عارف علوی صاحب نے کہ صدرمملکت کے عہدے پر فائز ہیں‘ پیشکش کی ہے کہ وہ ملکی مفاد میں اور نفرتیں ختم کرانے کیلئے شہبازشریف اور عمران خان سے ملاقات یا مذاکرات کرنے کیلئے تیار ہیں۔ مذاکرات کرنے یا مذاکرات کرانے؟ انہوں نے بات واضح نہیں کی‘ اگرچہ بات پھر بھی واضح ہے اور وہ یہ ہے کہ
میں نہیں‘ میرے وچ میرا یار بولدا
بتانے والے بتاتے ہیں کہ صدر صاحب نے یہ پیشکش دراصل اپنے ’’یار دلدار‘‘ کی طرف سے کی ہے اور بتانے والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ یار دلدار ’’حقیقی آزادی‘‘ کیلئے تینوں فریقوں سے بات چیت‘ اگرچہ فی الحال پردہ داری سے‘ کرنے کیلئے تیار ہیں بلکہ سراپا انتظار بنے ہوئے ہیں۔ تین فریق یعنی اول امریکہ‘ دوئم شہباز حکومت‘ سوئم وہ حضرات جنہیں انہوں نے میرجعفر اورمیر صادق کا ’’عرفی نام‘‘ عطا کیا ہے۔ موخرالذکرکے بارے میں معتبر ذرائع کی معتبر اطلاعات ہیں کہ انہوں نے ’’فی الحال جواب موصول نہیں ہو رہا‘‘ کا آپشن کھول رکھا ہے۔
انوکھی ستم ظریفی ہے کہ ادھر سے نمبر آن بلاک کئے گئے‘ ادھر والوں نے ’’بلاک‘‘ کر دیئے۔ ’’فریق وسط‘‘ یعنی حکومت وقت کا معاملہ ہے کہ فی الحال انہوں نے سنی ان سنی کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے اور فریق اول یعنی امریکہ یعنی وہ طاقت جس نے سائفر کے ذریعے میر جعفر اورمیر صادق کو ساتھ ملایا اور خان صاحب کی حکومت کا تختہ الٹ دیا‘ ہنس دیئے اور چپ رہے کی تصویر بنا ہوا ہے۔ سو اب چوراہے پر سمت بتانے والا کھمبا ہی غائب ہے‘ جائیں تو جائیں کہاں‘ کا نغمہ پس منظر میں گونجتا ہے۔
کہا جا سکتا ہے کہ صدر صاحب نے جس مشن کا بیڑہ اٹھانے کا اعلان کیا ہے‘ اس میں انہیں 25 فیصد کامیابی مل گئی ہے۔ یعنی یار دلدار تیا رہے ، باقی تین فریق کوئی سگنل ہرے رنگ کا نہیں دے رہے جو کل ملا کے 75 فیصد بنتے ہیں۔
بہرحال ’’احباب‘‘ کو صدر صاحب کی پیشکش پر غور کرنے کی یقین دہانی تو کرا ہی دینی چاہئے کیونکہ جو بھی ہوا‘ صدر صاحب ’’صاف دامن‘‘ آ دمی ہیں۔ یقین نہیں آتا تو چند ماہ پہلے کا فیصلہ دیکھ لیں جس میں صدر صاحب کے دامن پر لگے پی ٹی وی پر قبضے کا داغ صاف کر دیا گیا تھا۔ ان کی صاف دامنی پر یقین رکھیں اور ان ویڈیو آڈیو کلپس کو مسترد کر دیں جو کچھ اور کہانی بیان کرتی ہیں۔ بقول چودھری شجاعت ان پر ’’مٹی پائو اور روٹی شوٹی کھائو‘‘!
یار دلدار نے ’’امریکہ‘‘ فتح کرنے کیلئے چومکھی مہم شروع کر رکھی ہے۔ کے پی کے کے وزیراعلیٰ نے امریکی سفیر کو ریڈ کارپٹ استقبال دیا۔ اسی کرسی پر انہیں براجمان کرایا‘ پھر بیک روم میں ان کی بات چیت ویڈیو لنکس کے ذریعے یار دلدار سے کروائی جس میں معافی تلافی اور تجدید الفت کی باتیں ایک طرف سے کی گئیں پھر امریکہ میں پی آر یا لابنگ کیلئے ایک فرم کی خدمات حاصل کی گئیں؎
محبت میں ایسے زمانے بھی آئے
کبھی رو دیئے اور کبھی مسکرائے
امریکہ کی طرف سے فی الوقت بندلبوںکے ساتھ مسکراہٹ کا جواب ملا ہے۔ یعنی وہی شہرہ آفاق مولا لیزا کی مسکراہٹ۔ لیکن خدشہ رکھنے والوں کو خدشہ ہے کہ امریکہ کوئی شرط ہی نہ لگا دے۔ ایسی شرط کہ یہاں پہلے ’’امریکی سازش‘‘ والی تھیوری کو غلط فہمی پر مبنی قرار دیکر اسے سرعام واپس لو کہ ہتک عزت بھی تو سرعام ہوئی ہے۔ اس کے بعد چشم ما روشن و دل ما شاد والا مرحلہ بھی آسکتا ہے۔
ایسا ہوا تو پھر تو بڑی مشکل ہو جائے گی صاحب!
اطلاعات ہیں کہ ’’اندر کھاتے‘‘ اگلے برس مارچ اپریل میں انتخابات کو جلد انتخابات قرار دینے کی رضامندی یار دلدار نے دے رکھی ہے۔ صدر صاحب نے مذاکرات والے بیان میں جس ’’جلد انتخابات‘‘ کی بات کی ہے‘ اس سے مارچ اپریل ہی مراد ہے اور غلط بھی نہیں۔ قائدے سے الیکشن اگلے اگست ستمبر میں ہونے ہیں‘ چنانچہ چار مہینے بھی پہلے ہو جائیں تو جلد ہی ہوئے۔ دیکھنے کی بات ہے کہ حکومت جس کا اعتماد بڑھ گیا ہے‘ وہ ان چار مہینوں کی رعایت دیتی ہے یا نہیں۔
دوسری طرف یار دلدار کے چاہنے والوں کے جذبات اور اعتماد کو پے درپے ٹھیس لگی ہے۔ فارن فنڈنگ کے معاملے نے کوئی مانے نہ مانے چاہنے والوں کی نظر دھندلا دی ہے اور کسی حد تک ایک تعداد کو بے یقینی میں مبتلا کر دیا ہے۔ ضمنی طورپر یہ اطلاع بھی آپ نے سن لی ہوتی کہ فیصلہ سنایا جانے سے ایک دن پہلے تک رابطہ کاری کی ایک مہم زور و شور سے جاری تھی کہ فیصلہ ضرور سنا ئیے۔ ہم آپ کو روکتے نہیں‘ لیکن براہ کرم آٹھ دس دنوں کیلئے ملتوی کر دیجئے۔ جہاں آٹھ برس‘ وہاں آٹھ دن اور۔
اس آٹھ دس دن میں کیا ہو جانا تھا؟ یار دلدار کو کس معجزے کی امید تھی۔ یہ بات بدستور صیغہ راز میں ہے۔ شاید کسی نہ کسی دن ’’ڈی کلاسی فائی‘‘ ہو ہی جائے۔فارن فنڈنگ کی بلا نے گلا پکڑا ہی تھا کہ ادھر سے سوشل میڈیا پر فوج کے خلاف ایک عجیب و غریب اور ناقابل تصور قسم کی توہین اور نفرت سے بھری مہم چل پڑی اور اس کا ملبہ بھی یار دلدار پر گرا۔ اب یار دلدار کتنا بھی لاتعلقی ظاہر کرے‘ کچھ بلکہ کافی ناہنجار قسم کے شواہد ایسے مل گئے ہیں جو ناسازگار ہیں۔ اور ابھی یہ دوسری بلا بھی چمٹی ہوئی تھی کہ تیسری بلا شہباز گل کے ’’بیپر والے تحریری خطاب‘‘ کی شکل میں آپڑی۔ پہلے دو روز تو چاہنے والوں نے لاتعلقی ظاہر کی‘ لیکن اب وہ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے ہیں کہ ہم شہبا گل کے ساتھ ہیں اور گل نے کچھ غلط نہیں کیا۔ اس سے نقصان کم ہوگا یا بڑھ جائے گا!
انصاف کی میزان کیا کہتی ہے اس بارے میں‘ جواب
حالات کے منہ سے اداہونے میں زیادہ دیر نہیں‘ شاید!
اس بار یوم آزادی پر لاہور میں جو نظارہ دیکھا‘ کبھی دیکھنے کا سوچا بھی نہیں تھا۔ سرکاری اہلکار جی ہاں سرکاری اہلکار قومی پرچم کھمبوں سے اتار کر پی ٹی آئی کے پرچم لگا رہے تھے‘ بعض کھمبوں سے قومی جھنڈا اتارا تو نہیں گیا‘ لیکن ’’ہمارا جھنڈا‘‘ اس کے اوپر لگا دیا گیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار لاہور میں قومی پرچم غائب کر دیئے گئے۔ اللہ اللہ۔ شاید یہ ’’حقیقی آزادی‘‘ کے جہاد کیلئے ضروری تھا۔تصورکیجئے‘ پنجاب میں حمزہ کی حکومت ہوتی اور یہی منظر ہوتا تو کس قیامت کا منتظر ہوتا۔
تبصرہ لکھیے