یقیناً پیٹرولیم مصنوعات میں اضافے سے عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے،ویسے پاکستان کے لوگ ایسے طوفانوں کو سامنا کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ کیونکہ یہ سلسلہ نسل در نسل ہے۔
دہائیوں سے ہم مہنگائی کا سنتے آ رہے ہیں لیکن ہر مشکل وقت گذر ہی جاتا ہے یہ الگ بات ہے کہ اس دوران کتنے لوگ بیمار اور بے روزگار ہوتے ہیں، معذور ہوتے ہیں یا ذہنی امراض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس حوالے سے کبھی کوئی کام نہیں ہوا نہ ہی اس کا کوئی امکان ہے۔ کیا یہ مسائل عام آدمی کے پیدا کردہ ہیں، یقیناً نہیں یہ مسائل انہوں نے پیدا کئے ہیں جو فیصلے کرتے رہے ہیں یعنی جو حکمرانی کرتے رہے ہیں۔ کیا وہ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے بھی ویسے ہی سنجیدگی سے کام کرتے ہیں اس پر سوالیہ نشان ہے۔
جب ملک میں توانائی کا بحران ہے، اشیاء خوردونوش کا بحران ہے، صحت و تعلیم کا بحران ہے ان حالات میں تو سیاست دانوں کو سر جوڑ کر بیٹھ جانا چاہیے اور ملک کے کروڑوں لوگوں کو ان مسائل سے نکالنے کے لئے دن رات کام کرنا چاہیے۔ چونکہ پہلے ہی بہت وقت ضائع ہو چکا ہے۔ ملکی مسائل کو دیکھتے ہوئے ہمارے لئے وقت سب سے زیادہ اہم ہے۔ ہمارے لئے ایک ایک منٹ قیمتی ہے کیا ہم وقت کی قدر کر رہے ہیں۔ ہم پہلے ہی دنیا سے بہت پیچھے ہیں ہمیں تو اتنے خطرناک بحرانوں سے نکلنے کے لئے ہر وقت کام کرتے رہنا چاہیے۔ کیا ہمارے ہاں ایسا ہو رہا ہے۔ یقیناً نہیں، ہم مشکلات کا شکار ہیں لیکن مشکلات کے خاتمے کی تیاری اور محنت کرنے کے بجائے فراخدلی سے وقت ضائع کر رہے ہیں۔
اگر ہم وقت کی قدر نہیں کریں گے تو وقت بھی ہماری قدر نہیں کرے گا۔ چلین دیکھتے ہیں کہ ہمارے رہنما کیا کر رہے ہیں۔ کل بھی ایک کیس سپریم کورٹ میں سنا گیا کتنے ہی گھنٹے اعلیٰ عدالت اس کیس میں مصروف رہی اگر سیاستدان یہ مسئلہ خود حل کر لیتے تو بات عدالت تک نہ پہنچتی نہ ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت کا وقت ضائع ہوتا، نہ دیگر اداروں کا وقت ضائع ہوتا، نہ صوبے کی اہم شخصیات کا وقت ضائع ہوتا۔ لیکن یہ سب کچھ ہوا۔ حالانکہ عدالت جانے والوں کے پاس بات چیت کے ذریعے مسئلہ حل کرنے کا راستہ موجود تھا لیکن انہوں نے یہ راستہ اختیار کرنے کے بجائے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ضروری سمجھا وہاں سے جو حکم آیا وہ مان لیا اسی بات پر مل بیٹھتے تو یہ نوبت نہ آتی۔
اس سارے عمل میں نقصان ملک کا ہوا ہے اس ملک کے مشکلات میں گھرے شہریوں کا ہوا ہے۔ یہ سلسلہ ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ عدالتوں پر مقدمات کا پہلے ہی بوجھ بہت زیادہ ہے پھر یہ سیاست دانوں کی اختلافات اور پیٹیشنز نے نظام کو ہلا کر رکھا ہوا ہے۔ لوگ ٹیلیویژن دیکھتے رہتے ہیں کہ آخر کیا ہو گا۔ ایسی تنازعات کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر ہوتی ہیں، سرمایہ کاری پر برا اثر پڑتا ہے لیکن کسی کو کیا فکر ہے۔ جس کی حکومت نہیں رہتی وہ ہر روز ایک نئی درخواست لے کر عدالت پہنچا ہوتا ہے۔ کسی کو کچھ احساس نہیں ہے۔ سب عوام کے نام پر حصولِ اقتدار کی جنگ میں مصروف ہیں۔ کم وقت میں زیادہ کام کرنا ہو تو وقت کی اہمیت سب سے زیادہ ہوتی ہے لیکن ہم اجتماعی طور اسے ضائع کرنے میں مصروف ہیں۔
حکومت حاصل کرنی ہے یا کسی کو حکومت سے نکالنا ہے حکمران طبقہ انہی کاموں میں مصروف ہے۔ سارا سارا دن عدالتوں سے سیاسی خبریں آتی رہتی ہیں۔ کبھی ایک جماعت کے وکلاء عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں تو کبھی دوسری جماعت کے وکلاء عدالت پہنچے ہوتے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں بات چیت کے ذریعے ایسے مسائل حل کرنا شروع کریں تو اس کا فائدہ سب کو ہو گا۔ استحکام پیدا ہو گا، اعتماد سازی کا سلسلہ شروع ہو گا، احساس ذمہ داری پیدا ہو گا۔ لیکن یقین رکھیں ایسا نہیں ہو گا۔ ہم سیاسی مخالفین کو اس وقت تک تسلیم نہیں کرتے جب تک کہ عدالت حکم جاری نہ کرے۔ کاش کبھی کوئی سوچے کہ وقت کا ضیاع سب سے بڑا نقصان ہے اور یہ ایسا نقصان ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں۔ سیاسی رہنماوں کی لڑائیاں سیاسی ورکرز بھی مزے لیتے ہوئے اس کا حصہ بنتے اور اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔
گذشتہ روز کی دو ملاقاتوں پر بہت بار ہو رہی ہے۔ ایک ملاقات وزیراعظم میاں شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مابین تھی جس میں ملک کی موجودہ اندرونی اور بیرونی سیکیورٹی کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ ملاقات میں پاک فوج کے پیشہ ورانہ امور پر بھی گفتگو ہوئی۔ دوسری ملاقات صدر پاکستان عارف علوی اور امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کی ہے۔
ڈونلڈ بلوم نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو اپنی اسناد پیش کیں۔ اس موقع پر صدر پاکستان عارف علوی نے زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان باہمی احترام اور باہمی مفاد کے اصولوں پر تعمیری اور پائیدار روابط خطے میں امن، ترقی اور سلامتی کے فروغ کے لئے ناگزیر ہیں۔ امسال پاک امریکا سفارتی تعلقات کے قیام کی 75ویں سالگرہ کو شایان شان منایا جائے گا۔ ہم امریکی کمپنیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے اور خصوصی اقتصادی زونز کی طرف سے پیش کردہ منافع بخش فوائد سے فائدہ اٹھانے کی دعوت دیتے ہیں۔
یہ ملاقات اور صدر مملکت کے خیالات سے ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کو سیکھنا چاہیے۔ ان کی جماعت تو ہر دوسری جگہ امریکہ کو نشانہ بنا رہی ہے۔ محسوس اور غیر محسوس انداز میں صدر عارف علوی بھی اپنی جماعت کے سیاسی نظریے کی حمایت کرتے ہیں جب کہ یہاں ان کا موقف مکمل طور پر مختلف ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی قیادت بھی اس معاملے میں قوم کا وقت ضائع کرنے کے بجائے اصلاحی پہلوؤں پر توجہ دے۔
تبصرہ لکھیے