پچھلی صدی میں کتنی ہی ایسی شخصیات گزریں ، جن کےنظریات نے اس دنیا کو دو مختلف صفوں میں تقسیم کردیا۔ عالمی استعمار کے خلاف جدوجہد کا استعارہ ہی ایسا جاذب نظر ہے کہ نظام سے متنفر ہر شخص کو اپنی جانب راغب کرتا ہے۔ لینن ، اسٹالن ، چی گویرا ، فیدل کاسترو ، مارٹن لوتھر کنگ ، اسامہ بن لادن ، ، ابو بکر شیکاؤ، ابو بکر بغدادی وغیرہ سب ایسی ہی شخصیات تھیں جنہوں نے ایک بڑی تعداد میں انسانوں کو اپنے اپنے نظریے کا گرویدہ بنایا اور ان میں سے ہر ایک شخص ایسا ہے کہ ہزاروں لاکھوں لوگ ان کے جانثار ہیں اور کروڑوں ان کو انسانیت کے دشمن شمار کرتے ہیں۔
ایمن الظواہری ، القاعدہ کے سابقہ سربراہ اور امریکہ و اقوام متحدہ کے مطابق انتہائی مطلوب خطرناک دہشت گرد ، جو 31 جولائی 2022 کو ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔ ان کا شمار بھی کم و بیش ایسی ہی شخصیات میں ہوتا ہے۔ ایمن الظواہری 19 جون 1951 کو مصر میں پیدا ہوئے ۔ وہ ایک اچھے اور ہونہار طالبعلم تھے ، جنہوں نے علمِ طِب میں تخصص حاصل کیا۔ مصری فوج میں تین برس تک بطور ڈاکٹر خدمات بھی سر انجام دیں ۔ اسی دوران انہوں نے سرجری میں بھی اعلیٰ اسناد حاصل کیں۔ بعد ازاں انہوں نے مصری جہاد فورم بھی تشکیل دیا ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے بطور سرجن اپنا معاشی کرئیر بھی جاری رکھا ۔
1981 میں انہوں نے پشاور کا سفر کیا ، جہاں انہوں نے ہلالِ احمر کے زیرِ سایہ اسپتال میں زخمی افغان پناہ گزینوں کا علاج کیا۔ اس موقع پر ان کی بہت سے اہم مجاہدین سے ملاقاتیں بھی ہوئیں ، جن کے ساتھ ایک اسلامی ریاست اور جہاد کی ضرورت کے حوالے گفتگو کی گئی۔ اسی سال بعد ازاں ، مصری صدر انور سادات کے قتل کے سلسلے میں ایمن الظواہری کا نام سرخیوں میں شامل رہا اور مبینہ طور پر وہ گرفتار بھی ہوئے ، اور 1984 تک جیل میں رہے۔ اسی کی دہائی میں ان کی اسامہ بن لادن سے ملاقات ہوئی ، اور افغان جہاد کے سلسلے میں الظواہری نے اہم کردار ادا کیا۔ 1998 میں انہوں نے اپنی جہادی تنظیم کو اسامہ کی القاعدہ میں ضم کر دیا۔ انہیں اسامہ کے دستِ راست کے طور پر شمار کیا جاتا تھا۔ عموماً خیال یہ ہے کہ القاعدہ کی جانب سے خود کش حملوں اور ایسی تمام پر تشدد کاروائیوں کے سرغنہ ایمن الظواہری ہی تھے۔
1998 میں انہوں نے صلیبیوں اور صہیونیوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا ، جس پر سینکڑوں نوجوان ان کے پیچھے چل پڑے۔ دو ہزار ایک میں ٹوئن ٹاورز پر حملے کا الزام امریکہ نے اسامہ اور ایمن الظواہری پر عائد کیا ، مگر اس سے بہت سال پہلے سے مختلف پر تشدد کاروائیوں کے سلسلے میں ان کا نام لیا جا رہا تھا۔ ایمن الظواہری پر متفرق پر تشدد کاروائیوں اور حملوں کی سرپرستی کا الزام تھا ، مثلاً: انیس سو ترانوے میں مصری وزیر داخلہ کے قتل کی ناکام سازش، انیس سو ترانوے میں ہی مصری وزیر اعظم کی کار کو بم سے اڑانے کی ناکام کوشش، انیس سو چورانوے میں سوڈان کی دو با اثر شخصیات کے بیٹوں کا قتل، انیس سو پچانوے میں اسلام آباد میں مصری سفارت خانے پر خود کش حملہ، 7 اگست انیس سو اٹھانوے کو متعدد ممالک میں واقع امریکی سفارت خانوں پر بم حملے کیے گئے ، جن میں تنزانیہ اور کینیا شامل تھے۔ 2000 میں امریکی اینٹی میزائل نیول شپ پر خودکش حملہ کیا گیا ، جس میں 17 افراد ہلاک ہوئے۔ بعد ازاں دو ہزار ایک گیارہ ستمبر کو جب ٹوئن ٹاورز پر حملہ کیا گیا تو امریکہ نے ایمن الظواہری کو انتہائی مطلوب شخصیت قرار دیا۔ جارج ڈبلیو بش کی جانب سے جاری کردہ 22 انتہائی مطلوب دہشت گردوں میں ایمن الظواہری بھی شامل تھے۔ ان کے سر کی قیمت 25 ملین امریکی ڈالرز ، یعنی تقریبا سوا چھ ارب موجودہ پاکستانی روپے مقرر کی گئی تھی۔ دو ہزار سات میں لال مسجد واقعہ میں بھی ایمن الظواہری کا نام لیا گیا ، ان پر الزام تھا کہ انہوں نے عبد الرشید کو اسلحہ فراہم کیا تھا۔ اسی برس بینظیر بھٹو کے قتل میں بھی انہیں ملزم شمار کیا گیا۔
ٹوئن ٹاورز پر حملے کے بعد القاعدہ کی کمان عملی طور پہ انہی کے ہاتھ میں تھی۔ پھر 2011 میں جب امریکی حکومت نے اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا تو القاعدہ کے باقاعدہ سربراہ بھی ایمن الظواہری ہی مقرر ہوئے۔ انہوں نے 2013 میں عراق و شام کی انتہا پسند تنظیم داعش سے اپیل کی کہ القاعدہ سے ہاتھ ملا لیے جائیں۔ 2021 میں جب امریکی فوج کے انخلاء کے بعد افغانستان کی حکومت طالبان نے سنبھالی تو ایمن الظواہری نے اپنا خصوصی پیغام جاری کیا ۔ ایمن الظواہری ، دس اکتوبر دو ہزار ایک سے امریکہ کو مطلوب تھے۔ با لآخر 21 برس کی مسلسل جستجو اور سر توڑ کوششوں کے باعث ، گزشتہ اتوار ، مورخہ 31 جولائی دو ہزار بائیس کو ، افغان اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق امریکہ نے کابل میں موجود ایمن الظواہری کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا۔ امریکی صدر نے اس کاروائی کے کامیاب ہونے کی تصدیق کی ۔ جو بائیڈن نے افغان طالبان پر اعتراض کیا کہ افغانستان میں امریکہ کو مطلوب ایمن الظواہری کی موجودگی ، معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری طرف افغان طالبان نے امریکہ کو مطعون کیا کہ اس نے افغانستان میں حملہ کر کے افغان حدود کی خلاف ورزی کی اور معاہدہ شکنی کی۔ القاعدہ سربراہ ایمن الظواہری تو مارے گئے ، لیکن اس کا رد عمل اور القاعدہ کا مستقبل کیا ہو گا ، یہ سوال بہر حال سر اٹھائے کھڑا ہے۔
تبصرہ لکھیے