ہوم << مالی صدقہ قربانی کا بدل نہیں ہے - مفتی منیب الرحمن

مالی صدقہ قربانی کا بدل نہیں ہے - مفتی منیب الرحمن

بعض اوقات قربانی کے دنوں میں کوئی ناگہانی آفت آجاتی ہے ،اس سال منہگائی کا طوفان ہے، ایسی صورتِ حال میں بعض لبرل حضرات یہ کہتے سنائی دیتے ہیں :’’غریبوں پر منہگائی کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے، لوگوں کو گزر اوقات میں مشکل پیش آرہی ہے ،لہٰذا قربانی کوموقوف کرکے یہ رقم انتہائی ضرورت مند لوگوں پر خرچ کی جائے تاکہ اُن کی مشکلات میں کمی ہوسکے ‘‘، وہ یہ بھی کہتے ہیں:’’علمائے کرام نے یہ فتویٰ دیاہے کہ لوگ حج وعمرہ کے بجائے یہ رقم غریبوں پر خرچ کریں تو انہیں کئی حج اور عمروں کا ثواب ملے گا‘‘ ، بظاہر اس رائے میں بڑی اپیل ہے۔

پس اس سلسلے میں عرض ہے : نہ مالی صدقہ قربانی کا بدل ہے اورنہ دین کے فرائض وواجبات کو ساقط کرنے کا کسی کواختیار ہے۔وہ عبادات جو شریعت میں مقرراورمشروع ہیں،وہ بجائے خود مقصود ہیں اوران کو شارع کے حکم کے مطابق بجالانا ضروری ہے ۔ قربانی ہر صاحبِ نصاب بالغ مرد وعورت پر واجب ہے ۔ قربانی کو واجب قرار دینے کے سلسلے میں ہماری دلیل اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے : ’’اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اورقربانی کیجیے ،(الکوثر :2)‘‘،لہٰذا قربانی لازم ہے اور مالی صدقہ اس کا مُتبادل نہیں ہوسکتا ۔

قربانی کو عربی میں’’اُضْحِیَہ‘‘ کہتے ہیں ،یہ گوشت پوست کے حصول کا نام نہیں ہے ،بلکہ اس کی حقیقت اورروح ایامِ قربانی میں عبادت اور اللہ کی قربت کی نیت سے شریعت کی مقررہ شرائط کے مطابق حلال جانورکو اللہ کے نام پر ذبح کرنا ہے،حدیث پاک میں ہے :’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’قربانی کے دن بنی آدم کاکوئی بھی عمل اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں (قربانی کی نیت سے) جانور کاخون بہانے سے زیادہ محبوب نہیں ہے اوریہ (قربانی کاجانور) قیامت کے دن اپنے سینگوں ،بالوں اورکھروں (یعنی پورے وجود )کے ساتھ آئے گا اورقربانی کے جانور کاخون یقینازمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے ہاں مرتبۂ قبولیت کو پالیتاہے ،سو تم خوش دلی سے قربانی کیاکرو،(سُنن ترمذی:1493)‘‘،اسی کو حدیث میں ’’اِِھْرَاقُ الدَّم‘‘ یا’’ اِرَاقۃُ الدّم ‘‘کہا گیا ہے۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ قربانی کی حقیقت اوراصل عبادت ’’اِھراقُ الدَّم‘‘ یا ’’اِرَاقۃُ الدَّم‘‘ ہے ،اس کے معنی ہیں: خون بہانا،یعنی شرعی شرائط کے مطابق ذبح کرناجوخون بہانے سے ہوتاہے ‘‘۔اس حکمت کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان(قربانی کے جانوروں) کانہ گوشت پہنچتاہے اورنہ اُن کا خون ، بلکہ (قربانی کے پیچھے کارفرما) تقویٰ اللہ کی بارگاہ میں پہنچتاہے،(الحج:37)‘‘،ہاں!اپنے وطن کے مصیبت زدہ بھائیوں کی اپنی بساط کے مطابق ہرممکن مددکرنا بھی ہمارے دین اورایمان کا تقاضا ہے اورپوری قوم کو اس ذمے داری سے عُہدہ براہونا چاہیے ۔

رسول اللہﷺنے (وعید کے طور پر)فرمایا:’’ جوشخص مالی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے، (ابن ماجہ :3123)‘‘،قربانی نہ کرنے پر وعید کاتقاضا ہے کہ قربانی واجب ہے ، (۲)’’حضرت جندب بن سفیا ن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں عید الاضحی کے دن رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھا، جب آپ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا کر فارغ ہوئے،آپ ﷺنے ذبح کی ہوئی بکری کو دیکھا توفرمایا: جس شخص نے نماز سے پہلے قربانی کی ہے ،وہ اِس کی جگہ دوسری بکری کو ذبح کرے اور جس نے ابھی تک ذبح نہیں کیا ، وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرے ،(صحیح مسلم : 5060)‘‘۔
آیت و احادیث مبارکہ میں قربانی کا امر ہے اور امر وجوب کے لیے ہوتا ہے ۔ جس حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے قربانی کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت فرمایا ہے،( ابن ماجہ:3127) ،اُس سے مراد یہ ہے کہ قربانی دین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جاری کردہ طریقہ ہے اوراس سے وجوب کی نفی نہیں ہوتی۔

علامہ برہان الدین علی المرغینانی لکھتے ہیں : ’’امام احمد بن محمد قدوری نے کہا: ’’ ہر آزاد ،مسلمان ،مقیم ،مالدار پر ایّامِ قربانی (10تا 12ذوالحجہ)میں اپنی طرف سے اور اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے قربانی کرنا واجب ہے ،امام ابوحنیفہ ،امام محمد ،امام زفر ، امام حسن اور ایک روایت میں امام ابو یوسف رحمہم اللہ اجمعین کے نزدیک قربانی واجب ہے،(ہدایہ ، جلد7،ص:154)‘‘،فقہ حنفی کی ’’ظاہر الروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ پر قربانی واجب نہیں ہے۔

علامہ علاء الدین حصکفی لکھتے ہیں:’’ ہر آزاد مقیم مالدار مسلمان پر اپنی طرف سے قربانی واجب ہے، (حنفی مذہب کی) ’’ظاہرالروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ بچے کی جانب سے قربانی واجب نہیں ہے ، البتہ نابالغ کا فطرہ واجب ہے‘‘،اس کی شرح میں علامہ ابن عابدین شامی لکھتے ہیں: ’’ظاہر الروایۃ‘‘ کے مطابق نابالغ پرقربانی واجب نہیں ،بلکہ مستحب ہے، البتہ صدقۂ فطر واجب ہے، امام حسن کی روایت کے مطابق اپنی نابالغ اولاد اور یتیم پوتے پوتی کی قربانی واجب ہے ، مگر فتویٰ ’’ظاہر الروایۃ ‘‘پر ہے اور اگر کوئی شخص اپنی بالغ اولاد اور بیوی کی جانب سے قربانی کرے تو ان کی اجازت لے کر کرے، ایک روایت کے مطابق اگر بلااجازت بھی کردی تو استحساناً جائز ہے،(ردالمحتار، جلد:9،ص:382)‘‘۔

فقہائے مالکیہ میں متقدمین قربانی کے وجوب کے قائل ہیں اور متاخرین کے نزدیک سنتِ مؤکدہ ہے ،حنابلہ اور شافعیہ کے نزدیک قربانی سنتِ مؤکدہ ہے ،مذکورہ شخص کا یہ کہنا بھی غلط ہے :’’ علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ لوگ حج وعمرہ کے بجائے شدید منہگائی کے مارے غریب عوام پر خرچ کریں تو انہیں کئی حج اور عمروںکا ثواب ملے گا ‘‘۔ دراصل اُس شخص نے علماء کے موقف کو صحیح نہیں سمجھا ،علماء کا بیان یہ تھا : ’’فرض حج تو کسی طور پر بھی ساقط نہیں ہوتا ،البتہ نفلی حج کے بجائے یہ رقم مفلس عوام پر خرچ کی جاسکتی ہے ،کیونکہ یہ اہلِ پاکستان پر ایک مشکل وقت ہے اورعمرہ اپنی اصل کے اعتبار سے ہی ایک نفلی عبادت ہے،لیکن واجب قربانی کو نہ ترک کیاجاسکتا ہے اورنہ اس کے وجوب کوساقط کیاجاسکتا ہے ۔البتہ مالی حیثیت والے لوگ اگر اپنے روزمرّہ کے مصارف یا تَعیُّشات میں کمی کرکے پس انداز کی ہوئی رقم غریب عوام پر صرف کریں تو یہ اُن کی دینی اور اخلاقی ذمہ داری اور اعلیٰ انسانی قدر ہے ،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ اور جو چیز لوگوں کو نفع دیتی ہے ،اُسے زمین میں قرار ملتا ہے ، (الرعد:17)‘‘، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:’’ بہترین انسان وہ ہے ، جس کی ذات انسانیت کے لیے زیادہ نفع رساں ہو، (الجامع الکبیر :11760)‘‘۔

قربانی بھی ضرورت مند انسانوں کی خدمت کا ایک ذریعہ ہے ۔مویشی پالنے والے لوگ سال بھر اِسی آس پر جانور پالتے ہیں کہ ایامِ قربانی میں اُنہیں فروخت کرکے اپنی سال بھر کی ضروریات پوری کریں گے ۔قربانی کے گوشت سے بھی غریبوں اور ناداروں کی مدد کی جاتی ہے اورکھال بھی ناداروں کی مدد کا ایک ذریعہ ہے ،نیز قربانی اسلام کا ایک شِعار ہے ، حضرت ابراہیم واسماعیل علیہما السلام اورامام الانبیاء حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی سنّتِ جلیلہ ہے اور اس کی بے شمار شرعی حکمتیںاور برکات ہیں۔

ایسا شخص جو قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہے ،وہ یکم ذو الحجہ سے قربانی کرنے تک نہ ناخن کاٹے اورنہ بال کٹوائے ،اِس حکم پر عمل کرے تو بہتر ہے ،نہ کرے تو مضائقہ نہیں، حدیثِ پاک میں ہے :’’ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ذی الحجہ کا چاند دیکھ لیا اور وہ قربانی کرنے کا ارادہ رکھتاہے ،تو جب تک قربانی نہ کرلے ،بال اور ناخنوں سے کچھ نہ لے یعنی اِنہیں نہ ترشوائے ،(سُنن ترمذی: 1523) ‘‘۔احادیث مبارکہ میں طہارت ونظافت کے احکام میں ناخن تراشنے ،،مونچھیں پست کرانے اور بغل وزیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے جو انتہائی مدت بیان کی گئی ہے ،وہ چالیس روز ہے ،اِس سے زائد مدت تک چھوڑے رکھنا ممنوع ومکروہ ہے ،حدیث پاک میں ہے :’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : مونچھیں کاٹنے ،ناخن ترشوانے ، بغل کے بال لینے اور زیرِ ناف بال دور کرنے کے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں، (صحیح مسلم :599)‘‘۔

امام احمد رضاقادری قُدِسَ سِرُّ ہ العزیز لکھتے ہیں: ’’اگرکسی شخص نے ۳۱دن سے کسی عذر کے سبب ،خواہ بلاعذر، ناخن نہ تراشے ہوں نہ خط بنوایاہوکہ ذی الحجہ کا چاندہوگیا،تو وہ اگرچہ قربانی کا ارادہ رکھتاہو،اس مستحب پرعمل نہیں کرسکتاکہ اب دسویں تک رکھے گاتو ناخن وخط بنوائے ہوئے اکتالیسواں دن ہوجائے گا اورچالیس دن سے زیادہ نہ بنوانا گناہ ہے ،فعل مستحب کے لیے گناہ نہیں کرسکتا۔ردالمحتار، شرح منیہ اور مضمرات میں عشرۂ ذوالحجہ میں ناخن کاٹنے اورسرمنڈانے کی بابت ابن مبارک نے کہا: سنّت کو مؤخر نہ کیا جائے، جبکہ اس کی بابت حکم وارد ہے ،تاہم تاخیر واجب نہیں ہے ،پس یہ بالاجماع مستحب پر محمول ہے اور وجوب کی نفی استحباب کے منافی نہیں ہے .

لہٰذا مستحب ہے ،سوائے اس کے کہ اباحت کی مدت (واجب میں)تاخیر کومستلزم ہو تو مستحب نہ ہوگا،اباحت کی مدت کی انتہا چالیس دن ہے، تو اس سے زیادہ تاخیر مباح نہ ہوگی،واللہ اعلم بالصواب، (فتاویٰ رضویہ ،جلد20، ص:354)‘‘۔ اس عبارت کا مطلب یہ ہے کہ عشرۂ ذوالحجہ کے دس دن تک ناخن نہ کاٹنے اور بال نہ تراشنے کی صورت میں ناخن اور بال چھوڑے ہوئے چالیس دن سے زیادہ ہورہے ہوں ،تو پھر ان دنوں میں بھی ناخن کاٹ لے اور بال تراش لے،کیونکہ عشرۂ ذوالحجہ میں ناخن نہ کاٹنا اور بال نہ تراشنا مستحب ہے.

جبکہ چالیس دن سے متجاوز ان کو چھوڑنے سے ترکِ واجب لازم آتا ہے، تو واجب پر عمل کرنے سے اگر مستحب کا ترک لازم آئے تو اس میں حرج نہیںہے۔پس افضل یہ ہے کہ جو مسلمان قربانی کا ارادہ رکھتے ہیں ،وہ ذی الحجہ کے چاند سے ایک دودن پہلے ناخن کاٹ لیں اور بڑھی ہوئی مونچھیں تراش لیں تاکہ مستحب پر عمل کرنے میں ترکِ سنّت لازم نہ آئے ۔