اور انھیں واقعی حل کرنا چاہتا تھا۔ ان کے گھر کی دیواروں پر برطانوی راج کی عطا کردہ آرائشی تلواروں کی نمائش تھی اور نہ ان کے باپ، دادا، پردادا میں سے کسی کو ’’سر‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ انھوں نے اپنی کتاب ’’ادھوری یادیں‘‘ کا آغاز نہایت سادگی سے کیا ہے، لکھتے ہیں۔
دوست احباب مجھ سے کہتے رہتے تھے، ’’تم اپنی یادداشتیں تحریر کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘ ساتھی بھی مجھ سے یہ مطالبہ کرتے رہتے، ’’اپنی سیاسی زندگی کے واقعات لکھ رکھو، ایک دن کام آئیں گے۔‘‘ میری شریک حیات نے بھی ایک دن جیل کے دروازے کے ساتھ بنے ہوئے کمرے میں ملاقات کے دوران مجھ سے کہا، ’’اب تو تمہارے پاس وقت ہی وقت ہے۔
اپنی داستان حیات لکھ ہی ڈالو۔‘‘ میں نے اسے جواب دیا، ’’لکھنا کہاں آتا ہے۔ اور میں نے ایسا کیا کیا ہے جسے لکھا جائے؟ میری زندگی کے واقعات سے آگاہی عوام کے کس کام آئے گی؟ میں کچھ بھی تو حاصل نہیں کرسکا! صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ اپنے اصولوں اور پسندیدہ شخصیات کی خاطر معمولی سی قربانی دینے کی کوشش کی ہے۔‘‘ ایک شام کو جب جیل وارڈن میرے کمرے کو باہر سے تالا لگا کر جا چکا تھا، ڈھاکا سینٹرل جیل کے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھے بیٹھے کھڑکی سے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے مجھے سہروردی صاحب کی یاد آئی۔ کیسے ان سے میری شناسائی ہوئی تھی اور کیسے ان کے ساتھ میرا گہرا تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ کس طرح انھوں نے مجھے سیاست کی الف بے سکھائی تھی اور کیسے مجھے ان کی محبت اور رفاقت نصیب ہوئی۔
اچانک دل میں خیال آیا کہ اگر میں واقعات کو مہارت سے بیان کرنے پر قدرت نہیں رکھتا تو کیا ہوا؟ جو کچھ میری یادداشت میں محفوظ ہے، اسے حوالہ تحریر کرنے میں مضائقہ ہی کیا ہے؟ کم سے کم وقت ہی آسانی سے کٹ جائے گا! ویسے بھی جیل میں کتابوں اور اخبارات کا مطالعہ کرتے کرتے آنکھیں تھک جاتی تھیں۔ اس خیال کے آتے ہی میں نے ایک نوٹ بک سنبھالی اور لکھنا شروع کردیا۔ اس لمحے اندازہ ہوا کہ مجھے بہت کچھ یاد ہے۔ یادداشت اچھی طرح میرا ساتھ دے رہی تھی۔ تاریخ اور دن میں ایک دن کا فرق ہو سکتا تھا مگر مجھے امید تھی کہ واقعات کو صحت کے ساتھ لکھ پاؤں گا۔ میری شریک حیات، رینو میرے لیے کئی نوٹ بکس خرید کر جیل کے اہلکاروں کے حوالے کر گئی تھی۔ انھوں نے یہ نوٹ بکس اچھی طرح جانچ پڑتال کرنے کے بعد میرے حوالے کردی تھیں۔ رینو نے ایک بار پھر یاددہانی کروائی تھی کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ چنانچہ میں نے اپنی یادداشتوں کو صفحۂ قرطاس پر بکھیرنا شروع کردیا۔‘‘
یہ اس شخص کی زندگی کی کہانی ہے جس نے تحریک پاکستان کو کامیاب بنانے میں اپنی زندگی داؤ پر لگا دی۔ اگلی سطروں میں وہ اپنی ادھوری کہانی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’نااہل قیادت ہے، بے اصول رہنماؤں اور بزدل سیاست دانوں کے ساتھ مل کر کسی کو بھی قومی ترقی کے لیے کام نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ملک کی بھلائی کے بجائے ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ کب، لیکن جیل جانے کے دو یا تین دن بعد مجھے پبلک سیکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کرلیا گیا جب کہ میں پہلے ہی جیل میں تھا۔
اس قانون کے تحت گرفتار ہونے والوں کو غیر معینہ مدت تک مقدمے کے بغیر قید رکھا جاتا ہے۔ حکومت نے ضرور یہ سوچا ہوگا کہ ہو سکتا ہے کہ اپنے خلاف ہونیوالے مقدمے سے میں بری ہو جاؤں، اس لیے انھوں نے مجھے اب پبلک سیکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا تاکہ مجھے غیر معینہ مدت تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے رکھا جاسکے۔ مجھے یاد نہیں کہ اس وقت انھوں نے مجھ پر کون کون سے الزامات لگائے تھے۔ غالباً میں نے کسی کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی اور کچھ لوگوں کو توڑ پھوڑ کرنے پر اکسایا تھا۔ معلومات کیں تو پتا چلا کہ اس بار مجھ پر لگائے جانے والے الزامات کا تعلق جیل کے مرکزی دروازے کے سامنے حال ہی میں ہونے والے پرتشدد واقعات سے تھا۔
اس روز میں عوامی لیگ کے دفتر میں دوسرے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا افطار کی تیاری کر رہا تھا۔ رمضان کے دوران جب میں ڈھاکا میں ہوتا تھا تو افطار سب کے ساتھ اپنے دفتر میں کرتا تھا۔ وہیں مجھے فون پر اطلاع دی گئی کہ چوک بازار جیل گیٹ کے باہر عوام اور جیل کی حفاظت پر مامور سپاہیوں کے درمیان معمولی تلخ کلامی ہوئی جس کے نتیجے میں سپاہیوں نے عوام کے مجمع پر فائرنگ کردی۔ فائرنگ کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور کئی لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ ڈھاکا سینٹرل جیل چوک بازار کے قریب ہی واقع ہے۔
یہ اس وقت ہوا تھا جب میں حق صاحب کی صوبائی کابینہ میں شامل نہیں ہوا تھا۔ میں نے عطا الرحمن خان کو ٹیلی فون کیا کیونکہ ان کی رہائش چوک بازار کے نزدیک ہی تھی۔ انھیں پہلے ہی واقعے کی اطلاع مل چکی تھی۔ انھوں نے مجھے اپنے گھر بلوالیا۔ وہاں سے ہم چوک بازار اور پھر جیل تک جاسکتے تھے۔ ہم چوک بازار پہنچے۔ وہاں لوگ جمع تھے، اور ان میں غم و غصے کی لہر دوڑی ہوئی تھی۔ انھوں نے ہمیں گھیر لیا اور پراشتعال انداز میں ہم سے گفتگو کرنے لگے۔ وہ سب بیک وقت پیش آنے والے واقعے سے ہمیں آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ جب ہم نے ان سے ایک ایک کرکے بات کرنے کو کہا تو وہ کچھ پرسکون ہوئے اور پورا واقعہ ہمارے سامنے دہرایا۔ (جاری ہے)
تبصرہ لکھیے