تو ہم کہہ رہے تھے (ہم کیا سبھی اِن دنوں یہی کہتے چلے آ رہے ہیں) کہ چودہ اگست تجدیدِ عہد کا دن ہے۔ خیر اس جملے کا کچھ حاصل نہیں جب تک کوئی اہلِ دل اپنی خلوت میں اس عہد کو پہچان کر خود پر طاری نہ کر لے۔ مگر اس کے لیے پاکستان اور پاکستان کی ہر علامت کو سینے سے لگانا ناگزیر ہے!
مثلاً اسی پرچم کو لے لیجیے ، امیر الدین قدوائی صاحب نے جب اس کا ڈیزائن قائد اعظم کے مشورے سے طے کیا اور ماسٹر افضال و ماسٹر الطاف نے جب اسے پہلی بار سِیا ، تو اس دو رنگے کپڑے میں چند خوابوں کے سِوا کچھ بھی نہیں تھا۔
کیا دو گز کپڑے کی بھی کچھ وقعت ہے، جبکہ اٹھارہ لاکھ افراد کاٹ اور جلا کر راکھ کر دیے جائیں؟؟؟ہزاروں عفیفائیں کنوؤں میں کود کر عفت بچا لے جائیں؟ اِسی قدرمائیں بہنیں بیٹیاں آبرو سے جائیں؟؟؟
لیکن اس کی شان تو یوں ہے کہ لاکھوں مسلمان اس پرچم پہ قربان ہوئے اور کروڑوں فدا ہونے کو بیٹھے ہیں ۔
فروری انیس سو سی سینتالیس میں جب 14 برس کی فاطمہ صغریٰ نے یونین جیک کے پرچم کو اتار کر ، پاکستان کا سبز ہلالی پرچم سول سیکرٹریٹ پر لہرایا تو کیا اسے انگریز پولیس کی سنگینوں کا کوئی خوف نہ آیا ہو گا؟؟؟ لیکن خوف تو ہم سب کو آن لیتا ہے، جو اس خوف کو نظر انداز کرتے ہوئے جاں لڑا دے ، اسی کو تاریخ اپنے پنّوں میں با عزت مقام دیتی ہے۔ وہی فاطمہ صغریٰ اگلے روز بر عظیم کی خواتین کا آئیڈیل بن چکی تھیں۔ یہاں تک کہ اسرار الحق مجاز بھی پکار اٹھے!
تیرے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے ، لیکن
تُو اِس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
آنچلوں کا اس پرچم سے کتنا گہرا رشتہ ہے ، یہ مٹی خوب پہچانتی ہے ۔
تبصرہ لکھیے