اڑان میں بھی کھلے اپنے پر نہیں رکھتا ہر ایک شخص تو ایسا ہنر نہیں رکھتا کبھی خیال میں آئی نہیں شہنشاہی مری بلا سے ہما جو گزر نہیں رکھتا آخر وہی ہو گیا جس کا خدشہ تھا کہ قسمت کی خوبی دیکھیے ٹوٹی کہاں کمند‘ دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا ۔
پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بنتے بنتے رہ گئے اور حمزہ شریف کہ جس کے بارے میں سوشل میڈیا پر کلام چلایا جا رہا تھا کہ لے یار حوالے رب دے میلے چار دناں دے۔وہ اپنی سیٹ پر براجمان رہے۔ سیاست بھی کرکٹ کی طرح ہی بائی چانس ہو گئی ہے اکثریت کو گمان نہیں یقین تھا کہ جس کھیل میں زرداری آ جائیں تو بازی پھر انہی کی ہوتی ہے یہ کیا ہوا کہ لے گیا کوئی جیت چھین کر۔ زرداری کا مذاق اڑایا جا رہا تھا کہ پانچ گھنٹے وہ چودھری شجاعت کے پاس بیٹھے۔ پرویز الٰہی کا انتظار کرتے رہے شرارتی ان کے رویہ پر پبھتیاں کستے رہے کہ’’ ذرا پاسہ ای بدل لوو تھک جائو گے ‘‘پھر اس مرد حر نے پانسہ ہی پلٹ دیا۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا اس سے پیشتر سینٹ کا منظر آپ کو بھولا نہیں ہو گا بلکہ اس سے بھی پہلے زرداری صاحب نے بلوچستان میں ن لیگ کی حکومت گرا کر دکھائی اور پھر سینٹ میں اقلیت اکثریت میں بدلی تب بھی تین چار ووٹ کینسل کئے گئے تھے اور سب شور مچاتے رہ گئے۔
ہم سمجھتے نہیں کہ مکافات عمل کوئی چیز ہے مگر ہم سیکھتے نہیں۔ تب زرداری پی ٹی آئی کے ہیرو تھے مجھے یاد آیا کہ ایک زمانے میں جب ہماری کرکٹ ٹیم بھارت میں بھارت کی ایسی تیسی کر رہی تھی تو گواسکر نے کہا تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جو فرق ہے وہ عمران خان ہیں اور اب سیاست میں مجھے بھی ایسے لگا کہ پی ٹی آئی اور ن لیگ میں فرق زرداری صاحب ہیں۔ زرداری اب ن لیگ ہی کے لگتے ہیں۔ پیپلز پارٹی تو نہیں نظر نہیں آ رہی اس سے پہلے پیپلز پارٹی پی ٹی آئی میں سمائی تھی: ہم تو دریا تھے کسی سمت تو بہنا تھا ہمیں کیا خبر کس نے تری سمت میں ہمیں موڑ دیا ویسے یہ کیا تماشہ ہوا کہ وہ جو امیدوار تھا اس کا اپنا ووٹ بھی ختم ہو چکا تھا وہ محاورہ کہ بائیں دکھا کر دائیں مارنا یہاں خوب جمتا ہے۔چودھری صاحب کہتے رہے کہ میرا ووٹ پرویز الٰہی کا ہے۔لوگ یہی سوچتے رہے کہ پی ٹی آئی کے کچھ ووٹ چالیس چالیس کروڑ میں بک رہے ہیں.
اور کوئی ترکی جا رہا ہے تو کوئی کسی اور ملک۔اس پراپیگنڈہ میں خود پی ٹی آئی بھی شامل تھی ‘‘وہی کہ‘‘ یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا۔ اگر آپ غور کریں تو یہ اچھے خاصے ڈرامے کا مواد ہے بلکہ یوں نہیں کہ یہ ڈرامہ نہیں حقیقت نکلی کہ جیتے جاگتے کردار سچ مچ اس کا حصہ بن گئے شاید کسی کا اس طرف خیال نہیں گیا سب کا خیال تھا کہ پارلیمانی صورت حال میں قائد حزب اختلاف ہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کسے ووٹ ڈالیں گے۔ دوست مزاری نے اعلان کردیا کہ ق لیگ کے دس ارکان نے پارٹی سربراہ چودھری شجاعت کی ہدایت کے باوجود پرویز الٰہی کو ووٹ دیا جسے سپیکر مسترد کرتا ہے گویا خود پرویز الٰہی بھی الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے اہل نہیں رہے تو ان کو باقیوں کے ووٹ کیسے۔
بلاول کا بیان دلچسپ ہے کہ چودھری شجاعت نے اپنے خاندان کی جمہوری روایات کو زندہ رکھا۔ کمال ہے ان روایات نے پرویز الٰہی کو مروا دیا۔اصل میں ایک اور بات ہے کہ زرداری بلوچ ہیں اور وہ اونٹ کی طرح سینے میں بات رکھتے ہیں اس سے پہلے پرویز الٰہی کو انہوں نے نواز شریف کو منا کر وزارت اعلیٰ کا امیدوار بنوایا تھا۔ چودھری شجاعت بھی موجود تھے کہ دعا کے بعد مٹھائی بانٹی گئی تب پرویز الٰہی بڑے جوش اور جذبے سے عمران کے خلاف نیپیاں بدلنے کی بات کر رہے تھے پھر یکایک وہ بنی گالہ گئے تو عمران خاں نے یہ سن کر کہ وہ زرداری او رنواز کے امیدوار ہیں دل پر پتھر رکھ کر پرویز الٰہی کو گرین سگنل دے دیا اور پرویز الٰہی سب عہدو پیما بھول کر خان کے ہو گئے: انجم ذرا تو دیکھ تو ناصح کی شوخیاں پہلو بدل کے مجھ سے بھی پہلے بدل گیا زرداری کو اس بات کا بہت رنج تھا کہ اتنا بڑا دھوکہ انہوں نے تب ہی کہہ دیا تھا کہ وہ اچھا نہیں کر رہے۔
ظاہر ہے زرداری کی سیاسی بصیرت کے سب قائل ہیں۔ زرداری نے پرویز الٰہی سے کا بدلہ لیا دوسری طرف یہ چودھری فیملی کی بھی اپنی ناچاقی بھی وجہ بنی۔ کل تک جن پر غشی طاری تھی وہ خوشی کے شادیانے بجا رہے ہیں ابھی تو پی ٹی آئی جیت کی خوشیاں منا رہی تھی اور مزید کامرانیاں ان کی راہ میں تھیں بلکہ شہباز گل نے سرکاری افسران کو دھمکیاں دینا شروع کر دیں اور بہت سخت زبان استعمال کی تکبر اللہ کو پسند نہیں ایسے ہی شعر ذھن میں آگیا: ایسا لگتا ہے کہ کمزور بہت ہے تو بھی جیت کر جشن منانے کی ضرورت کیا تھی ٹی وی سکرین کے تجزیہ میں تو کچھ نے کہا کہ شہباز گل اصل میں پنجاب کا وزیر داخلہ بنیں گے اور وہ فیاض چوہان سے چار قدم آگے نکل کر کھیل رہے تھے.
ایک بات پر حیرت ہے کہ ہمارے کئی سنجیدہ کالم نگار بار بار سورۃ حجرات کی آیات کی روشنی میں لکھتے آ رہے ہیں کہ خدا کے لئے کسی کو برے ناموں سے مت پکارو۔اپنے رویے میں شائستگی لائو۔مگر اس نصیحت کا الٹا اثر دیکھنے میں آیا ہے سوشل میڈیا پر تو حد ہو گئی ہے اب حمزہ شریف پر بہت بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ کچھ کر کے دکھائیں گے تو بات بنے گی وگرنہ ن لیگ کا ووٹ بدک چکا ہے لوگ مہنگائی میں توجیحات نہیں دیکھتے۔سراج الحق نے درست کہا کہ حکومت پٹرول سو روپے کم کرے تو بات بنے گی۔
چلیے کے ٹو سر کرنے والی ثمینہ بیگ کو حمزہ شریف نے شاباش دی ہے۔ حمزہ شریف کو چاہیے کہ وہ بھی کوئی چوٹی سر کر کے دکھائیں لوگ اکتا چکے ہیں انہیں انتخابات کے ڈراموں سے کچھ حاصل نہیں بلکہ یہ سب ان پر ہی بوجھ ہے کچھ غیر معمولی کام کریں کہ لوگوں کو کوئی ریلیف ملے۔ڈاکٹر خالدہ کا شعر: یہ کون ادھر سے گزر گیا ہے کہ سارا منظر بکھر گیا ہے
تبصرہ لکھیے