جیسا کہ میں نے گزشتہ کالم میں بھی بتایا تھا کہ میرے اس دورے کا بنیادی اور ابتدائی محرک ’’اپنا‘‘ تنظیم کا اٹلانٹک سٹی میں ہونے والا مشاعرہ تھا۔’’اپناAPPNA‘‘ پاکستانی امریکی ڈاکٹروں کی تنظیم کا مختصر نام ہے جو ہر سال امریکہ میں مقیم اپنے ہزاروں ممبران کے ساتھ ایک تین سے چار روز کی کانفرنس منعقد کرتی ہے.
جس میں تنظیمی معاملات سے متعلق میٹنگوں کے ساتھ ساتھ بہت سے ثقافتی پروگراموں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے جس میں شرکت کے لیے وطنِ عزیز سے شاعروں، موسیقاروں، مصوروّں، گلوکاروں اور دیگراہلِ فن کو خصوصی طور پر مدعو کیا جاتا ہے۔ میں گزشتہ تیس برس میں ان کی پانچ کانفرنسوں کے مشاعروں میں شامل ہوچکا ہوں اور اس حوالے سے میں نے اس تنظیم کی بہت سی اہم خوبیوں اور خوب صورتیوں کو قریب سے دیکھا ہے۔ احباب سے ملاقات اس کے علاوہ ہے ۔ سو چھٹی بار نیو جرسی سے اٹلانٹک سٹی کی طرف جاتے ہوئے میں اتفاق سے اس تنظیم سے سب سے زیادہ واقف تھا۔ فرح کامران بہت مہارت سے ڈرائیو کرنے کے ساتھ ساتھ سفر کو مزید خوشگوار بنانے کے لیے مسلسل شعرو نغمہ سے متعلق باتیں کیئے جارہی تھیں، سو دوگھنٹے کا سفر یوں کٹا کہ پتہ ہی نہیں چلا۔
ہوٹل کی Receptionپر بھی سارے انتظامات فرح نے ہی کیئے، سو ہم ایک طرف کھڑے ہوگئے، کہیں بیٹھنے کی نوبت اس لیے نہیں آسکی کہ میزبانوں اور صورت آشنا ڈاکٹرز سمیت چاروں طر ف سے احباب آنا شروع ہوگئے تھے۔ میرے اور سعود عثمانی کے کمرے بظاہر ساتھ ساتھ تھے (454اور455) مگر حقیقت میں ان کے درمیان چالیس پچاس گز کا فاصلہ تھا کہ دونوں کمروں کے درمیان لابی کی اوپر اٹھتی ہوئی دیواریں چل رہی تھیں جبکہ کمروں کے طاق نمبر ایک طرف اور جفت نمبر دوسری طرف ان کے بالمقابل چل رہے تھے۔کمرے امریکہ ہی کی طرح بہت بڑے بڑے اور سویٹ نما تھے البتہ شائد وہاں پینے کے لیے پانی مہیا کرنے کا رواج نہیں تھا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ چند منٹ بعد ہی ’’اپنا‘‘ کی طرف سے مشاعرے کے منتظم ڈاکٹر جاوید اکبر کا فون آگیا، وہ اپنے صاحبزادے کے ساتھ ملنے آئے تو پانی کی بوتلیں بھی ساتھ لیتے آئے۔
شوکت فہمی اور افتخار عارف کے کمرے بالترتیب ساتویں اور آٹھویں منزل پر تھے۔جاوید اکبر نے بتایا کہ 9بجے ایک میوزک کا پروگرام ہے اور ہمارے کھانے کا انتظام بھی اُس کے ساتھ ہی کیا گیا ہے، پھر ہنستے ہوئے بولے، اس کے لیے پروگرام سننا ضروری نہیں ہوگا اور یوں بھی آپ لوگوں کے مشتاقانِ دید آپ کو کھانا بھی ٹھیک سے کھانے نہیں دیں گے، اُن کی بات سو فی صد صحیح نکلی کہ ہر لقمے کے دوران دس سے پندرہ تصویروں اور سیلفیوں کا سامنا رہا۔ اس دفعہ منتظمین نے ماضی کی نسبت عقل سے کام لیا اور مشاعرہ گاہ کو میوزک والے ہالز سے دُور رکھا ورنہ ہوتا یہ تھا کہ نہ صرف شاعروں کو مشاعرے کے دوران سازوں کے شور کو سننا پڑتا تھا بلکہ سامعین بھی مسلسل دونوں طرف آتے جاتے رہتے تھے۔
مشاعرے کا وقت دس بجے تھا لیکن سامعین نے تشریف لانے میں گیارہ بجادیے، یہ اور بات ہے کہ اس کے بعد کچھ ہی دیر میں خاصے بڑے ہال کے باوجود بہت سے لوگوں کو بیٹھنے کے لیے کرسی نہ مل سکی۔ اس سے پہلے کہ پانچ مشاعروں میں سے صرف آر لینڈو کے 2007ء والے مشاعرے میں ہی سامعین کی اتنی بڑی تعداد دیکھنے میں آئی اور اُن کے حسن سماعت کے باعث مشاعرہ بھی بہت کامیاب رہا۔ اگلے دن سہ پہر کو ہمیں سی ایٹل Ceatalکے لیے روانہ ہونا تھا۔
فلائٹ نیوجرسی کے Newarkائیرپورٹ سے تھی جس کا مطلب یہ تھا کہ دو گھنٹے نیو جرسی تک پہنچنے میں لگیں گے اور آگے ائیرپورٹ پر بھی دو سے تین گھنٹے قبل رپورٹ کرنا ہوگا کیونکہ Newarkامریکہ کے مصروف ترین اور کئی اعتبارسے امریکہ کابد ترین ائیرپورٹ ہے، افتخار عارف اور سعود عثمانی کو فرح کے گھر پر ڈراپ کرنے، سامان وغیرہ اُٹھانے اور الوداعی گپ شپ میں اندازے سے زیادہ وقت لگ گیا لیکن اصل مسئلہ سامان کی بکنگ اور بورڈنگ کارڈز کی فراہمی میں پیدا ہوا کہ دونوں کام کمپیوٹرائزڈ مشینوں پر کرنے واے تھے، اگر چہ شوکت فہمی 25سال امریکہ رہ کر گیا ہے مگر وہاں کے سسٹم میں ٹیکنالوجی کے حوالے سے اس قدر تیزی سے تبدیلیاں ہو رہی ہیں کہ نووارد یا ناواقف بندہ تو بالکل ہی کنفیوز ہوجاتاہے۔
ہر طرف اس قدر رَش تھا کہ فلائٹ ٹائم سے ایک گھنٹہ قبل سیکیورٹی لائن میں شامل نہ ہوسکنے والوں کے لیے پرواز کے مِس ہونے کا خطرہ 80%اور اس کے بعد گولی کی طرح بڑھتا چلا جاتا تھا، پرواز کا دورانیہ ساڑھے چھ گھنٹے تھا اور دورانِ پرواز مہمانوں کی تواضع صرف دو بسکٹوں اور ایک سافٹ ڈرنک سے کی جاتی تھی۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ہم نے اٹلانٹک سٹی میں بہت پُر ہجوم جگہ پر کسی نہ کسی طرح تھوڑا بہت ناشتہ کرلیا تھا ورنہ اتنا لمبا فاقہ سہارنا بہت مشکل ہوجاتا، اس کی ’’ کسی نہ کسی طرح‘‘ کی تفصیل یہ ہے کہ کانفرنس میں شریک بہت سے ڈاکٹر حضرات اورخواتین تصویروں اور سیلفیوں کے خواہش مند تھے جو اپنی جگہ پر ایک اچھا تہذیبی عمل ہونے کے باوجود ہمارے لیے دو مسئلے پیدا کر گیا۔
ایک تو ناشتہ ڈھنگ سے نہ ہوسکا اور دوسرا ایک خاتون نے سیلفی بنوانے کے دوران پتہ نہیں کیا کہ کچھ میری پتلون پر گرادیا ، جلدی جلدی میں نیپکن بھگو کر اپنی طرف سے بہت صاف کیا مگر فیض صاحب سے معذرت کے ساتھ داغِ ندامت سمیت وہ د اغ اور زیادہ پھیلتے چلے گئے اور جہاز میں سوار ہونے تک یہ مرض لاعلاج ہی رہا۔ کسی ملک کے ایک شہر سے اُسی ملک کے کسی دوسرے شہر تک جانے کے لیے ساڑھے چھ گھنٹے کی پرواز کا تصور آسانی سے ہضم ہونے والا نہیں، شائد اس لیے انہوں نے نفسیاتی تسکین کے لیے درمیان میں تین گھنٹے کا ٹائم ڈیفرنس رکھ دیا ہے یعنی گھڑی کے اعتبار سے آپ کے سفر میں سے تین گھنٹے کسی پراسرار طریقے سے غائب ہوجاتے ہیں۔ میں چند برس قبل غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ایک فنڈ ریزر کے سلسلے میں بھی سیایٹل آیا تھا مگر قیام چونکہ ایک ہی رات کا تھا اس لیے ائیر پورٹ یا شہر کی کوئی یاد میرے ذہن میں محفوظ نہیں تھی۔
میزبانِ خاص خالد حفیظ ہمارے پروگرام کے انتظامات کے سلسلے میں کہیں پھنسے ہوئے تھے، اُن کی جگہ شہلا ملک اور اُن کے بھائی صاحب نے ہمیں رسیو کیا، شہلا بی بی کو میری بہت سی شاعری یاد تھی اور بقول اُن کے انہوں نے میری ہر کتاب پڑھ رکھی تھی چنانچہ اُن کی وارفتگی کے جَلو میں ریسٹورانٹ تک کا سفر پلک جھپکتے میں کٹ گیا ،کچھ ہی دیر بعد خالد حفیظ بھی پہنچ گئے، گزشتہ دو برس میں اُن سے فون پر اس قدر ملاقات رہی کہ محفل پر انے دوستوں کے اجتماع جیسی ہوگئی، کھانا کچھ تو تھا ہی اچھا اور کچھ اس محفل اور وقفے کی طوالت کی وجہ سے یہ اور بھی اچھا لگا۔
تبصرہ لکھیے