سید قائم علی شاہ جیلانی کا شمار پاکستان کے ان سیاست دانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنی سیاست کا آغاز نچلی سطح سے کیا اور اللہ نے بہت جلد انھیں عروج دیا مگر انھوں نے اس عروج کو کبھی لوگوں کے استحصال یا انتقام کے لیے استعمال نہیں کیا. اس کی واضح مثال یہ ہے کہ لوگوں نے سید قائم علی شاہ جیلانی کی بزرگی کی تذلیل کرتے ہوئے انھیں کبھی سکندر اعظم اور کبھی فرعون کا ساتھی، کبھی سندھ میں محمد بن قاسم کے استقبالی قافلے کا سالار اور کبھی موہنجو دوڑو کے آثار قدیمہ کا حصہ قرار دیا، یہاں تک کہ عزرائیل سے موت و حیات کے حوالے سے مکالمہ بھی کرادیا گیا مگر اس شریف النفس انسان نے کھی شکوہ یا شکایت نہیں کی۔ لوگوں نے ان کی خلوت اور جلوت کی ذاتی زندگی کو بھی معاف نہیں کیا۔ ان کی بزرگی کی وجہ سے ان کے سونے اور جاگنے کے عمل کو بھی مذاق بنایا گیا، ایسا کرنے والوں میں ان کے اپنے اور بیگانے سب شامل تھے، الیکٹرونک ممیڈیا نے تو حد کردی ۔ کسی نے یہ نہیں دیکھا کہ بزرگی قدرت کا انعام ہے اور اس عمل سے ہر انسان نے گزرنا ہے۔
بہرحال سید قائم علی شاہ جیلانی واقعی ماضی کی عظیم روشن مثال ہیں جن کی آج مثال نہیں ملتی ہے۔ شاید شاہ صاحب کو آج کے اس معاشرے میں سرگرم رہنے کے بجائے گوشہ نشین ہونا چاہیے تھا ، کیونکہ یہ دور شرافت اور دیانت کا نہیں بلکہ کمپیوٹر کا ہے۔ شاہ صاحب نے سیاسی زندگی کا آغاز زمانہ طالب علمی میں کیا اور ان لوگوں میں شامل رہے جو بن کے رہے گا پاکستان اور بٹ کے رہے گا ہندوستان کے نعرے لگاتے تھے۔ سید قائم علی شاہ 1933 میں خیرپور میں پیدا ہوئے۔ ایس ایم لا کالج کراچی سے ایل ایل بی کیا۔ 1960 کی دہائی میں بی ڈی سسٹم کے تحت ضلع کونسل خیر پور کے چیئرمین منتخب ہوئے۔ 1967ء میں انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کر لی اور آج تقریبا 50 سال بعد بھی اس تعلق کو قائم رکھا ہوا ہے، انھوں نے بھٹو خاندان کی تین نسلوں کا ساتھ نبھایا۔
سیدقائم علی شاہ جیلانی پاکستان کے پہلے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور انھیں صنعتوں اور امورکشمیر و گلگت بلتستان کا وفاقی وزیربنایا گیا. اس وقت ان کی عمر 42 بر س تھی۔ کسی بھی ریاست کی زندگی میں سب سے اہم واقعہ دستور کی تشکیل ہوتا ہے، قائم علی شاہ دستور بنانے والی 11 رکنی کمیٹی کے ممبر تھے، اس وقت اس دستوری کمیٹی کے غالباً یہ واحد حیات ممبر ہیں۔ بھٹو حکومت کی معزولی کے بعد سید قائم علی شاہ کو توڑ نے کی کوشش کی گئی مگر ایسا نہ ہوسکا اور پھرحکومت نے انھیں گرفتار کرلیا۔ شاہ صاحب 1988، 1990، 1993، 2002، 2008 اور 2013 کے انتخابات میں خیر پور سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے۔ دسمبر 1988 میں سندھ کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے، مگر غالبا14ماہ بعد ہی ان کو ہٹادیا گیا۔ 1999ء میں سینیٹ آف پاکستان کے ممبر منتخب ہوئے۔ سید قائم علی شاہ 1973 سے1977، 1987 سے 1997اور 2004 سے تاحال تقریباً 26 سال تک پیپلزپارٹی سندھ کے صدر رہے۔ مئی 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے بعد وہ دوسری مرتبہ کے وزیر اعلیٰ بنے جبکہ 2013 میں انھوں نے وزارت اعلیٰ کا منصب حاصل کرنے کی ہیٹرک مکمل کرلی۔ قائم علی شاہ کو ایک سنجیدہ اور معاملہ فہم سیاسی رہنما سمجھا جاتا ہے، اور اپنے اور بیگانوں سب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ تقریباً 50 سال تک سیاست میں سرگرم رہنے کے باوجود اس عظیم انسان پر بددیانتی یا اقربا پروری کا کوئی داغ نہیں، جس کا اعتراف دوست اور دشمن سب کرتے ہیں۔
امید یہی تھی کہ ان کی سیاسی زندگی کا اختتام خوشگوار انداز میں ہوگا مگر پیپلزپارٹی نے سید قائم علی شاہ جیلانی کو ہٹانے کا جس انداز میں اعلان کیا، اس سے پاکستان کے اس عظیم انسان کی تذلیل کی گئی ہے اور ہم تو اسے ایک شریف النفس کی توہین، تذلیل اور بھیانک انجام سمجھتے ہیں. اتنی تذلیل کے بعد پیپلزپارٹی ان کو ملک کا صدر یا چیئرمین سینٹ بنابھی دے تو اس سے ازالہ نہیں ہوگا. میرے خیال میں اب شاہ صاحب کسی سیاسی آفر کو قبول کرنے کے بجائے گوشہ نشینی اختیار کریں گے۔
اگر شاہ صاحب ایماندار ہیں تو کیا ہوا مسٹر ٹپی اور 1988میں زرداری لوٹ مار میں ملوث رے اور شاہ صاحب ان کو ہاتھ نہیں ڈال سکے تو ہم انکو کیسے ایماندار کہ سکتے ہیں
گہناگارورں کا ساتھی اگر گہناگاروں کو روک نہ سکےاور مسلسل ان کا ساتھی بھی رہے تو وہ انھی کا حصہ ہوتا ہے۔۔۔۔ قائم علی شاہ صاحب خو د تو ایماندار ہیں مگر ابھی چور کو پکڑ کر نشانِ عبرت نہ بنا سکے، یہی ان کی ناکامی ہے۔ اور آخرت میں شاید یہی بات ان کی ''ہلکی چھترول'' کا بائث بن سکتی ہے۔