دنیا میں بہت کچھ بدل گیا، مگر افغانستان اور افغانوں کی حالت نہ بدل سکی۔ گزشتہ 40 سال سے اس ملک کے باشندوں کو جس قدر مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، دنیامیں شاید ہی کوئی اس کا مقابلہ کرسکتا ہو۔ کوئی اور ملک ہوتا تو کب کا ٹوٹ پھوٹ چکا ہوتا۔ لیکن آج بھی افغان نہ صرف جی رہے ہیں، بلکہ زندگی کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کی آخری حدوں تک چلے جاتے ہیں۔
آپ کو وہ مناظر یاد ہوں گے جب اپنے مستقبل کے لیے افغان جہازوں کے ساتھ لٹک کر جانا چاہ رہے تھے۔ کیا کوئی بھی شخص اپنا ملک چھوڑنا چاہتا ہے؟ اپنے وطن کے ساتھ محبت فطری امر ہے۔ اسے اتنی آسانی کے ساتھ چھوڑنا قطعا آسان نہیں ہوتا۔ لیکن کچھ تو مجبوریاں ہوتی ہیں، جبھی اپنی سرزمین چھوڑکر کسی غیرملک میں آباد ہونے کو جی چاہتا ہے۔
میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ میرا آفس جہاں ہے، وہاں روز میں ایسے بے بس اور کسمپرسی کی حالت میں بیٹھے افغانوں کو دیکھتا ہوں۔ یہ گزشتہ کئی ماہ سے یہاں بیٹھے ہیں۔ شدید ترین گرمی میں بسااوقات ان پر سایہ تک نہیں ہوتا۔ رات کو کھلے آسمان تلے یہ سوتے ہیں۔ دن میں کبھی پریس کلب جاکر اپنا احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں۔ کبھی پارلیمنٹ سے پرے کھڑے ہوکر اپنی بے بسی کا رونا روتے ہیں۔
ان میں بچے بھی ہیں۔ خواتین بھی اور بزرگ بھی۔ یہ لٹے پٹے افغانستان سے ایک اُمید کے ساتھ آئے تھے۔ اپنے وطن کو چھوڑکر ایک بہتر مستقبل کاخواب آنکھوں میں سجائے یہ کسی اور ملک جانا چاہتے تھے۔ جہاں انہیں سکون مل سکے۔ اطمینان کی سانس لے سکیں۔ یہ جنگوں سے تھک چکے تھے۔ یہ اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دینا چاہتے تھے۔ ان کے ساتھ وعدے بھی کیے گئے تھے۔ انہیں جنگ زدہ افغانستان سے نکال کر پُرامن ممالک میں سہولت فراہم کرنے کے وعدے تھے۔
لیکن اب انہیں بے یارومددگار چھوڑدیا گیا ہے۔ یہ صبح سے شام تک ہر دروازے پر جاتے ہیں۔ کھٹکھٹاتے ہیں۔ احتجاج کرتے ہیں۔ لیکن بے بسی کی چادر پہنے ان مظاہرین کی آواز کوئی نہیں سن رہا۔ میڈیا کے ساتھ تعلق رکھنے کے باوجود گزشتہ کئی ماہ سے کسی بلیٹن اور کسی اخبار میں ان کی بے بسی پر کوئی پیکیج دیکھا نہ ہی کسی نے اس پر کوئی فیچر کرنے کی ہمت کی۔ کسی کا انٹرویو دنیا کے سامنے آیا نہ ہی معصوم بچوں کی کوئی تصویر ترقی یافتہ دنیا کو جھنجھوڑنے کے لیے منظرعام پر آئی۔
مان لیتے ہیں کہ ہر ملک کے اپنے اصول اور اپنے ضوابط ہیں۔ لیکن کیا جنگ زدہ افغانوں کو اس طرح چھوڑدیا جائے گا؟ وہ اپنے ملک میں رہ سکیں گے نہ ہی انہیں کسی محفوظ مقام تک منتقل کیا جاسکے گا۔ اس طرح ”معلق“ زندگی گزارنا کس قدر مشکل ہے، کیا کوئی اس کا تصور بھی کرسکتا ہے؟ کیا ترقی یافتہ دنیا ایسے المیوں کی ذمہ دار نہیں ٹھہرائی جائے گی؟
اسلام آباد پاکستان کا دارالحکومت ہے اور سفارت خانوں کا شہر۔ میں روز احتجاج پر بیٹھے ان افراد کو دیکھتا ہوں تو ترقی یافتہ ممالک کی بے حسی پر افسوس ہوتا ہے۔ کیا ان سفارت خانوں میں بیٹھے سفیر ان بے کسوں کو نہیں دیکھتے ہوں گے؟ کیا ان کی تصاویر ان تک نہیں پہنچتی ہوں گی؟ باخبر رہنے والے ان سفارت کاروں کے پاس کیا رپورٹس نہیں آتی ہوں گی کہ ان کی جنگ میں پِسنے والے چند سو افغان کس قدر کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں؟
کاش! دنیا ایک نظر اِدھر بھی کرلے۔ مستقبل کے معمار معصوم بچوں کے چہرے یقینا انہیں نظر آتے ہوں گے، کاش! ان کے چہروں پر پڑھی بے بسی کی تحریر یہ پڑھ سکیں! ان خواتین کے دُکھ اور درد کو سمجھ سکیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھویا۔ ان بزرگوں کی تکلیف کا اندازہ کرسکیں جن کی تیسری نسل جنگوں میں پلی اور اب بھی بے یقینی کے دن گزارنے پر مجبور ہیں!
تبصرہ لکھیے