تاریخ گواہ ہے کہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں لاکھوں نہ سہی، ہزاروں شہریوں کے خلاف لڑاکا طیارے اور توپخانے بروئے کار لائے گئے۔ ہم کس کس بات کو جھٹلائیں اور کہاں کہاں اپنے ریاستی استبداد کے لیے تاویل اور جواز کی راہ لیں؟ بہت سے حقائق ایسے ہیں جن پر ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے۔ درحقیقت اس باب میں ہمارا قومی بیانیہ بھی اتنا ہی غلط ہے جتنا کہ ہندوستان کی نیشنل اوپینین۔ ایک کی غلطی دوسرے کی غلطی کا جواز نہیں ہوسکتی۔
نوےکی دہائی میں آپریشن کے نام پر شہر قائد کو پامال کیا گیا اور یہ سلسلہ رینجرز کے ذریعے تاحال جاری ہے۔ دوسری طرف زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب لال مسجد کا سانحہ وقوع پزیر ہوا۔ خود سابق چیف آف اسٹاف جنرل شاہد عزیز اور سابق ایڈیشنل ڈی جی آئی ایس آئی جنرل جمشید گلزار کیانی کے مطابق وہاں فاسفورس کیمیکل استعمال کیے گئے تھے۔ کیانی دور میں سوات آپریشن ہوا۔ دہشت گردی کے جواب میں قیدیوں اور مبینہ طالبان کے عزیزوں، دوستوں، پڑوسیوں یہاں تک کہ ضعیف والدین کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا، اس کی کچھ لیک ویڈیوز آج بھی یوٹیوب پر موجود ہیں۔ کشمیری اپنے لاپتہ افراد کے لیے قابض "ہندو فوجیوں" کو کوستے ہیں، ہماری آمنہ مسعود جنجوعہ اپنے خاوند کے لیے کس کو روئیں؟ ہم افضل گرو کی لاش کے لیے کیسے آواز بلند کریں، ہمارے سر تو خود اکبر بگٹی کے مرقد پر شرمندگی سے جھکے ہوئے ہیں۔
یقینا ہندوستان کی مذہبی اقلیتیں مظلوم ہیں۔ ایودھیا کی بابری مسجد ہو یا امرتسر کا گولڈن ٹیمپل، سانحہ گجرات ہو یا ممبئی، بہار اور کلکتہ کے مسلم کش فسادات، ریاستی اداروں میں اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہو یا مسلمانوں کی نسبت عمومی نفرت، یہ تمام حقیقتیں سیکولر ہندوستان کے فریب کو آشکار کرتی ہیں۔ لیکن کیا ہم نے اسلامی جمہوریہ کو مذہبی اقلیتوں کے لیے ایک مثالی مملکت کا نمونہ بنایا ہے؟ کیا ہماری مذہبی اقلیتیں ہم سے خوش ہیں؟ ملک کے واحد یہودی قبرستان پر ہم نے پلازہ تعمیر کردیا ہے۔ ہندو برادری سندھ اور پنجاب میں اپنے کئی تاریخی مندروں کی تباہی اور زبوں حالی پر آئے دن شکایتیں کرتی ہے۔ جن دنوں بابری مسجد کا سانحہ پیش آیا، ان دنوں پاکستان میں بےشمار قدیمی اور تاریخی مندروں پر حملے ہوئے۔ مسیحی دوست بھی امتیازی رویے پر پریشان رہتے ہیں۔
بلوچستان ایک متنازع خطہ نہیں ہے۔کسی بھی اعتبار اور زاویہ نگاہ سے اس کا کشمیر کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ اسی طرح کشمیر کی تحریک آزادی اور بلوچ سرداروں کی مسلح لڑائی میں بھی کوئی مماثلت نہیں ہے۔ ایک طرف عام کشمیری ہیں جو اپنے پیدائشی اور انسانی حق کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور دوسری طرف کچھ سردار ہیں جو حکومت پاکستان اور فوج کے ساتھ اپنے اختلافات کی بنا پر ریاست کے خلاف میدان میں اتر آئے ہیں۔ لیکن کیا بلوچستان کو کشمیر سے جوڑنے کاجواز ہم نے فراہم نہیں کیا؟ 70 کی دہائی میں بھٹو صاحب نے بلوچ سرداروں کو دھوکہ دیا لیکن خوش قسمتی سے بعد کے حکمرانوں نے حالات سنبھال لیے۔ مشرف صاحب نے واپس آکر وہی پرانی غلطیاں کیں۔ بگٹی صاحب کا قتل ہمیشہ باغی سرداروں کے لیے جدوجہد کا ایک استعارہ بنا رہے گا۔ برہمداغ بگٹی اور حیربیار بھی مشرف کے تراشے ہوئے بت ہیں، ہندوستان اور افغانستان کے نہیں۔
میاں صاحب کی حکومت نے مشرف دور کی بے شمار غلطیوں کا ازالہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ مسئلہ مکمل طور پر ختم ہوگیا ہے۔ بلوچستان کو اس وقت بقیہ پاکستان سے زیادہ حکومت کی توجہ درکار ہے۔ اس محروم صوبے کی پسماندگی اور غربت کا خاتمہ لاہور اور راولپنڈی کی میڑو سے زیادہ ضروری ہے۔ فوج کی واپسی، اے، بی اور سی ایریاز کا خاتمہ اور پولیس، تعلیم، کاروبار اور انفراسٹریکچر میں انقلابی بہتری بلوچوں کے غم کا مداوا ہے۔ کراچی میں الطاف حسین کو را کا ایجنٹ بنا کر بھی اسی غلطی کا اعادہ ہو رہا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ فوج اور اس کے ماتحت نیم فوجی اداروں پر مزید انحصار کرنے کے بجائے، پولیس پر سرمایہ خرچ کیا جائے۔ فوج پر ضرور پیسہ لگائیں لیکن قبائل، بلوچستان اور کراچی کے لیے نہیں سری نگر کے لیے تاکہ سشما سوراج کو قیامت کا انتظار نہ کرنا پڑے۔
تبصرہ لکھیے