ہوم << ایک قدم پیچھے ہٹیں- محمد اکرم چوہدری

ایک قدم پیچھے ہٹیں- محمد اکرم چوہدری

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گل کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے پولیس اور شہباز گل کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد جسمانی ریمانڈ کی استدعا منظور کرتے ہوئے دو روز کے لیے پولیس کے حوالے کرتے ہوئے جمعہ کے روز شہباز گِل کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا۔

شہباز گل کے اقدام کی حمایت نہیں کی جا سکتی انہیں آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ کب کہاں اور کیسے بولنا ہے وہ ہر وقت ایک مزاحیہ فنکار کی طرح نامناسب اور غیر معیاری گفتگو کرتے رہتے تھے، سنجیدگی اور ذمہ داری کا ان سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن سیاست دانوں اور صحافیوں پر ذاتی حملے اور بدزبانی کرتے کرتے وہ یہ بھول گئے کہ ریاستی اداروں کے حوالے سے ایسی زبان کی عوامی سطح پر بھی پذیرائی نہیں ہوتی، لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں۔ گفتگو کی حدود و قیود ہوا کرتی ہیں۔ ریاستی اداروں کے حوالے سے کسی بھی قسم کی متنازع گفتگو بیرونی دنیا میں بھی پاکستان کے دشمن اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے ایسے کرداروں نے مسائل میں اضافے کے سوا کچھ نہیں کیا۔ پی ٹی آئی میں یہ اکیلے نہیں ان جیسے کئی اور بھی ہیں جن کی زبان سے کبھی کلمہ خیر ادا نہیں ہوا۔ نامناسب اور غیر معیاری بولتے بولتے وہ اتنا آگے نکل گئے کہ سب کچھ بھول گئے اب بھگتیں گے۔ ان کے بیانات کا وزن پاکستان تحریکِ انصاف کو اٹھانا پڑے گا۔ ویسے یہ پہلا موقع نہیں ہے ماضی میں بھی ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں۔ سیاست دان اقتدار ختم ہونے کے بعد اداروں کو نشانہ بناتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ یہ ہوا ہے کہ پی ٹی آئی نے باقاعدہ طور پر تصادم کا راستہ اختیار کیا۔ اداروں کے حوالے سے نامناسب رویہ اختیار کیا بالخصوص ہیلی کاپٹر سانحہ کے بعد جو رویہ اختیار کیا گیا اس کے بعد حالات زیادہ خراب ہوئے۔ عوامی حمایت اور مقبولیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ریاستی اداروں پر حملے جاری رکھے .

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ الفاظ پر قابو نہ رہا اور کل تک خبریں دینے والے شہباز گل آج خود ایک خبر بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف سے ایک غلطی یہ بھی ہوئی کہ سب کے سب عمران خان بننے کے چکروں میں زمینی حقائق کو نظر انداز کیے بیٹھے ہیں یہی وجہ ہے کہ بات چیت کے دروازے بند نظر آتے ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ ن بھی اداروں کے حوالے سے سخت باتیں کرتی رہی لیکن ان کی جماعت میں ایک بڑا حلقہ اداروں کے حوالے سے سخت گفتگو کی مخالفت کرتا رہا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے کیس میں صورت حال مکمل طور پر مختلف ہے۔ یہاں سب ایک ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد آج تک انہوں نے اصلاح کا کوئی راستہ نیں نکالا بلکہ یہ تاثر دینے کوشش ہوتی رہی کہ شاید ادارے بھی پاکستان تحریکِ انصاف کے مخالف ہیں۔ جب اس انداز میں معاملات کو آگے بڑھایا جائے گا تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا۔

سیاسی جماعتیں اقتدار سے نکلتی بھی ہیں اور واپسی بھی ہوتی ہے لیکن اداروں کے ساتھ محاذ آرائی اس انداز میں نہیں ہوتی جو راستہ پاکستان تحریکِ انصاف نے اختیار کیا یہ تصادم کی طرف لے کر جاتا ہے۔ اس حکمت عملی کی وجہ سے ملک میں انتشار پیدا ہوا، ملک سیاسی و معاشی استحکام سے دوچار ہوا۔ اب یہ الگ پہلو ہے کہ کیا یہ واقعی پارٹی پالیسی تھی یا نہیں اس حوالے سے حکومت اپنا کام کر رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس کارروائی سے سیاسی درجہ حرارت میں کمی آئے گی۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ فوری طور پر ایسا ممکن نہیں ہے۔ یقیناً پی ٹی آئی کے سپورٹرز میں بے چینی پیدا ہو گی۔ اس کا حل صرف یہی ہے کہ غیر ضروری گفتگو سے پرہیز کریں اور سیاسی عمل کا حصہ بنیں۔ صبح دوپہر شام بولنے والوں سے کنارہ کریں۔ سوشل میڈیا پر نامناسب گفتگو کرنے والے سامنے آ رہے ہیں.

اور ان کا تعلق پی ٹی آئی سے نکل رہا ہے یہ چیزیں سوچنے اور عقل استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ اچھی بھلی سیاسی جماعت کو چند بے وقوفوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں ہونا چاہیے۔ وفاقی وزیر برائے بحری امور فیصل سبزواری کہتے ہیں کہ "شہباز گِل خوش قسمت ہیں کہ فیصل آباد سے تعلق ہے ایک ٹیلیفون گفتگو سننے اور تالی بجانے پر دہشتگردی کے مقدمات بنے، ہم نے کیا دہشتگردی کی تھی ؟ہم پر عام لوگوں کو تشدد پر اکسانے پر مقدمے بنے، شہباز گل پر جوانوں کو اکسانے پر کیا دہشت گردی کا مقدمہ بنا۔"یہ وہ چیزیں ہیں جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے گوکہ فیصل سبزواری نے بھی صوبائیت کو ہوا دی ہے لیکن جب حالات بنتے ہیں تو پھر سیاسی لوگ اپنا غصہ نکالتے ہیں۔ پاکستان تحریکِ انصاف اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کرے۔

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کہتے ہیں "کوئی شک نہیں شہداء کے خلاف ٹرینڈ پی ٹی آئی کی طرف سے چلایا گیا اور ٹرینڈ چلانے والے چھ لوگوں کی شناخت ہوگئی ہے۔ عمران خان نے شہباز گل کے بیانیے کی تائید کی، انہوں نے جو بیانیہ پیش کیا ہے وہ پی ٹی آئی کا بنیادی بیانیہ ہے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ عمران خان شہبازگل کے بیان کی مذمت کریں گے اور معافی مانگیں گے۔" بات بڑھ گئی ہے سیاسی لوگ اپنی مخالفت کی وجہ سے بھی زیادہ سخت رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں لیکن کیا ایسا کرنے سے معاملات بہتر ہو جائیں گے۔ یقیناً نہیں ملک کے وسیع تر مفاد میں سب سے پہلے پی ٹی آئی کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔

ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا اور یہ کام صرف پاکستان تحریکِ انصاف ہی نہیں بلکہ حکومت کو بھی کرنا ہے۔ حکومت بھی جمہوری تویے اختیار کرے اور پارلیمنٹ کی کارروائی کا خیال کرے۔ تمام اداروں کو وسیع تر ملکی مفاد میں ایک ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا۔ تصادم کے راستے سے ہٹنا ہوگا اور مصالحت کا راستہ اختیات کرنا ہو گا۔

Comments

Click here to post a comment