ہوم << یوم شہادت سیّدنا حضرت عمرؓ - اسما نذیر

یوم شہادت سیّدنا حضرت عمرؓ - اسما نذیر

حضرت عمرؓ کا دور خلافت اسلام کا سنہری دور تھا، حضرت عمرؓ کو جب اندازہ ہوا کہ اب ان کا وقتِ رخصت قریب ہے تب وہ اللّٰہ تعالٰی سے دو دعائیں مانگا کرتے تھے۔

١۔ اے اللّٰہ! مجھے حضرت مُحَمَّد ﷺ کے شہر مدینہ میں شہادت عطا فرمانا۔
٢۔ اے اللّٰہ! مجھے شہید کرنے والا کوئی ایسا انسان نہ ہو جو آپ کے آگے سجدہ کرتا ہو، یعنی کافر ہو۔

یہ دونوں دعائیں کہ حضرت مُحَمَّد ﷺ کے شہر مدینہ میں کافر کے ہاتھوں شہید ہونا حضرت عمرؓ کے دور میں نا ممکن تھا کیونکہ وہاں جنگیں نہیں ہوتیں تھیں۔لیکن جب اللّٰہ چاہے تو کیا نہیں ممکن!

ایک دفعہ ایک کافر جس کا نام ابو لؤلؤ المجوسی تھا وہ مغیرہ بن شعبہؓ کے ہاں جنگوں میں استعمال ہونے والے اسلحہ بنانے کا کام کرتا تھا، ایک دن ابولؤلؤ وقت کے عادل حکمران یعنی حضرت عمرؓ کے ہاں شکایت لے کر حاضر ہوا کہ مغیرہ بن شعبہؓ مجھ سے کام زیادہ لیتے ہیں اور پیسے کم دیتے ہیں، حضرت عمرؓ نے دونوں طرف کے بیانات سنے اور عدل کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مغیرہ بن شعبہؓ کے حق میں فیصلہ دیا اور ساتھ ہی مغیرہ کو نصیحت کی کہ ابولؤلؤکے ساتھ نرم مزاجی سے پیش آیا کرو لیکن ابولؤلؤ اس دن سے حضرت عمرؓ کا دشمن بن گیا۔

ایک دن حضرت عمرؓ ابولؤلؤ کی دکان پر گئے اور فرمایا ابولؤلؤ! کیا کبھی میرے لٸے بھی کوٸی ہتھیار بنایا ہے؟ اسنے کہا آپ کے لیے تو ایسا ہتھیار بنایا ہے جسے رہتی دنیا تک سب لوگ یاد رکھیں گے، حضرت عمرؓ ہنستے ہوئے اور یہ کہتے ہوئے واپس آ گئے کہ اس نے مجھے مارنے کی دھمکی دی ہے۔

جس دن حضرت عمرؓ کی شہادت ہوٸی اس سے کچھ دن پہلے وہ حج کر کے آئے تھے اور صحابہ بیان کرتے ہیں کہ عرفہ میں حضرت عمرؓ اپنے ہاتھ آسمان کی جانب اُٹھا کر دعا مانگ رہے تھے اے اللّٰہ! میں اب بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری قوت اب مجھے چھوڑے جا رہی ہے اور امت دنیا میں پھیل رہی ہے مجھے اپنے پاس بلا لیجئے اس حال میں کہ آپ مجھ سے خوش ہوں، مجھ سے خوش ہو جائیے جو بھی میں نے آپ کی امت کے ساتھ کیا۔ پھر کچھ دن بعد حضرت عمرؓ مسجد میں فجر کی نماز پڑھا رہے تھے اور حضرت عمرؓ کی عمر 63 برس تھی بالکل اسی طرح جیسے حضرت مُحَمَّد ﷺ کی اور حضرت ابوبکرؓ کی عمر وفات کے وقت 63 برس تھی۔

حضرت عامر ؓ بیان کرتے ہیں کہ اس دن حضرت عمرؓ صلاہ الفجر کے لیے تشریف لائے اور میں دوسری لائن میں کھڑا تھا اور میرے اور حضرت عمرؓ کے درمیان کوئی نہیں تھا سوائے عبداللّٰہ ابن عباس کے۔ حضرت عمرؓ نے نماز میں سورہ یوسف کی تلاوت کی اور تلاوت کے دوران وہ بہت زیادہ روٸے، ابولٶلٶ نے ایسا نیزہ تیار کیا جو دونوں اطراف سے بہت تیز تھا، اس نے اس کے دونوں اطراف کو زہر میں بھگویا اور اپنے کپڑوں میں چھپا لیا اور وہ بھی جا کے جماعت میں کھڑا ہو گیا۔ حضرت عمرؓ جب سجدے میں گئے تو ابولؤلؤ نے ان پر حملہ کر دیا اور وہ نیزہ 9 دفعہ مارا، حضرت عمرؓ کے پیچھے، آگے اور سب سے بڑا حملہ ان کے معدے میں کیا،

جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ابولؤلؤ فیروز مجوسی نے نیزہ مارا تو آپ رض کو دودھ پلایا گیا جو پسلیوں کی طرف سے نکل گیا۔ طبیب نے کہا: اے امیر المؤمنین! وصیت کر دیجیے اس لیے کہ آپ مزید زندہ نہیں رہ سکتے۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے عبداللہ کو بلایا اور کہا: میرے پاس حذیفہ بن یمان کو لاؤ۔ حذیفہ بن یمان وہ صحابی تھے جن کو رسول اللہﷺ نے منافقین کے ناموں کی لسٹ بتائی تھی، جس کو اللہ، اللہ کے رسول اور حذیفہ کے علاوہ کوئی نہ جانتا تھا۔حذیفہ رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے تو امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ گویا ہوئے جبکہ خون آپ کی پسلیوں سے رس رہا تھا، حذیفہ! میں تجھے اللہ کی قسم دیتا ہوں ، کیا رسول اللہﷺ نے میرا نام منافقین میں لیا ہے کہ نہیں؟

حذیفہ رضی اللہ عنہ روتے ہوئےکہنے لگے : اے امیر المؤمنین! یہ میرے پاس رسول اللہﷺ کا راز ہے، میں اس کو مرتے دم تک کسی کو نہیں بتا سکتا۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: حذیفہ! بلاشبہ یہ رسول اللہﷺ کا راز ہے ، بس مجھے اتنا بتا دیجیے کہ رسول اللہﷺ نے میرا نام منافقین کے فہرست میں شمار کیا ہے یا نہیں؟ حذیفہ کی ہچکی بندھ گئی، روتے ہوئےکہنے لگے: اے عمر! میں صرف آپ کو یہ بتا رہا ہوں، اگر آپ کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو میں کبھی بھی اپنی زبان نہ کھولتا، وہ بھی صرف اتنا بتاؤں گا کہ رسول اللہﷺ نے آپ کا نام منافقین کی لسٹ میں شمار نہیں فرمایا۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر اپنے بیٹےعبداللہ سے کہنے لگے: عبداللہ اب صرف میرا ایک معاملہ دنیا میں باقی ہے۔ پِسر جانثار کہنے لگا: اباجان بتائیےوہ کون سا معاملہ ہے؟
سیدنا عمر رضی اللہ گویا ہوئے بیٹا، میں رسول اللہ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں دفن ہونا چاہتا ہوں۔ اے میرے بیٹے! ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاؤ اور ان سے اجازت طلب کرو کہ عمر اپنے ساتھیوں کے پہلو میں دفن ہونا چاہتا ہے۔۔۔ ہاں بیٹا، عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ نہ کہنا کہ امیر المؤمنین کا حکم ہے بلکہ کہنا کہ آپ کا بیٹا عمر آپ سے درخواست گزار ہے۔
ام المؤمنین عائشہ رضیاللہ عنہا کہنے لگیں، میں نے یہ جگہ اپنی قبر کے لیے مختص کر رکھی تھی، لیکن آج میں عمر کے لیے اس سے دستبردار ہوتی ہوں۔عبداللہ مطمئن لوٹے اور اپنے اباجان کو اجاز ت کا بتایا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اپنے رخسار کو زمین پر رکھ دیا، آداب فرزندی سے معمور بیٹا آگے بڑھا اور باپ کے چہرے کو اپنے گود میں رکھ لیا ، باپ نے بیٹے کی طرف دیکھا اورکہا اس پیشانی کو زمین سے کیوں اٹھایا۔اس چہرے کو زمین پر واپس رکھ دو، ہلاکت ہوگی عمرکے لیے اگر اس کے رب نے اس کو قیامت کے دن معاف نہ کیا۔۔۔ !” رحمک اللہ یا عمر”

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیٹے عبداللہ کو یہ وصیت کرکے اس دار فانی سے کوچ کر گئے: “جب میرے جنازے کو اٹھایا جائے اور مسجد نبوی میں میرا جنازہ پڑھا جائے، تو حذیفہ پر نظر رکھنا کیونکہ اس نے وعدہ توڑنے میں تو شاید میرا حیا کیا ہو، لیکن دھیان رکھنا وہ میرا جنازہ بھی پڑھتا ہے یا نہیں؟ اگر تو حذیفہ میرا جنازہ پڑھے تو میری میت کو رسول اللہﷺ کے گھرکی طرف لےکر جانا، اور دروازے پر کھڑے ہو کر کہنا : یا ام المؤمنین! اے مؤمنوں کی ماں، آپ کے بیٹے عمر کا جسد خاکی آیا ہے۔۔۔ ہاں یہاں بھی یاد رکھنا امیر المؤمنین نہ کہنا عائشہ مجھ سے بہت حیاء کرتی ہے۔ اگر تو عائشہ رضی اللہ عنہا اجازت مرحمت فرما دیں تو ٹھیک، اگر اجازت نہ ملے تو مجھے مسلمانوں کے قبرستان میں دفنا دینا۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ابا جان کا جنازہ اٹھایا گیا تو میرى نظریں حذیفہ پر تھیں، حذیفہ آئے اور انھوں نے اباجان کا جنازہ پڑھا۔۔۔ میں یہ دیکھ کر مطمئن ہوگیا، اور اباجان کی میت کو عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی طرف لےکر چلے جہاں اباجان کے دونوں ساتھی آرام فرما تھے۔دروازے پر کھڑے ہو کر میں نے کہا: یا أمّنا، ولدک عمر فی الباب ھل تأذنین لہ؟اماں جان! آپ کا بیٹا عمر دروازے پر کھڑا ہے، کیا آپ اس کو دفن کی اجازت دیتی ہیں؟

اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مرحبا ، امیر المؤمنین کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ دفن ہونے پر مبارک ہو۔ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ اللہ راضی ہو عمر سے جنہوں نے زمین کو عدل کے ساتھ بھر دیا ، پھر بھی اللہ سے اتنا زیادہ ڈرنے والے، اس کے باوجود کہ رسول اللہﷺ نے عمر کو جنت کی خوشخبری دی۔!!!

Comments

Click here to post a comment