بعض اوقات ہم دنیا کی اس آزمائش سے کتنا گھبرا جاتے ہیں نا!کتنا مشکل ہو جاتا ہے نا بعض اوقات محبتوں کے قرض کو چکانا۔۔۔ احسان کی روش پر چلتے ہوئے، بارہا جذبات کا چکنا چور ہونا۔۔۔عزت نفس کو ٹھیس ۔۔۔نفس کی اکساہٹیں۔۔۔کئی بار متبادل راستہ چن لینے کی شدید خواہش بھی پیدا کر دیتی ہیں.
ایسے میں "رحمٰن" کی صفت اپنانا آپ کی بہت سی الجھنیں سدھار دیتا ہے،نیکی کی راہ پر چلنا اب آسان ہو جاتا ہے آپ کے لئے۔الجھنیں اور مسائل ذاتی زندگی کے ہوں یا اجتماعی زندگی کے، جھگڑے خاندانی نوعیت کے ہوں یا ایوانوں میں اقتدار کی کرسی کے لئے ۔۔۔ ہر دو صورت میں اللہ کا قائم کردہ معیار ہی ہماری ترجیح اول ہونا چاہیئے،کہ یہی مسائل کا درست اور یقینی حل ہے۔ہم اپنی ذاتی پریشانیوں کے لئے اور ان کے حل کے لئے کتنے حساس ہوتے ہیں نا!!! کم از کم ایسی ہی حساسیت خداوند کریم کو ایک اور ضمن میں بھی مطلوب ہے،اور بلاشبہ اس کا تعلق امانت کے درست استعمال یا ووٹ کے دیانتدارانہ استعمال سے ہے۔
جانتے ہیں کہ جب خلافت ترکی ختم اور تحریک پاکستان کامیابی کے آخری مراحل میں تھی،تو یہ دراصل ہم پاکستانیوں کا لبرل ازم کے خلاف ووٹ تھا،ہم نے ترکی میں اسلامی نظام کی آخری شناخت کے خاتمے کو پاکستان کی صورت میں بچا لینے کا خواب دیکھا تھا،ترکی میں قوم پرستی کے تباہ کن نظریے کے برعکس مسلمانان برصغیر نے" دو قومی نظریے" پر مملکت مدینہ کے سٹرکچر کے مانند پاکستان کی بنیاد رکھنے کا اعلان کیا، مسلمانان برصغیر ۔۔۔جن پر حصول مقصد کی تمنا نے نیندیں حرام کی تھیں ۔۔۔کو خلافت کے خاتمے کے نعرہ غلط نے بہت متاثر کیا ،انہوں نے" تحریک خلافت" نام کے سے خلافت کی ڈوبتی ناؤ کے لئے آواز حق بلند کی مگر غیروں کے بغض اور اپنوں کی بد نیتی کے سبب خلافت کو ٹوٹنے سے تو نہ بچا سکے لیکن "دو قومی نظریے" کی بنیاد پر ہونے والی جدوجہد کو اس سے خاطر خواہ تقویت پہنچی۔
مگر آج جب تحریک پاکستان کا ثمر پائے بھی صدی ہونے کو ہے۔۔۔اقتدرا کے ایوان ہنوز تلاش حق کا مسافر ہے،اگر چہ یہاں کئی بار خدا کے سپاہی باطل کے سامنے سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے ہیں لیکن تختہ حکومت پر مجاہدین اسلام ابھی تک براجمان نہیں ہو سکے، جو ہمارے دعویٰ "ایمان" پر زبردست چوٹ ہے، اگر ہم امانت کی منتقلی میں خدا سے مخلص ہوتے تو آج ملک آئی ایم ایف کا غلام ہوتا نہ سٹیٹ بنک کسی کا دباؤ قبول کرنے والا ہوتا، ختم نبوت پر حملے ہوتے نہ رسالت کے قانون بدلنے کی جرات ہی کسی میں ہوتی، غیر مسلم تو ہوتے لیکن مرتدین کے خلاف پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر ہوتی، غیر مسلموں سے رواداری کی مثالیں تو ہوتیں مگر کلیدی عہدوں تک رسائی نہ ہوتی، ریاست مدینہ ہوتی تو راتوں کو کوئی بھوکا سونے والا نہ ہوتا،امراء کے دروازے ہر خاص و عام کی رسائی ہوتی، انصاف فوری اور فری ملتا۔۔۔ کیا ہی سچ کہا اقبال نے
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
انقلاب کی راہ ہموار کرنے کے لئے ضرورت ہے رائے دہی کے دانشمندانہ استعمال کی، باطل کی دل فریب چالوں کو طشت ازبام کرنے کی۔۔۔حیرت ہے ۔۔۔ہم آپ نے بچوں کے معاشی مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے بہترین ادارے منتخب کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کسی کمپرومائز کے لئے اپنے آپ کو تیار نہیں کر پاتے،ہم نے کپڑا بھی خریدنا ہو تو بازار کے بہترین لباس فروش اور معقول معاوضہ لینے والے دوکاندار کے پاس جانا پسند کرتے ہیں،غرض زندگی کا کوئی بھی معاملہ طے کرنا ہو۔۔۔ تعمیر کا کام کروانا ہو،طبی معائنہ کروانا ہو۔۔۔ہم اس کے لئے بہترین طریقہ کار اختیار کرتے ہیں، اپنے کام سے مخلص معمار ،مخلص طبیب ہماری اولین ترجیح ہوتے پیں۔۔۔لیکن جب معاملہ آتا ہے الیکشنز کا ۔۔۔بحثیت 'امت وسط' ذمہ داری کی ادائیگی کا ۔۔۔ نظریے سے مخلص بے داغ کردار اور کاری ضرب کی حامل قیادت کا،تو ہم بھیڑ چال کا شکار ہو جاتے ہیں، یقیناً ہم باقی رہنے والی لیکن بظاہر دور والی زندگی کی تیاری میں تغافل برت رہے ہیں۔
ایک رضاکارانہ طریقہ کار کو بھی رواج دیا جا سکتا ہے اس سلسلے میں، کہ ہر حلقہ کے رائے دہندہ گان کی فردا فرداً رائے معلوم کرنے کی بجائے ہر حلقہ کے اہل علم ودانش اپنے میں سے ایک نمائندہ منتخب کریں ، یوں اقتدار تک کسی بھی مرتد،مشکوک،غدار ملت کی رسائی مشکل ہی ہو سکے گی،ہمیں فرق کرنا ہو گا، بہترین کھلاڑی اور مخلص حکمران میں ۔۔۔بہترین تاجر اور متقی و مخلص قائد میں۔۔۔ دولت مند سرداروں اور ایماندار حکمرانوں میں،اسلام سی مساوات کے علمبردار حکمران میں اور اسلامی مساوات کے قیام کی حقیقی صلاحیت رکھنے والوں میں۔
لہذا سوچئے نہیں اور آئیے۔ اس امتحان گاہ میں نیکی اور تقویٰ کے ذریعے ایک دوسرے کا دست وبازو بنیں،یہاں تک کہ نیکی اور تقوی کو ایوانوں تک پہنچا دیں تا کہ خدا کی دائمی جنتوں کے مستحق ٹھہریں۔
تبصرہ لکھیے