ہوم << سپریم کورٹ: چند سوالات- آصف محمود

سپریم کورٹ: چند سوالات- آصف محمود

سیاسی معاملات اہل سیاست کی گرفت سے نکل جاتے ہیں تو پھر یہ عدالت میں جاتے ہیں۔ جب عدالت سے کوئی فیصلہ آ جائے تو لازم ہے کہ طوفان تھم جانا چاہیے۔ لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ معاملہ عدالت میں جاتا ہے تو تھمنے کی بجائے اس طوفان میں مزید تیزی آ جاتی ہے۔

اب اس میں کچھ سوالات کا تعلق اہل سیاست کے رویوں سے ہے کہ وہ پہلے اپنے سیاسی معاملات پارلیمان میں طے کرنے کی بجائے عدالت میں لے آتے ہیں اور پھر عدالت کی کردار کشی شروع کر کے اسے دباؤ میں لانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ تاہم کچھ سوالات کا تعلق خود نظام انصاف سے بھی ہے۔ لازم ہے کہ پورے احترام اور ساری خیر خواہی کے ساتھ ان پر غور کیا جائے۔

پہلا سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں کسی مقدمے کی سماعت کے لیے بنچ کی تشکیل کیسے ہوتی ہے؟ کیا یہ رجسٹرار ہیں جو طے کرتے ہیں کہ کون کون سا کیس کس جج کے سامنے پیش کیا جائے گا یا اس کا فیصلہ جناب چیف جسٹس آف پاکستان کرتے ہیں؟ فیصلہ محض صوابدید کی بنیاد پر ہوتا ہے یا اس کا کوئی طریقہ کار اور تحریری ضابطہ اور قانون موجود ہے؟

اس وقت جناب چیف جسٹس کے بعد سینئر ترین جج جناب قاضی فائز عیسی ہیں لیکن اہم نوعیت کے آئینی مقدمات کے لیے جو بنچ تشکیل دیے جاتے ہیں ان میں یہ سینیئر ترین جج شامل نہیں ہوتے۔ ہو سکتاہے یہ محض ایک غلط فہمی یا ایک اتفاق ہی ہو لیکن امر واقع یہ ہے کہ اب چونکہ بنچ کی تشکیل کے حوالے سے سماج میں بات ہو رہی ہے اور سوالات اٹھ رہے ہیں تو ان پر غور کیا جائے۔

دوسرے سوال کا تعلق آئین کی تشریح کے دائرہ کار سے ہے۔ یہ بات درست ہے کہ آئین کی تشریح کا اختیار سپریم کورٹ کو ہے لیکن بعض حلقے یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اس کا دائرہ کار کیا ہو گا؟ آئین میں منحرف اراکین کے ووٹ کے بارے میں یہ تو لکھا ہے کہ وہ اس کی پاداش میں ڈی سیٹ ہو جائیں گے۔ اب یہ تو تشریح کے زمرے میں آتا ہے کہ اس نا اہلی کی مدت کیا ہو گی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ان کے ووٹ مسترد کرنے کی بات بھی آئین کی شرح تصور کی جائے گی یا اسے’آئین سازی‘ میں شمار کیا جائے گا؟ کیونکہ آئین میں تو کہیں نہیں لکھا کہ ان کا ووٹ شمار ہی نہیں ہو گا۔ کیا آئین کی تشریح کے نام پر آئین میں کسی نکتے کا اضافہ کیا جا سکتا ہے؟ آئین سازی کا طریق کار واضح ہے کہ یہ بذریعہ پارلیمان ہی ہو سکتی ہے اور اس کے لیے دو تہائی اکثریت ضروری ہے۔

یہ حق نہ عدالت کے پاس ہے اور نہ عدالت کسی اور کو یہ حق دے سکتی ہے (جیسا کہ پرویز مشرف صاحب کے معاملے میں کیا گیا اور انہیں ایک خاص مدت کے لیے آئین میں ترمیم کا حق دے دیا گیا)۔

تیسرا سوال آئین کی شرح کے مقدمات کے بارے میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن مقدمات کی نوعیت ایسی ہو کہ ان میں آئین کی شرح ہونے جا رہی ہے وہ مقدمات کتنے ججوں پر مشتمل بنچ کو سننے چاہیں؟

امریکہ میں آئینی مقدمات پوری عدالت بیٹھ کر سنتی ہے جس میں تمام جج شامل ہوتے ہیں۔ پاکستان کی سپریم کورٹ البتہ محض آئینی عدالت نہیں بلکہ یہ فائنل کورٹ آف اپیل بھی ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ ہر مقدمہ فل کورٹ کے سامنے رکھا جائے لیکن کیا بھی ممکن نہیں کہ کوئی ایسا آئینی بندوبست کیا جائے کہ آئینی مقدمات جب اس کے سامنے آئیں تو پھر امریکہ کی طرح ان مقدمات کو فل کورٹ بیٹھ کر سنے جس میں تمام معزز جج شامل ہوں۔ تاکہ آئین کی جو بھی تشریح کی جائے وہ دو تین ججوں کی بجائے پوری سپریم کورٹ کی طرف سے کی جائے؟

چوتھے سوال کا تعلق ازخود نوٹس سے ہے۔ آئین میں از خود نوٹس کا اختیار صرف وفاقی شرعی شرعی عدالت کو دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے بارے میں از خود نوٹس کی بات دستور میں صراحتا کہیں نہیں لکھی۔ البتہ آرٹیکل 184(3)کے تحت عوامی اہمیت کے کسی ایسے معاملے پر جس کا تعلق بنیادی حقوق سے ہو سپریم کورٹ کو حکم جاری کرنے کا جو اختیار دیا گیا ہے، اسے ’سوموٹو‘ اختیار ہی سمجھا جاتا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اختیار پھر کس کو حاصل ہے؟

سپریم کورٹ کے ہر جج کو یا صرف جناب چیف جسٹس کو؟

قاضی فائز عیسی صاحب نے جب صحافیوں کے معاملے میں ایک سوموٹو لیا تو ایک لارجر بنچ تشکیل دے کر طے کیا گیا کہ یہ اختیار ہر جج کے پاس نہیں، صرف چیف جسٹس کے پاس ہے۔

سوال یہ ہے کہ آئین میں جہاں یہ اختیار دیا گیا ہے وہاں توچیف جسٹس کی بجائے سپریم کورٹ کا لفظ لکھا ہے؟ تو کیا اب اس پر غور نہیں ہونا چاہیے کہ سوموٹو کا تعین سپریم کورٹ کیسے کرے؟

کیا یہ صرف چیف جسٹس کی صوابدید ہے یا سپریم کورٹ کے سارے جج مل بیٹھ کر فیصلہ کیا کریں کہ کسی معاملے میں سوموٹو لینا ہے یا نہیں۔

نہ صرف وکلا رہنما سوموٹو میں اصلاحات کا مطالبہ کر چکے ہیں بلکہ خود جناب چیف جسٹس ثاقب نثار نے سوموٹو کی تشریح کے لیے وکلا کی تنظیموں کو نوٹس بھی جاری کیے تھے۔سوال یہ ہے کہ یہ ابہام کب دور ہو گا؟

پانچواں سوال یہ ہے کہ اس بات کا تعین کیسے ہو گا کہ کوئی کیس عوامی اہمیت کا ہے یا نہیں؟

مثال کے طور عتیقہ اوڈھو سے برآمد مبینہ شراب کی بوتل کیا واقعی عوامی اہمیت کا معاملہ تھا؟

اسی طرح کا سوال اس وقت بھی اٹھا جب پشاور رجسٹری میں ایک کیس کی سماعت کے دوران جناب قاضی فائز عیسی نے جو سماعت کرنے والے تین رکنی بنچ کا حصہ تھے، یہ سوال کیا کہ جو مقدمہ ہمارے سامنے رکھا گیا ہے کس نے یہ طے کیا ہے کہ یہ عوامی اہمیت کا معاملہ ہے اور اسے آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت سوموٹو کے تحت سنا جا سکتا ہے اور کیا انسانی حقوق سیل کے ڈائرکٹر کو یہ کیس اس طرح لگانے کا اختیار تھا؟

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار نے بنچ ہی توڑ دیا اور قاضی فائز عیسی کو بنچ سے الگ کر دیا۔ اس پر بعد میں جسٹس منصور شاہ صاحب نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ چیف جسٹس ثاقب نثار کا یہ فیصلہ درست نہیں تھا اور کسی جج کو یوں بنچ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس تبدیل شدہ بنچ میں بیٹھنا بھی ان کی غلطی تھی۔

سوال اب یہ ہے کہ یہ معاملات کب طے ہوں گے؟

چھٹا اور آخری سوال یہ ہے کہ اہل سیاست جو اپنے مفادات کے لیے عدلیہ کو دباو میں لانے کے لیے اس کی کردار کشی کی مہم چلاتے ہیں وہ آئین میں ترمیم کر کے چیزوں کو درست کیوں نہیں کر دیتے اور جو ابہام ہیں وہ دور کیوں نہیں کر لیتے؟ ان کا مقصود اصلاح احوال ہے یا محض اپنے اپنے مفادات کا تحفظ؟

Comments

Click here to post a comment