ہوم << مقصد حیات - سیدہ خیر النساء

مقصد حیات - سیدہ خیر النساء

اللہ تبارک و تعالی نے انسان کو کسی نہ کسی وجہ سے تخلیق فرمایا ہے۔اور ہر انسان کو زندگی کا کوئی نہ کوئی مقصد دیا ہے کہ وہ اس دنیا میں کس مقصد کی وجہ سے آیا ہے۔مگر آج کا انسان یہ بھول بیٹھا ہے کہ وہ کس وجہ سے اس دنیا میں آیا اور اس کا جینے کا مقصد کیا ہے۔

آج ہر کوئی اپنی اپنی زندگی میں اتنا مصروف ہو چکا ہے کہ وہ مقصد حیات کی طرف جانا ہی نھیں چاہتا وہ صرف نفس کی خواہشات کو حاصل کرنے کے پیچھے دوڑتا ہے ۔آج کا انسان اپنی زندگی کا مقصد اعلی، مکان اعلی گاڑی اور بہت سی مال و دولت کو سمجھتا ہے ۔اس نفسا نفسی کے دور کسی کو یہ احساس ہی نھیں ہے کہ وہ اس دنیا میں کس وجہ سے آیا ہے۔دنیا میں ہزاروں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور ہزاروں مرتے ہیں بے شمار لوگوں کا نام صفحہ ہستی سے مٹ چکا ہے۔

مال و دولت حاصل کرنے والے لوگوں کے مال اور محل تو موجود ہیں مگر ان لوگوں کے نام لینے والے، ان کا نام لینا ہی چاہتے کیونکہ وہ بھی انھیں لوگوں کی طرح مال میں سکون حاصل کرنے کے پیچھے دوڑ رہے ہیں ۔اتنا کچھ دیکھنے کے بعد بھی آج کے انسان کو یہ احساس نھیں ہوتا کہ اصل سکون اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے حبیب سید عالم نبی محتشم خاتم النبیین ا کی طرف لو لگانے میں ہے۔تاریخ شاہد ہے کہ جس کی زندگی کا مقصد اللہ اور اس کے رسول ا کی دین کے فروغ کا کام کرنا تھا۔ان لوگوں کے نام بھی آج اس دنیا میں موجود ہیں۔کیونکہ ان لوگوں کی زندگیوں کا مقصد ان پر واضح تھا۔اور جس پر اس کی زندگی کا مقصد واضح ہو، تاریخ کبھی بھی اس کو مٹا نھیں سکتی۔جیسا کہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری نے امت مسلمہ کے اندر عشق مصطفی ا کی وہ روح ڈالی ہے جس کی وجہ سے رہتی دنیا تک ان کا نام موجودرہے گا۔(انشاء اللہ)

اقبال نے کیا خوب کہا تھا

قدرت کے مقاصد کا عیار اس کے ارادے

دنیا میں بھی میزان، قیامت میں بھی میزان

جن لوگوں کی زندگیوں کا مقصد اللہ اور اس کے رسول ا کی رضا کی اطاعت کرنا تھا اور اس کے دین اسلام کے فروغ کا کام کرنا تھا تو تاریخ کبھی انھیں خواجہ فرید الدین عطار رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے یاد کرتی ہے پھر کبھی مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے یاد کرتی ہے تو کبھی تاریخ نے امام رازی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے تو کبھی تاریخ امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔

اقبال نے بھی کیا خوب لکھا ہے

دارا وسکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ

ہوجس کی فقیری میں بوئے اسد اللہی

آج ہم سب کو اپنی زندگی کا مقصد جاننے چاہیے۔کیونکہ ہمارا اس دنیا میں آنے کا مقصد اللہ اور اس کے حبیب مصطفی سرکار دوعالم اولین و آخرین سید المرسلین و خاتم النبین ا کی اطاعت کرنا۔آج مسلمانوں کی رسوائی کی سب سے بڑی وجہ اللہ اور اس کے رسول ا سے رو گردانی کرتے ہوئے نفسانی خواہشات کو زندگی کا مقصد بنانا ہے۔تاریخ شاہد ناطق ہے کہ جب بھی مسلمان کسی بھی میدان میں اترے ہیں تو کامیابیوں کا علمبردار ہونے کے بعد ہی وہاں سے نکلے ہیں۔کیوں کہ اس وقت ان کا مقصد حیات اسلام تھا۔اور آج مقصد کچھ اور ہے۔آج تو نماز پڑھنے کا بھی وقت نھیں ملتا۔ آج تو انسان کو اللہ کی طرف سجدہ کرنے کے لئے بھی سو بار سوچنا ہوتا ہے کیونکہ اس نے اللہ کی طرف رجوع کرنا چھوڑ دیا آج مسلمان کی زندگی میں ہزاروں مشکلات ہیں۔

آج ہماری مسجدوں میں ہجوم یا تو عیدین کی نمازوں میں نظر آتا ہے یا رمضان المبارک کے مہینہ میں اس کے بعد ہماری مساجد خالی نظر آتی ہیں کیونکہ مسلمان یہ بھول چکا ہے کہ وہ زمین پر کیوں آیا تھا۔ اس دنیا میں اللہ تبارک و تعالی نے ہر چیز کو کسی نہ کسی مقصد کے لیے پیدا فرمایا ہے سورج کو پیدا فرمایا کہ وہ روشنی دے اور حرارت دے، چاند کو پیدا فرمایا کہ وہ رات کی چاندنی بنے۔ہر کسی کا وجود کسی نہ کسی وجہ سے ہے۔اسی طرح اللہ تعالی نے انسان کو بھی کسی وجہ سے اس دنیا میں تخلیق فرمایا ہے کہ اس کی زندگی کا کوئی مقصد ہے لیکن انسان اپنی زندگی کا مقصد بھول چکا ہے۔

جب میں اردگرد نظر ڈالتی ہو تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ مجھے اس ملک جانا ہے مجھے یہ کام کرنا ہے۔ لیکن کبھی یہ نھیں سنا کہ کسی نے یہ کہا ہو کہ مجھے اللہ اور اس کے رسول ا کے دین کے لیے کام کرنا ہے ۔آج کے انسان کو اپنے مقصد کو جاننا چاہیے کہ اسے اس دنیا میں کیوں بھیجا گیا۔زندگی کا کوئی بھی شعبہ اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنی زندگی کا مقصد اللہ اور اس کے رسول ا کے دین کا فروغ بھی رکھنا چاہیے اگر آپ ڈاکٹر بنیں یاانجینئر بنیںہارٹیکلچر میں جائیں، زندگی کے کسی بھی شعبہ میں جائیں لیکن اللہ اور اس کے رسول ا کا جو مقصد ہمیں پیدا کرنے کا اس کو یاد رکھیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں زندگی کا مقصد سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ،یہی میری دعا ہے۔

Comments

Click here to post a comment