ملک میں چھ ماہ سے یہ سوال زیر بحث ہے ’’اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان آخر ایشو کیا ہے؟‘‘ میں نے یہ سوال چار ماہ میں ملک کی مختلف مقتدر شخصیات کے سامنے رکھا اور ان کے جوابات سے ایک تصویر بنائی .
اور میں آج وہ تصویر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں‘ یہ تصویر سو فیصد درست ہے یا جزوی یہ فیصلہ صرف اللہ تعالیٰ کر سکتا ہے اور میں یہ فیصلہ اسی پر چھوڑتا ہوں تاہم وہ سیاسی حقائق جو میرے نوٹس میں آئے وہ میں جوں کے توں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ سے چار شکوے ہیں‘ ان کا پہلا شکوہ 2018کے الیکشن ہیں‘ یہ سمجھتے ہیں ہمیں 2018میں دو تہائی اکثریت مل رہی تھی لیکن ہماری سیٹیںجان بوجھ کر کم کی گئیں تاکہ سندھ میں آصف علی زرداری‘ پنجاب میں ن لیگ اور وفاق میں ہمیں کم زور رکھا جا سکے چناں چہ میں کم زور مینڈیٹ کی وجہ سے کھل کر فیصلے نہ کر سکا‘ دوسرا شکوہ تھا میں نمائشی وزیراعظم تھا‘ فیصلے کوئی اور کرتا تھا اور ان فیصلوں کی بدنامی میری جھولی میں ڈال دی جاتی تھی چناں چہ میں ساڑھے تین سال کے تجربے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں اختیار اسی کے پاس ہونا چاہیے جس کے پاس اقتدار ہو‘ ملک اس بے اختیاری میں نہیں چل سکے گا۔
عمران خان آصف علی زرداری اور نواز شریف کا نام نہیں لیتے لیکن یہ مانتے ہیں ان لوگوں کا اختیار کے معاملے میں بیانیہ درست تھا‘ تیسرا شکوہ یہ سمجھتے ہیں اپوزیشن کو اسٹیبلشمنٹ نے ان کے خلاف اکٹھا کیا‘ بفرض محال یہ لوگ اگر خود اکٹھے ہوئے تھے تو بھی اسٹیبلشمنٹ کو میری حکومت بچانی چاہیے تھی لیکن یہ عین وقت پر نیوٹرل ہو گئے اور یوں ملک کا بیڑہ غرق ہو گیا اور چوتھا شکوہ میں ملک میں نئے الیکشن چاہتا ہوں لیکن یہ لوگ اس امپورٹیڈ حکومت کو سپورٹ کر رہے ہیں۔
یہ عمران خان کے بنیادی شکوے ہیں لیکن دوسرے فریقین کا موقف یکسر مختلف ہے‘ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بھی مانتے ہیں نواز شریف نے انھیں زیادہ عزت دی تھی‘ تین بار ان کی حکومت گرائی گئی‘ انھیں جلاوطن بھی کیا گیا‘ تیسری مرتبہ ان کی بیٹی کو ان کے سامنے گرفتار کیا گیا اور مریم نواز کو جیل میں بھی رکھا گیا لیکن میاں نواز شریف نے کبھی فوج کو میر جعفر اور میر صادق کا خطاب نہیں دیا‘ انھوںنے کبھی نیوٹرل کا طعنہ نہیں دیا۔
ان کی بری سے بری تقریر بھی گجرانوالہ کی تقریر تھی اور اس میں بھی وہ ہر بار جنرل باجوہ اور جنرل فیض کو صاحب کہہ کر مخاطب کرتے رہے جب کہ دوسری طرف ہزار احسانات کے باوجود فوج کو کیا کیا نہیں کہا جا رہا؟ ڈان لیکس کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے‘ رپورٹ کے جواب میں نوٹیفکیشن ری جیکٹڈ کی ٹویٹ آئی تھی اور حکومت کی رٹ تقریباً ختم ہوگئی تھی لیکن اس کے بعد بھی جب آرمی چیف نواز شریف سے ملے تو وزیراعظم نے صرف اتنا کہا ’’جنرل صاحب فیصلے غصے میں نہ کیا کریں‘‘ جب کہ یہ آج نیوٹرل ہیں تو عمران خان انھیں کیا کیا نہیں کہہ رہے۔
اسٹیبلشمنٹ مانتی ہے ہمیں غلط فہمی تھی کہ عمران خان کے پاس ملکی مسائل کا حل موجود ہے‘یہ 200 لوگ لے کر آئیں گے اور ملک بدل جائے گا لیکن جب حکومت بنی تو دو تین ہفتوں ہی میں سب کی آنکھیں کھل گئیں‘ مجھے ایک صاحب نے بتایا‘ حکومت کے شروع کے دنوں میں ہم وزیراعظم آفس گئے تو ہم نے وہاں ایک نوجوان کو دیکھا‘ اس نے بالوں میں جیل لگایا ہوا تھا‘ ہونٹوں پر چیپ سٹک تھی اور چہرے پر میک اپ تھا‘ وہ وزیراعظم کے کمرے میں جاتا تھا اور باہر نکلتا تھا‘ ہم نے اسٹاف سے پوچھا‘ یہ کون ہے؟ ہمیں بتایا گیا ہے یہ ذلفی بخاری ہیں اور ہمارے ایک کولیگ کے منہ سے حیرت سے نکل گیا ’’اف یہ ذلفی بخاری ہے‘‘ کابینہ کے پہلے اجلاس میں وزیراعظم نے تمام معاونین خصوصی اپنے سامنے بٹھا لیے اور وفاقی وزراء کو وڈیو کال پر لے لیا‘ وزراء دوسرے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے‘ وہ برا مان گئے اور انھوں نے اٹھنا شروع کر دیا‘چیف نے وزیراعظم کو سمجھایا‘ سر آپ اپنے ساتھیوں کو عزت دیں۔
یہ ڈیکورم کے خلاف ہے لیکن وزیراعظم نے اس کے باوجود معاونین خصوصی کو اہمیت دی اور یہ وزراء کو فاصلے پر رکھتے رہے‘ اسٹیبلشمنٹ کو نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاسوں میں شیریں مزاری کی موجودگی پر بھی اعتراض تھا‘ ان کا کہنا تھا ان کا پورٹ فولیو ہیومین رائیٹس ہے‘ یہ کسی بھی طرح اس کمیٹی میں فٹ نہیں ہوتیں لیکن انھیں اجلاس میں بھی بٹھایا جاتا تھا اور یہ لمبی تقریر بھی جھاڑ دیتی تھیں‘ سعودی عرب اور امریکا کے ساتھ سفارتی تعلقات کی خرابی میں بھی شیریں مزاری کی ٹویٹس کابہت ہاتھ تھا‘ انھوں نے امریکی نائب صدر کملا ہیرس کے بارے میں بھی ٹویٹ کر دی اور یہ بعدازاں غلط ثابت ہو گئی‘ وزیراعظم نے ہماری موجودگی میں ان سے پوچھا تو ان کا جواب تھا ’’وزیراعظم صاحب چھوڑیں‘ ٹویٹس ہوتی رہتی ہیں‘‘ وزیراعظم کا دعویٰ تھا ’’میں 22سال سے سیاست کر رہا ہوں‘‘ انھیں ایک دن جواب دیا گیا ’’سر ہم 70 سال سے سیاست کر رہے ہیں۔
لہٰذا ہم اپنے تجربے کی بنیاد پر آپ کو بتا رہے ہیں پارٹی اور ملک اس طرح نہیں چل سکتے‘‘ وزیراعظم نے ایک دن بگ گنز کو بلا کر کہا ’’آپ اگر اپوزیشن کے 20 لوگوں کو اٹھا لیں تو یہ سارے مسئلے ختم ہو جائیں گے‘‘ جواب دیا گیا ’’سر ہم انھیں کیسے اٹھا سکتے ہیں‘ ہمارے پاس کوئی اختیار نہیں‘‘ وزیراعظم نے کہا ’’جنرل پرویز مشرف نے بھی تو انھیں اٹھا کر جیلوں میں پھینک دیا تھا‘‘ جواب دیا گیا ’’سر وہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تھے جب کہ ملک میں اس وقت جمہوریت ہے‘ ہم لیڈرز کو کیسے اٹھا سکتے ہیں؟‘‘ وزیراعظم کا حکم تھا ’’آپ بس اٹھا لیں‘‘ جواب دیا گیا ’’سر آپ ہمیں لکھ کر آرڈر کر دیں ہم اٹھا لیتے ہیں‘‘ وزیراعظم نے کہا ’’لکھ کر کیسے دیا جا سکتا ہے؟‘‘۔
عمران خان نے میرے ساتھ ملاقات میں خدشہ ظاہر کیا تھا ’’تحریک لبیک پاکستان کے اکتوبر 2021 کے لانگ مارچ کے پیچھے نیوٹرلز تھے‘‘ میں نے اس خدشے پر تحقیق کی تو اسٹیبلشمنٹ اور سابق کابینہ کے پانچ وزراء نے تصدیق کی ’’ وزیراعظم نے اکتوبر کے آخری دنوں میں بگ گنز کو کابینہ کے اجلاس میں طلب کر کے کہا تھا‘ آپ چناب کے پُل پر اسٹیٹ کی رٹ اسٹیبلش کریں‘ چیف نے جواب دیا‘ سر فوج میں وائیٹ یا بلیک ہوتا ہے‘ گرے نہیں ہوتا‘ ہم نے اگر ایک بار آرڈر دے دیا توگولی چل جائے گی اور پہلے حملے میں پچاس لوگ مارے جائیں گے۔
آپ اگر پچاس لاشوں کا بوجھ اٹھا سکتے ہیں تو آپ حکم دے دیں‘ ہم آئینی طور پر آپ کے حکم کے پابند ہیں‘ کابینہ پر سکتہ طاری ہو گیا‘ وزیراعظم سمیت کوئی شخص نہیں بولا‘ مشہور بزنس مین اور اسٹاک ٹائی کون آرمی چیف سے رابطے میں تھے‘ اس شام انھوں نے چیف کو فون کیا اور بتایا ایک معروف فلاحی ٹرسٹ سے وابستہ شخصیت کا ٹی ایل پی سے رابطہ ہے‘ یہ درمیان کا راستہ نکال سکتے ہیں یوں بزنس ٹائی کون اس فلاحی ٹرسٹ سے وابستہ شخصیت کو لے کر آئے اور31 اکتوبر 2021 کی رات معاہدہ ہو گیا اور خطرہ ٹل گیا۔
اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے عمران خان کے دور میں سفارتی سطح پر پاکستان کو بہت نقصان پہنچا‘ وزیراعظم نے لندن کے تین دورے منسوخ کر دیے‘ ایک دورہ بہت اہم تھا‘ا مریکی صدرکانفرنس میں لندن آ رہے تھے‘ عمران خان کی شرکت کے لیے ریاست نے بہت کام کیا لیکن وزیراعظم نے ایک دن قبل یہ دورہ بھی منسوخ کر دیا‘ وزیراعظم کے اسٹاف کا کہنا تھا‘ وزیراعظم کے صاحب زادے لندن میں رہتے ہیں‘ یہ ان سے ملنے اپنی سابق اہلیہ کے گھر نہیں جانا چاہتے لہٰذا یہ ہر باردورہ منسوخ کر دیتے ہیں‘ اسی طرح وزیراعظم نے ترک صدر طیب اردگان کو سعودی ولی عہد کے بارے میں کہہ دیا… اور اردوان نے یہ بات ولی عہد محمد بن سلمان کو بتا دی اور یوں پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات انتہائی خراب ہو گئے۔
آرمی چیف کو ایک بار پھر درمیان میں آنا پڑا‘ یہ مشترکہ مشقوں کی تقریب میں شرکت کے لیے سعودی عرب گئے‘ یہ چار دن کا دورہ تھا لیکن چیف نے اسے ایک دن کا کردیا اور صرف ڈپٹی وزیردفاع شہزادہ خالدبن سلمان سے ملاقات کی اور اس میں بھی شکوہ کیا ’’آپ اگر ہمارے وزیراعظم کو پسند نہیں کریں گے تو ہمارے برادرانہ تعلقات کیسے آگے بڑھیں گے؟‘‘ شہزادہ خالد درمیان میں آئے اور یوں تعلقات بحال ہوئے‘ وزیراعظم کو دورے کے لیے سعودی عرب بلایا گیا لیکن اس بار خاتون اول کی سابق فیملی بھی ساتھ تھی اور اسٹاف کا زیادہ تر وقت وزیراعظم کی انٹری سے قبل خاور مانیکا کو ہوٹل سے نکالنے میں صرف ہوجاتا تھا‘ یہ اس مسئلے میں الجھے رہتے تھے کہ کہیں دونوں کا ٹاکرا نہ ہو جائے۔
یہ شکوہ بھی ہے حکومت میڈیا مالکان کو بھی بلیک میل کرنا چاہتی تھی‘ ایک بار افغان ایشو پر بریفنگ کے لیے وزیراعظم ہاؤس بلایا گیا‘ کراچی سے پی ٹی آئی کے سینیٹر۔۔۔۔ نے چیف کے اہم ترین ساتھی سے وقت لیا اور کہا ’’میری باس سے بات ہو گئی ہے‘ ہم‘ آپ اور میں اسلام آباد کے کسی سیف ہاؤس میں بیٹھیں گے‘ میڈیا مالکان کو باری باری بلائیں گے‘ ہم ان کو ان کے وڈیو کرتوت دکھائیں گے اور میں پھر ان سے پوچھوں گا تمہارے پاس اب کیا آپشن ہے اور یہ ہمارے ساتھ چلنے پر مجبور ہو جائیں گے‘‘ سننے والے دیر تک حیرت سے سینیٹر کی طرف دیکھتے رہے اور پھر پوچھا ’’کیا آپ جانتے ہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں اور کس کو کہہ رہے ہیں اور مجھے ذرا یہ بھی بتائیں یہ ریکارڈنگز کس نے کی ہیں؟‘‘۔
تبصرہ لکھیے