ہوم << یوم آزادی ، تجدید عہد کا دن - ظہور دھریجہ

یوم آزادی ، تجدید عہد کا دن - ظہور دھریجہ

14 اگست یوم آزادی تجدید عہد کا دن ہے۔ آج ہم 75 واں یوم آزادی منا رہے ہیں۔ ہم نے دیکھنا ہے کہ پاکستان جن مقاصد کیلئے حاصل کیا گیا، کیا وہ مقاصد حاصل ہوئے؟ بانی پاکستان کا نصب العین اور علامہ اقبال کا خواب پورا ہوا؟ آزادی ایک نعمت ہے.

دیکھنا ہے کہ ہم نے اس نعمت کا کتنا شکر ادا کیا؟ قومی اورعالمی سطح پر ہم نے کتنی کامیابیاں حاصل کیں؟ اس حوالے سے یہ تجدید عہد کا دن ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ 75 سال بعد قومی ترانے کی نئی ریکارڈنگ ہوئی ہے، یہ بھی اچھا قدم ہے مگر پاکستان کے استحکام کیلئے نئی سوچ اور نئے آئیڈیاز کی ضرورت ہے۔ پسماندہ علاقوں کی پسماندگی ختم کرنے اور محروم لوگوں کو پاکستان کی خوشیوں اور پاکستان کی برکتوں میں شامل کرنے کی ضرورت ہے۔ آج اہل وطن کو ثقافتی پاکستان کی ضرورت ہے۔ آج اس بات کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام لوگوں کو برابر حقوق ملیں۔

ہمسایہ ملک بھارت میں 188 زبانیں اور ساڑھے پانچ سو بولیاں بولی جاتی ہیں۔ ان میں سے بڑی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ حاصل ہے۔ پاکستان میں بھی اس طرح کے اقدام کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں 76 کے قریب زبانیں اور بولیاں بولی جاتی ہیں یہاں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ زبانیں جو نصابی اہلیت کے حامل ہیں انہیں قومی زبانوں کا درجہ دیا جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سابقہ غلطیوں کو پھر سے نہ دہرائیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم حقائق کو تسلیم کریں اور پاکستانی زبانوں کو اُن کے حقوق دیں۔ وسیب کے لوگوں کی پاکستان کیلئے بہت خدمات ہیں ‘ ان حقوق نہیں ملے ، اس کے باوجود وسیب کے لوگ مایوس نہیں ہیں۔ وہ نئی صبح اور نئی سحر کا انتظار کر رہے ہیں ۔

امید ہے کہ وسیب کے لوگوں کوان کا صوبہ ضرور ملے گا کہ یہ وسیب کے کروڑوں افراد ہی نہیں پاکستان کی ضرورت بھی ہے ۔ محرم کے سلسلے میں اپنے گاؤں دھریجہ نگر میں تھا، عاشورہ محرم کے بعد 14 اگست یوم آزادی کے حوالے سے تیاریاں ہو رہی ہیں۔ دوکانوں پر جھنڈیاں اور بچوں کے اسٹیکر بِک رہے تھے ۔ ملتان آیا ہوں تو پاکستان کے جھنڈوں کی بہار آئی ہوئی ہے ، بیرون بوہڑ گیٹ ، اردو بازار اور شاہین مارکیٹ کے علاقوں میں جھنڈیاں اور جھنڈے خوبصورت اسٹیکر اور پاکستانی شرٹس وغیرہ فروخت ہو رہے ہیں اور پرنٹنگ پریس دھڑا دھڑ جھنڈیاں چھاپ رہے ہیں ۔ اردو بازار کے نام کو دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ ملتان میں ایک سرائیکی بازار اور لاہور میں ایک پنجابی بازار بھی ہونا چاہئے ۔ خیر! یہ تو ایک جملہ معترضہ تھا ۔

بلا شبہ زندہ قومیں اپنے قومی تہوار جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہیں ۔ اچھی بات ہے کہ یومِ آزادی کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ لوگوں میں بھی جوش و خروش دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پاکستان کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ وسیب میں بھی یومِ آزادی کے حوالے سے جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔ تحریک آزادی سے لیکر قیامِ پاکستان اور بعد ازاں استحکام پاکستان کیلئے وسیب کی خدمات تاریخ کا حصہ ہیں ۔ وسیب کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ سابق ریاست بہاولپور نے پاکستان کیلئے دامے ، درمے ، قدمے، سخنے ساتھ دیکر قربانی و ایثار کی نئی تاریخ رقم کی۔ اب ان قربانیوں کو تسلیم کرنے اور اس خطے کے لوگوں کو اس کا صلہ دینے کی ضرورت ہے۔

یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کیلئے ریاست بہاولپور کی خدمات سرائیکی عوام کی طرف سے تھیں کہ کسی بھی ملک کا فرمانروا محض امین ہوتا ہے، اصل مالک عوام ہوتے ہیں ۔ ریاست بہاولپور کی پاکستان کے لئے کتنی خدمات ہیں ؟ اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے نواب بہاولپور نے ریاست کی طرف سے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کیا جس پرایک طرف مملکت خداداد بہاولپور اور دوسری طرف پاکستان کا جھنڈا تھا ،پاکستان قائم ہو تو قائداعظم ریاست بہاولپور کی شاہی سواری پربیٹھ کر گورنر جنرل کا حلف اٹھانے گئے ،پاکستان کی کرنسی کی ضمانت ریاست بہاولپور نے دی ،پہلی تنخواہ کی چلت کیلئے پاکستان کے پاس رقم نہ تھی تو نواب بہاولپور نے پہلے تنخواہ کی چلت کے لئے کروڑوں روپے کی خطیر رقم دی۔

قائد اعظم نے نواب بہاولپور کو محسن پاکستان کا خطاب دیا۔ نواب بہاولپور نے 1200 ایکڑ رقبے پر مشتمل بر صغیر جنوبی ایشیاء کا سب سے بڑا صادق پبلک سکول ، دنیا کی سب سے بڑی سنٹرل لائبریری ، جامعہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ ، بہاولپور میں بہت بڑا سٹیڈیم ، سب سے بڑا چڑیا گھر اور 1906ء میں ہندوستان کا سب سے بڑا وکٹوریہ ہسپتال قائم کیا ۔ بہاولپورکے محلات اتنے شاندار تھے کہ یورپ بھی ان پر رشک کرتا تھا ، محلات میں فرنیچر پر سونے کے کام کے علاوہ برتن بھی سونے کے تھے ۔عوام کی خوشحالی کا یہ عالم تھا کہ وسیب کے لوگوں نے طلے والا کھسہ یعنی سونے کی تاروں والے جوتے پہنے ۔

کوئی مانے یا نہ مانے یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کے وجود کی عمارت مقامی افراد کی سر زمین پر قائم ہے، اسے کوئی گملے کی شکل میں ہندوستان سے اُٹھا کر نہیں لایا ۔ حکمرانوں کی بے توجہی کے باعث آج پاکستان کے مقامی باشندوں کی حالت دیکھئے، وہ صرف وسائل سے محروم نہیں ہوئے ، ان کی زبان ، تہذیب و ثقافت بھی خطرات کا شکار ہے۔ جب یوم آزادی کے موقعہ پر ریڈیو ، ٹی وی پر ملی نغمے ’’ تو بھی پاکستان ہے ،میں بھی پاکستان ہوں۔ یہ تیرا پاکستان ہے، یہ میرا پاکستان ہے ‘‘ سنتا ہے تو منہ میں انگلی ڈال کر سوچوں میں گم ہو جاتا ہے کہ کیا واقعی ایسا ہے؟

یوم آزادی کا پیغام یہ ہے کہ وسائل اور مسائل کی برابر تقسیم اور تمام علاقوں کے ساتھ مساویانہ سلوک ہو۔ تاکہ وہ بھی ملی نغمے ’’ تو بھی پاکستان ہے ، میں بھی پاکستان ہوں ‘‘ کی گنگناہٹ میں شریک ہوں ۔

Comments

Click here to post a comment