قیامت کی گھڑیاں ہیں۔وطنِ عزیز میں ہر کوئی اپنی اپنی جگہ پر ، اپنی اپنی استطاعت کے مطابق، دباؤ کے حصار میں ہے۔ عوام بھی دباؤ میں ہیں ، حکمران بھی اور بادشاہ گر قوتیں بھی۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ہر پاکستانی شہری اپنے ہی ہم نفسوں کو شک و شبہے کی نگاہ سے دیکھنے لگا ہے ۔
دوست، احباب کی مجالس بھی مشتبہ ہو گئی ہیں کہ نجانے کون ، کس آلے کے ساتھ ، کس کے لیے وڈیو آڈیو بنا رہا ہو؟یہ آڈیوز، وڈیوز آلات چھوٹے پیمانے پر ہمارے ’’منکر نکیر‘‘ بن گئے ہیں ۔ اللہ اللہ،اندازہ لگائیے کہ جب اصل منکر نکیر اپنی اصل، سچی اور ناقابلِ تنسیخ آڈیوز، وڈیوز کے ساتھ اللہ کے حضور ہمارے بارے میں شہادتیں پیش کریں گے تو کیا منظر ہوگا! ہمارا بیچارہ روپیہ بھی ڈالر کے دباؤ میں ہے۔ پاکستانی روپیہ خوار و زبوں ہوتا ہوتا ایک ڈالر کے مقابل 250 تک پہنچ کر واپس224روپے تک آیا ہے ۔ شہباز شریف کی حکومت کے چار ماہ کے دوران بھی ڈالر کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہُوا ہے۔
یہ ہے شہباز اسپیڈ؟ ابھی کچھ پتہ نہیں روپیہ ، ڈالر کے مقابلے میں، نشیب و فراز کا شکار ہو کر ساری قوم ، سارے ملک اور ہماری ساری معیشت کو کہاں لے جائے گا؟ مہنگائی کی شرح 25 فیصد تک پہنچ چکی ہے ۔اتحادی حکومت کے وزیر اعظم اور وزیر خزانہ پھر بھی مسکرا رہے ہیں ۔ مجالس میں بیٹھ کر ہاتھوں پر ہاتھ مار کر ہنس رہے ہیں ۔ اُن کی مسکراہٹیں اور قہقہے بے بس اور بیکس 22کروڑ عوام کے سینوں اور دلوں پر بجلیاں گرا رہے ہیں ۔’’سیاست کے بجائے ریاست کو بچانے‘‘ کا دعویٰ لے کر تختِ حکمرانی پر براجمان ہونے والے ہمارے اِن حکمرانوں نے آئی ایم ایف سے قرض کی آس و اُمید لگا رکھی ہے ۔ آئی ایم ایف کے مغربی ساہوکار بھی مگر اتنے ستم ظریف واقع ہُوئے ہیں کہ قرض دینے کے وعدے تو کیے ہیں ، ابھی تک ڈالر نہیں دیے ہیں۔نئے دباؤ کے سامنے سرنڈر کرتے ہُوئے موجودہ حکومت نے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ کرکے عوام کی کمر تو توڑ ڈالی ہے لیکن امریکی ڈالر پھر بھی نہیں ملے۔ یوں چاروں اُور مزید دباؤ بڑھا ہے اور مایوسی کی تاریکیاں بھی ۔
اِس دباؤ کو ہمارے آرمی چیف نے بھی واضح طور پر محسوس کیا ہے؛ چنانچہ انھوں نے اس دباؤ میں کمی کرنے کے لیے مبینہ طور پر خود امریکی نائب وزیر خارجہ، وینڈی شرمن، سے براہِ راست رابطہ کرکے گزارش کی ہے کہ محترمہ اپنا اثرو رسوخ بروئے کار لا کر آئی ایم ایف پر اپنا دباؤ بڑھائیے تاکہ آئی ایم ایف ہمیں قرض دینے کا وعدہ جَلد پورا کرے۔ انھوں نے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج کے حصول کے لیے سعودی عرب اور یو اے ای حکام سے بھی رابطہ کیا ہے۔ یعنی آئی ایم ایف کا طبیب جلد آ کر ہی ہماری ڈوبتی مالی نبضوں کو بحال کر سکتا ہے : چھیتی بَوڑھیں وے طبیبا، نئیں تاں مَیں مر گئیاں!ہم میں سے ہر کوئی بیقراری سے اس ’’ حاذق طبیب‘‘ کی راہ تک رہا ہے۔ تبھی تو خود جنرل صاحب کو بھی میدان میں کودنا پڑا ہے ۔مطلب یہ ہے کہ حکومتی کارپرداز آئی ایم ایف کا قرضہ حاصل کرنے میں ناکام و نامراد ہو چکے ہیں۔وزیر خزانہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ دُنیا سے اُدھار مانگتے ہُوئے شرم آتی ہے۔ایسے میں عمران خان کہہ رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے بات کرنا جنرل صاحب کاکام نہیں ہے ۔
اس بیان کو خانصاحب کی خود غرضی کہا جا سکتا ہے۔ ’’ایکسپریس ٹریبیون‘‘ نے6اگست کو خبر دی ہے کہ ’’2018 میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے دوران بھی پاکستان کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے آرمی چیف کو خلیجی ممالک کے ساتھ بات چیت کرنا پڑی تھی ۔‘‘ تب عمران خان آرمی چیف بارے مصلحتاً خاموش رہے تھے۔ عمران خان کے مذکورہ بیان کو کئی ممتاز بھارتی اخبارات نے خوب اُچھالتے ہُوئے پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سیاستدانوں کو مالی معاملات کے سدھار کے لیے جنرل باجوہ کی اِس بھاگ دوڑ کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ۔
پنجاب میں نون لیگ کی حکومت اور نون لیگی وزیر اعلیٰ کی فراغت اور نون لیگی ڈپٹی اسپیکر کے نکالے جانے سے اگرشہباز شریف کی اتحادی حکومت سخت دباؤ اور ڈپریشن میں ہے تو عمران خان بھی دباؤ میں ہیں۔ مثال کے طور پر ممنوعہ فنڈنگ میں پی ٹی آئی کے پانچ سینئر رہنماؤں کو ایف آئی اے میں طلب کرنا۔ حکومت نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے تازہ فیصلے کی بنیاد پر جو اقدامات کیے ہیں، اس کی شدت اور حدت خان صاحب بھی یقیناً محسوس کررہے ہیں۔ کہا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پرجو بے پناہ دباؤ ڈال رکھا تھا، اِسی کے کارن الیکشن کمیشن کو اچانک فیصلہ بھی سامنے لانا پڑا ہے ۔
دوسری جانب پی ڈی ایم کی شکل میں اکثریتی سیاسی جماعتیں بھی مطالبہ کرتے ہُوئے دباؤ ڈال رہی تھیں کہ عمران خان فارن فنڈنگ یا ممنوعہ فنڈنگ کیس کے بارے میں کیا گیا فیصلہ سامنے لایا جائے۔ اور جب مشہور اور معتبر برطانوی اخبار ( فنانشل ٹائمز) کے تحقیقی صحافی، سائمن کلارک، نے29جولائی 2022 کو عمران خان کی فارن فنڈنگ بارے جو نئے اور حیرت انگیز انکشافات کیے تو انھوں نے بھی عمران خان اور پی ٹی آئی پر نئے اسلوب کا خطرناک دباؤ پیدا کر دیا۔
عمران خان اور اُن کے عشاق اس دباؤ کی شدت محسوس کرتے ہُوئے ’’ فنانشل ٹائمز‘‘ کے الزامات کی نت نئے انداز میں توجیحات تو کرتے رہے لیکن بات ان سے بن نہ سکی ۔ شہباز شریف اور نواز شریف نے بھی دباؤ بڑھانے کی غرض سے مذکورہ برطانوی اخبار کی تہلکہ خیز رپورٹ کے پیشِ نظر عمران خان کے خلاف ٹویٹس کیں۔ اتحادی حکومت کے چار بڑوں نے بھی الیکشن کمیشن سے ملاقات کرکے مطالبہ کیا تھاکہ فارن فنڈنگ کا فیصلہ جلد سنایا جائے ۔ الیکشن کمیشن اِس متنوع دباؤکے سامنے بھلاکب تک بند باندھے رکھتا؟ 2 اگست 2022 کو بالآخر اُسے 40روز قبل کیا گیا فیصلہ سنانا ہی پڑا ۔ یہ دراصل دباؤ ہی کا نتیجہ تھا ۔
پنجاب کی نئی حکومت بھی دباؤ کے حصار میں ہے۔ نئی پنجاب کابینہ بنانے کے پہلے مرحلے میں قاف لیگی ارکانِ اسمبلی کو وزیر بنانے سے گریز کا عمل دباؤ کو ظاہر کررہا ہے ۔دُور کھڑی نون لیگ بھی سخت دباؤ میں ہے ۔ شہباز شریف کی صورت میں نون لیگ نے چاؤ چاؤ سے وزارتِ عظمیٰ کے جھولے تو لے لیے ہیں ، چند دن کے لیے پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے مزے بھی چکھ لیے ہیں لیکن اب نئے اور شدید دباؤ نے نون لیگی قیادت کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ عمران خان و چوہدری پرویز الٰہی کی متحدہ قیادت و قوت کی جانب سے مرکزی حکومت پر ہر روز نیا دباؤ بڑھایا جارہا ہے کہ شہبازشریف حکومت ختم کرکے نئے انتخابات کا اعلان کریں ۔ فواد چوہدری نے شہباز شریف کو ایک ماہ کا ’’الٹی میٹم‘‘ دیتے ہُوئے مطالبہ کیا ہے کہ ایک ماہ میں اسمبلیاں تحلیل کی جائیں ۔
پی ٹی آئی نے 13اگست کو ایک بار پھر اسلام آباد میں ، نئے الیکشن کی تاریخ لینے کے لیے،ایک بڑا جلسہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے ۔ شہباز شریف کب تک اس متحدہ و متفقہ دباؤ کے سامنے ٹھہر سکیں گے ؟ صاحبزادہ صاحب ، حمزہ شہباز، خاموشی سے لندن چلے گئے ہیں۔اِس اچانک روانگی نے بھی پنجاب میں نون لیگیوں کے لیے نیا دباؤ پیدا کیاہے ۔نون لیگ کے اندر عجب کھچڑی پک رہی ہے ۔
تبصرہ لکھیے