سی ایٹل Seattleمیں ہمارا ہوٹل دیکھنے میں خاصا شاندار تھا کمرے بھی بہت اچھے تھے مگر ناشتہ اپنا اپنا تھا کہ Receptionکے پاس چائے کافی کے سامان کے ساتھ بیکری کی ایک دو چیزیں رکھی تھیں جن کے بارے میں شوکت فہمی کا مشورہ تھا کہ یہ احسان نہ ہی اُٹھایا جائے تو بہتر ہے.
البتہ کافی کا ایک ایک کپ پینے میں کوئی حرج نہیں۔ خالد حفیظ نے گزشتہ رات رخصت ہوتے وقت بتایا تھا کہ صبح کے برنچ نما ناشتے کا پروگرام طے ہے اور اس کے بعد دو تین گھنٹے کے لیے شہر کا چکر لگایا جائے گا۔معلوم ہوا کہ یہ شہر اس وقت امریکا میں آئی ٹی انڈسٹری کا نمایندہ شہر ہے، بل گیٹس ہمارے ہوٹل سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر رہتا ہے اور یہاں مائیکروسافٹ، ایمیزان اور جہاز ساز کمپنی بوئنگ کے صدر دفاتر نہ صرف واقع ہیں بلکہ ان کی عمارتوں میں مسلسل توسیع ہو رہی ہے اور یہ کہ یہ شہر امریکا کے بڑے اور پرہجوم شہروں کی نسبت کئی وجوہات کی بنا پر زیادہ پسندیدہ اور قابل رہائش ہے اور اب وہاں اپنی کمیونٹی میں بھی خاصی بڑی ہوچکی ہے۔
نسلی تعصب کے حوالے سے بھی یہ شہر بہت فراخ دل اور مہمان نواز ہے، ناشتے میں ہماری میزبان کراچی کی ایک فیملی تھی جو مل کر اس پاکستانی ریستوران کو بہت خوبی سے چلارہی تھی اگرچہ اب کیٹرک کے آپریشنزکے بعد مجھے دُور کی عینک کی ضرورت نہیں رہی مگر تقریباً ساٹھ برس سے عینک کے مسلسل استعمال کے بعد اب یہ میرے چہرے کا ایک ایسا حصہ بن چکی ہے کہ اس کی عدم موجودگی دیگر ملنے ملانے والوں سے قطع نظر خود مجھے بھی عجیب عجیب سی لگتی ہے۔
اب ہُوا یوں کہ اُس کی ایک سائیڈ کا پیچ Looseہوگیا اور وہ کسی طرح سے اپنی جگہ پر رُک نہیں رہا تھا ، خالد حفیظ نے بتایا کہ شہر کی تین بڑی بڑی عینکوں والی دکانوں سے انھوں نے رابطہ کیا ہے مگر ہر جگہ ناکامی ہوئی ہے کہ ان کے بقول اسے فیکٹری بھیجنا پڑے گا جہاں مرمت میں دو تین دن بھی لگ سکتے ہیں۔
شاہانہ ریستوران کے مالک افتخار صاحب بہت دلچسپ اور زندہ دل آدمی تھے جب کہ ان کی بیگم بھی(جن کے نام پر کیفے کا نام رکھا گیا تھا) اُن سے کم نہیں تھیں شہر کی سیر کو نکلے تو پہلا تاثر یہی تھا کہ یہاں کی بیشتر عمارات بلندی سے زیادہ پھیلاؤ کے انداز میں تعمیر کی گئی ہیں ایک پر ہجوم جگہ پر ایک ایسی عمارت تھی جہاں ارد گرد کے گاؤں کے لوگ اپنی چیزیں لا کر فروخت کرتے ہیں لیکن سب سے دلچسپ نظارا ساحلِ سمندر کے قریب Starbucks کافی والوں کا ایک آؤٹ لیٹ تھا جس کے باہر داخلے کے لیے خاصی طویل قطار لگی تھی، معلوم ہوا کہ یہ اس کمپنی کی طرف سے بنائی جانے والی سب سے پہلی دکان ہے اوریوں لوگ اسے ایک تاریخی عمارت کے طور پر بھی دیکھنے کے لیے آتے ہیں۔
اس نشست کا اہتمام Seattleکی پاکستان ایسوسی ایشن اور سی ایٹل ادبی محفل نے مل کر کیا تھا چھٹیوں کے سیزن کے باوجودہال بھرا ہوا تھا، پروگرام میں میری اور شوکت فہمی کی شعر خوانی کے علاوہ مجھ سے متعلق کئی آئٹم رکھے گئے تھے جن میں تعارف اور انٹرویو کے ساتھ ساتھ میرے کلام کی گائیکی اور حاضرین سے میرے بارے میں Quizبھی شامل تھے۔ اکثر سوالات کے صحیح جوابات سن کر خوشی ہوئی کہ احباب کو میری کتابوں اور ڈراموں سے بھر پور آشنائی تھی۔
سینیئر شاعر اویس جعفری صاحب نے میرے لیے لکھی ہوئی ایک نظم پڑھی جو اُن کی محبت اور کمالِ فن کی آئینہ دار تھی، برادر ِ عزیز ڈاکٹر مظفر عباس اپنے بچوں سے ملنے کے لیے آئے ہوئے تھے اُن سے بھی ملاقات رہی لیکن سب سے دلچسپ بات ڈاکٹر خالد جمیل سے ملاقات تھی جو میری تدریسی زندگی کے آغاز میں ایم اے او کالج میں میرے شاگرد رہے تھے اور آگے چل کر اٹامک انرجی کمیشن میں بہت سے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اب وہ خود بھی ریٹائر ہوچکے ہیں لیکن 52سال پہلے کے قائم شدہ رشتے کا احترام ان کی ایک ایک بات سے چھلک رہا تھا۔
ان کے علاوہ بھی کئی احباب سے ملاقاتوں کے دوران کئی برسوں پرانی باتیں اور حوالے درمیان میں آئے اور یوں یہ محفل وطن سے دُور اہلِ وطن کے ساتھ ایک یادگار محفل بن گئی۔تقریب کے منتظمِ اعلیٰ خالد حفیظ سے تین برس قبل رابطہ ہوا تھا ان کی ادب سے محبت بہت روح پرور اور حوصلہ ا فزا تھی ان سے ملاقات کا پروگرام تقریباً فائنل ہوچکا تھا کہ بیچ میں کورونا صاحب آگئے اور ساری دنیا گویا ایک جگہ پر رُک سی گئی۔
سو جونہی میں نے اُنہیں بتایا کہ میں ’’اپنا‘‘ کے مشاعرے میں آرہا ہوں انھوں نے فوراً ہی وعدہ لے لیا کہ میں اُن کی طرف بھی آؤں گا، اب مسئلہ یہ تھا کہ نہ صرف نیو یارک سے Seattleتک کی فلائٹ ساڑھے چھ گھنٹے کی تھی بلکہ وہاں کے قاعدے کے مطابق مجھے اگلے ہی دن پھر لاس اینجلس کا تین گھنٹے کا سفر کرنا تھا۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ امریکا بلکہ پورے مغرب میں ادب و فن کے متعلق تقریبات پورے ہفتے کے بجائے صرف اس کے تین دنوں یعنی جمعہ،ہفتہ اور اتوار کو رکھی جاسکتی ہیں کہ بقیہ دنوں میں اپنے اپنے کام کی مصروفیات کے باعث احباب کے لیے وقت نکالنا بہت مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے میں نے LAکی میزبان شمسہ نجم کو بہت کہا کہ اتوار کے لیے اصرار نہ کریں کہ تین دنوں میں تیس گھنٹے ہوائی سفر میں گزارنے کی وجہ سے فلائٹ اور مشکل ہوجائے گی مگر بالآخر ان کی مجبوری ہی کامیاب ٹھہری یہ اور بات ہے کہ انھوں نے برادرم اعجاز بلخی کے ساتھ مل کر پروگرام کرنے کے بجائے اُردو مرکز والوں سے رابطہ کیا معلوم ہوا کہ آپا نیئر جہاں کی وہاں سے فلوریڈا منتقلی کے باعث اب یہ ادارہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں آگیا ہے جو ادب دوست تو ہیں مگر ادبی تقریبات کے مسائل سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے .
سو انھوں نے عرفان مرتضیٰ، ظفر عباس اور ریحانہ جمیل کو مدعو توکیا مگر غالباً اُن سے مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی جس کی وجہ سے مشاعرے کی اس تقریب پر کبھی کبھی الیکشن کی مہم کا سا گمان ہونے لگتا تھا کہ اکثر مقررین دیر دیر تک ہمیں اپنے کارناموں سے ہی آگاہ کرتے رہیں۔ مزید تفصیل اگلے کالم میں۔
تبصرہ لکھیے