غالبا ایک سال کا تھا جب مجھے اپنے انتہائی اہم حصہ، اپنی شہ رگ کے لیے پہلی لڑائی لڑنی پڑی۔ میری قوم کے نوجوان اور کچھ سپاہیوں کا عزم، کچھ آہوں اور سسکیوں کا جواب تھا کہ میں کچھ حصہ آزاد کروانے میں کامیاب ہوگیا۔ دشمن بہت بڑا تھا، مگر مکار اس سے بھی زیادہ تھا۔ مجھے کچھ بڑوں کی عدالت میں لے گیا۔ بات سنی گئی اور فیصلہ ایسا دیا گیا کہ آج تک میں اس فیصلے کے ارد گرد گھوم رہا ہوں۔
خیر میری عمر کی دوسری دھائی تھی۔ ابھی میں نے عمر کی اٹھارویں بہار ہی دیکھی تھی کہ دوسری لڑائی لڑنی پڑی اور عمر کے چوبیسویں حصے میں ایک تیسری لڑائی میں کودنا پڑا۔
اپنوں کی نااہلی، اندرونی ریشہ دوانیاں اور ذاتی انا کی جنگ نے میرا ایک بازو ۔۔میرا سونار بنگلہ مجھے سے چھین لیا ۔
اور اپنی عمر کی تیس بہاریں مکمل کرنے سے پہلے میں ایک چوتھی بہت بڑی علاقائی جنگ کا ہر اول دستہ بن چکا تھا۔
آپ سب سمجھ رہے ہوں گے کہ جس ملک کی اٹھان جنگ و جدل میں گزری ہو بھلا وہاں رنگ و زندگی کی بات کہاں ہوتی ہوگی۔ اس لئیے جب بھی میرے بارے میں کہیں بات ہوئی تو مجھے دقیانوسی، اکھڑ، بدمعاش، علاقے میں دہشت پھیلانے والا اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازا گیا۔
مگر کیا یہ سچ تھا؟ کیا یہ سچ ہے؟
انھی دنوں جب میرے آس پاس جنگ کے بادل منڈلاتے رہے۔ میرے لوگ آپس میں شیر و شکر رہے۔ میری کہانی جنگ نہیں، میری کہانی میری جدو جہد ہے۔
میری جدو جہد میری ازادی، خودمختاری اور میری بقا سے منسلک ہے۔ وہی جو میرے بانیان نے میری بنیادوں میں ڈالا وہ میری قوم کا طرہ امتیاز بھی ٹھرا۔
اس جدو جہد کے نتیجے میں یہاں پیار، محبت، یگانگت کی کونپلیں بھی پھوٹیں۔ کبھی کوئی لسانی یا علاقائی تعصب دیکھنے کو نہ ملا۔ میرے لوگ ۔۔میرے باسی ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ حتی کہ میرے دونوں طرف کے ہمسائے نفرتوں کے بیج بوتے مگر فصل بھی خود ہی کاٹتتے۔
مگر ہاں ایک زہر قاتل خاموشی سے میری قوم کی رگوں میں سرایت کرتا رہا۔ یہ زہر تھا طاقت کا۔ اندھی طاقت جس میں بھائی کو حقیر جاننے کا ہنر سیکھایا جاتا ہے۔ وہ طاقت جس میں دوسرے کا مال ہڑپ کرجانے کو اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ وہ طاقت جس میں دین و مذہب اور اس سے جڑی بہترین پاکیزہ ہستیوں کو اپنے مقاصد کے لئیے استعمال کرنا حلال سمجھا جاتا ہے۔ وہی طاقت جس کے ذریعے علاقائی عصبیت کے زہر ہلاہل کو لوگوں کی رگوں میں اتار کر انھیں درندہ صفت بننے پر مجبور کر دیا جاتا ہے۔ وہ طاقت جس کے ذریعے آپ اتنے گہرے پردوں کے پیچھے چھپ جاتے ہیں کہ مظلوم کی آہ اور سسکیاں نہ آپ کو میرے وجود میں بستے لوگوں سے سنائی دیتی ہیں اور نہ کشمیر و ہندوستان و افغانستان میں سنائی دیتی۔ یہ وہ طاقت ہے جس میں ہابیل کو قتل کرنے والا قابیل ہے اور شیطان پرے کھڑا قہقہے لگا رہا ہوتا ہے۔
اس زہر قاتل نے میرے سارے رنگ مجھ سے ایک ایک کر کے چھیننا شروع کردئیے۔
میرا وجود کہ جس سے علامہ اسد جیسا نامور جڑنا سعادت سمجھتا ہو، جس کی کوکھ سے لفظوں کی خوشبو بکھیرنے والے فیض تو کہیں منٹو تو کہیں اشفاق تو کہیں ابن صفی پیدا ہوئے ہوں۔ جس کے رنگوں کو اپنے الفاظ میں ڈھالنے والی قراۃ العین ہو یا نگر نگر پھرنے والا بنجارہ مستنصر حسین تارڑ ہو، جس کے سروں کو نیرہ نور، نور جہاں، نصرت فتح علی خان جیسے نابغوں نے اوج کمال تک پہنچا دیا ہو۔ جس کے کھلاڑیوں نے آسمان کے تارے میرے قدموں میں لا کر ڈھیر کر دئیے ہوں، جس کی بقا کی خاطر شہیدوں کا خون صرف اور صرف اپنے دشمنوں سے لڑ کر قوم و ملت کو امر کر دیتا ہو، جس کی رجز کشمیر و افغانستان کے خون کو گرماتے ہوں اور جس کے کشادہ چوڑے سینے ہندوستان کے مظلوموں کو ایک امید دلاتے ہوں۔
آج اس ملک کو۔۔۔۔مجھے۔۔۔ اس طاقت کے زہر قاتل نے ایسا بے بس، ایسا گھائل کردیا ہے کہ میں اپنی بقا کی جنگ کے لئیے اپنے دشمنوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا چاہتا ہوں۔
تاریخ کے دریچوں سے جھانکتا ہوں تو اپنے آبا کو مسکراتے دیکھتا ہوں۔ مگر ان کے عروج کے ساتھ ان کے زوال کی کہانیاں بھی بکھری پڑی ہیں۔ عبرت کے لئیے، اسباق کے لئیے، اگر کوئی سننا چاہے، اگر کوئی سمجھنا چاہے۔
مگر طاقت کے پجاری اور ان کے حواری مجھے نوچنے اور میرے لوگوں کا وقار مٹی میں ملانے پر تلے ہیں۔
مگر ٹہرو۔ میری زمیں میں سے صدائے لا تقنطو کون دے رہا ہے؟
رکو ذرا ۔۔۔ کان لگاؤ۔ یہ کون سر پھرے ہیں جو آخری وقت تک نہ جھکنے، نہ بکنے کا نعرہ مستانہ لگا رہے ہیں۔
یہ کون ہیں؟ کیا انھیں نہیں معلوم کہ دنیا کا رواج یہی ہے کہ طاقت ور اپنا دستور لاتا ہے اور اسی کے آگے سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے؟
لیکن نہیں سنو۔ ان کی دھما دھم، ان کا میرے ترانہ رجزیہ انداز میں پڑھنا۔ دیکھو ان کا سینہ چوڑا کر کہ یہ عہد کرنا کہ آزادی کی قمیت ادا بھی کریں گے اور اسے تکمیل تک بھی پہنچائیں گے۔ یہ وہ مغنی ہیں جن کی ہر اک صدا میں میری ہی خوشبو مہک رہی ہے۔
تو کیا ہوا جو تھوڑا سا غم آگیا۔ تو کیا ہوا جو کچھ زخم لگے۔ میرے آبا نے اگر میرے لئیے کوئی زاد راہ چھوڑا ہے تو وہ یہی ہے - آزادی اور اس کی حفاظت اور اسے پایہ تکمیل پہچانے کی جدو جہد!!
چلو تمھیں اپنے ایک بیٹے کی نظم سناتا ہوں۔ سنو۔۔۔وہ کیا کہہ گیا۔ سنو اور یاد رکھو ۔۔ تمھیں کاروان آزادی کو جاری رکھنا ہے۔۔۔ سنو اور بڑھے چلو۔۔ دشمنوں کے تیروں کا رخ تمھاری طرف ہے۔ مگر تمھاری اٹھان ہی اس کی شکست ہے۔ ۔۔۔ سنو!!!!
اب مرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس سے پہلے بھی مرا نصف بدن کاٹ چکی
اسی بندوق کی نالی ہے مری سمت کہ جو
اس سے پہلے مری شہ رگ کا لہو چاٹ چکی
پھر وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں
پھر مرے شہر میں بارُود کی بُو پھیلی ہے
پھر سے "تُو کون ہے میں کون ہوں" آپس میں سوال
پھر وہی سوچ میانِ من و تُو پھیلی ہے
مری بستی سے پرے بھی مرے دشمن ہوں گے
پر یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا ہاتھ ہی اکثر مری جانب لپکے
میرے سینے میں سدا اپنا ہی خنجر اترا
پھر وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر ہوئیں عام وہی اہلِ ریا کی باتیں
نعرۂ حُبِّ وطن مالِ تجارت کی طرح
جنسِ ارزاں کی طرح دینِ خدا کی باتیں
اس سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبحِ وحشت کی طرح شامِ غریباں کی طرح
اس سے پہلے بھی تو پیمانِ وفا ٹوٹے تھے
شیشۂ دل کی طرح آئینۂ جاں کی طرح
پھر کہاں احمریں ہونٹوں پہ دعاؤں کے دیے
پھر کہاں شبنمیں چہروں پہ رفاقت کی ردا
صندلِیں پاؤں سے مستانہ روی روٹھ گئی
مرمریں ہاتھوں پہ جل بُجھ گیا انگارِ حنا
دل نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ بازو کے لئے زلف کا بادل رویا
مثلِ پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دونیم
نوکِ دشنہ سے کھچی تھی مری دھرتی پہ لکیر
آج ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
اے مرے سوختہ جانو مرے پیارے لوگو
اب کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے دلگیر مرے درد کے مارے لوگو
کسی غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے
خود کو تقسیم نہ کرنا مرے سارے لوگو
(نظم: احمد فراز)
تبصرہ لکھیے