پاکستان ہی نہیں دنیا بھر میں خلق خدا کی اکثریت سیاست دانوں کو خود غرض،نکما اور بدعنوان تصور کرتی ہے۔جمہوری ملکوں میں تاہم انہیں ”سزا“دینے کے لئے انتخاب کا انتظار کیا جاتا ہے۔امید باندھی جاتی ہے کہ یہ عمل ان کی جگہ بہتر لوگوں کو آگے بڑھانے میں مددگار ہوگا۔
پاکستان جیسے ممالک جو طویل دہائیوں تک غیر ملکی سامراج کی غلامی میں رہے انتخابی عمل پر البتہ اعتبار نہیں کرتے۔صدیوں سے ہم ”ظالم مگر عادل“ سلطان کے خواہاں رہے ہیں۔یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اورنگزیب جیسے دین دار شہنشاہ کے ہوتے ہوئے بھی مغلیہ سلطنت اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پائی تھی۔اس کے انتقال کے بعد ٹھوس اقتصادی اورسماجی وجوہات کے سبب خیبر سے ہزاروں میل دور بنگال اور دکن تک پھیلی سلطنت دلی کے کنٹرول سے باہر نکلنا شروع ہوگئی۔میسور،اودھ،بنگال اور حیدرآباد وغیرہ خودمختار صوبے داروں کے تسلط میں چلے گئے۔مرکز کمزور ہوا تو ملک بھر میں ابتری پھیل گئی۔ کامل انتشار کے اس ماحول کا برطانیہ نے فائد ہ اٹھایا اور غیر ملکی ہونے کے باوجود مستحکم حکومت اور امن وامان کو یقینی بنادیا۔
ریاست کو منظم اور مستحکم رکھنے کے نام پر برطانوی سامراج نے جو ادارے تشکیل دئیے تھے ان کی حیثیت ”دائمی“ تھی۔انگریزوں نے اسے ”آہنی ڈھانچے“کا نام دیا۔قیام پاکستان کے دوران جو فرقہ وارانہ فسادات ہوئے انہوں نے ان دائمی اداروں کے ڈھانچے کو ہرگز کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔ عام افراد ہی فسادات کی ہولناک زد میں رہے۔
انگریز کے بنائے ریاستی اداروں نے عوام کی فراست پر کبھی اعتماد نہیں کیا۔ ان کی دانست میں یہ جاہل اور اجڈ ”ہجوم“ ہی رہے جنہیں ریاست کو سخت گیر والد کی طرح گھوریاں ڈالتے ہوئے سیدھی راہ پر چلائے رکھنا ہے۔بھیڑوں کا ریوڑ جو چرواہا کے ڈنڈے کا محتاج ہوتا ہے۔ہمارے کسی سیاستدان نے ریوڑ اور چرواہا کے اس تعلق والے بندوبست کوتبدیل کرنے کی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔ عوام کو فقط یہ باور کروانا چاہا کہ افسر شاہی سے اٹھے ملک غلام محمد یا ایوب خان جیسے فوجی آمروں کے مقابلے میں وہ زیادہ بہتر ”چرواہا“ ہوسکتے ہیں۔ان کی ”دیدہ وری“ پر سرجھکائے اعتبار کیا جائے۔
خود کو یک وتنہا ”دید ہ ور“ ثابت کرنے کی خواہش میں ہمارے سیاستدانوں نے اپنی جماعتیں منظم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی۔وزارت عظمیٰ تک پہنچنے کے لئے نام نہاد ”الیکٹ ایبلز“ پر تکیہ کرتے رہے جو برطانوی دور ہی سے ”شرفا“ کہلاتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کے حضور کرسی پر بیٹھتے تھے۔”خان بہادر“ وغیرہ کے خطابات کی بدولت اترائے پھرتے تھے۔1947کے بعد ابھرے ”خان بہادر“ مگربہت ہی وکھری نوعیت کے حامل ہیں۔ڈیرے اور دھڑے کی بنیاد پر ”اپنے“ علاقوں میںپھنے خان بنے رہتے ہیں۔ قیام پاکستان سے چند ماہ بعد ہی وطن عزیز میں ان کی ”لوٹ مار“ کی داستانیں پھیلنا شروع ہوگئیں۔ہندو اور سکھوں کی چھوڑی جائیدادوں پر قبضے کی خواہش نے ”لوٹ مار“ کی ثقافت کو مزید پروان چڑھایا۔ ریاستی سرپرستی میں ”ککھ سے لکھ“ ہوئے افراد مگر جب اپنی ”اوقات“ سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے تو بدعنوانی کے الزامات میں دھرلئے جاتے۔ ”کرپشن کی غضب کہانیوں“ کے شور نے ہمارے ہاں تقریباََ ہر دس برس بعد فوج کو بر اہ راست یا بواسطہ اقتدار پر کامل گرفت حاصل کرنے کا جواز فراہم کیا۔ ”کرپشن کی غضب کہانیاں“ مگر آج بھی ختم نہیں وہ پائی ہیں۔
کرپشن کے مکمل خاتمے کے لئے جنرل مشرف نے اکتوبر 1999کے بعد ”احتساب بیورو“ نامی ادارہ بنایا تھا۔ اس ادارے کی جکڑ میں آئے کئی سیاستدان مگر قید میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں اہم عہدوں پر فائز نظر آئے۔بدعنوان سیاستدانوں کی غیر ملکوں میں چھپائی دولت کا سراغ لگانے کے لئے جن غیر ملکی ماہرین کی ذہانت پر انحصار ہوا وہ بالآخر ہماری حکومت ہی سے بھاری بھر کم جرمانے وصول کرتے پائے گئے۔ تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ احتساب بیورو کی محدودات سے بخوبی آگاہ ہوجانے کے بعد 2008کے انتخابات کے بعد قائم ہوئی ”حقیقی جمہوریت“ کے دوران مذکورہ ادارے کے خاتمہ بالخیر کا اعلان ہوجانا چاہیے تھا۔ آئین کو ”اٹھارویں ترمیم“ کے ذریعے توانا تر“ بناتے ہوئے تاہم اس پہلو پر توجہ ہی نہیں دی گئی۔ ہر سیاستدان کو جبلی طورپر ایسا ”سیاہ قانون“ ہمیشہ درکار ہوتا ہے جو اس کے مخالفین کو نکیل ڈال سکے۔ 2008کے بعد قائم ہوئی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون)نے اگرچہ ”احتساب بیورو“ کو اس مقصد کے تحت شاذ ہی استعمال کیا۔
عمران خان صاحب مگر ”کرپشن کا مکمل خاتمہ“ والے اعلان کے ساتھ برسراقتدار آئے تھے۔انہوں نے ”احتساب بیوروکو کھلاہاتھ فراہم کرنا یقینی بنایا۔شہزاد اکبر جیسے ”نورتن“ بھی اس کی معاونت کے لئے تعینات کئے۔پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (نون) کے کئی سرکرد ہ رہ نماﺅں نے طویل وقت نیب کی حراست میں گزارے۔ ان کی اکثریت بالآخر مگر اعلیٰ عدالتوں کے ہاتھوں ضمانت پر رہا ہوئی۔نیب کے ہاتھ آئے سیاستدانوں کو رہا کرتے ہوئے عزت مآب جج اکثر تحریری طورپر مذکورہ ادارے کو ”سیاسی انجینئرنگ“ کا ذمہ دار بھی ٹھہراتے رہے۔ہمارے کئی جید کاروباری افراد عمران خان صاحب اور فوجی قیادت کے ساتھ ملاقاتوں میں خبردار کرتے رہے کہ اگر نیب کی من مانیاں جاری رہیں تو ملک میں معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔
ان کی فریاد نے بالآخر عمران حکومت کو مجبور کیا کہ و ہ نیب کو فرعونی اختیارات دینے والے قوانین میں تھوڑی نرمی لائے۔ جو ترامیم اس ضمن میں تجویز ہوئیں وہ سیاستدانوں کی اکثریت کو مطمئن نہیں کرپائیں۔ عمران خان صاحب مگر حقارت ورعونت سے اپنے مخالفین کو ”این آر او“دینے پر آمادہ نہ ہوئے۔ان کے ترجمان مصر رہے کہ ”کرپشن کا خاتمہ“ عمران خان صاحب کی مقبولیت کا کلیدی سبب ہے۔انہو ں نے ”چوروں اور لٹیروں“ کو معاف کردیا تو عوام کی نظر میں گرجائیں گے۔وہ اپنی ضدپر ڈٹے رہے تو ان کے مخالفین نے یکجاہوکر انہیں وزارت عظمیٰ سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کردیا۔ ان کی جگہ جو حکومت آئی ہے اس نے اب نیب قونین میں جامع تبدیلیاں متعارف کروادی ہیں۔جو تبدیلیاں متعارف ہوئیں ان کی راہ روکنے کو تحریک انصاف کے 123اراکین قومی اسمبلی میں موجود ہی نہیں تھے۔وہ مذکورہ ایوان سے مستعفی ہوچکے ہیں۔سپیکر نے مگر ابھی تک انہیں نظر بظاہر قواعد کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے منظور نہیں کیا ہے۔
نیب قوانین میں تجویز کردہ ترامیم سینٹ میں پیش ہوئیں تو تحریک انصاف کے سینیٹروں نے بھرپور مزاحمت نہیں دکھائی۔انہیں اعتماد تھا کہ ان کے لگائے صدر عارف علوی ان کی منظوری نہیں دیں گے۔ نیب قوانین کا تبدیل شدہ مسودہ ایوان صدر گیا تو عارف علوی نے توقع کے عین مطابق اسے پارلیمان کو دوبارہ غور کرنے کے لئے واپس بھجوادیا۔صدر کے حکم کی تعمیل کے بجائے حکومت نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس طلب کیا اور مذکورہ ترامیم کو بآسانی منظورکروالیا۔
سوال اٹھتا ہے کہ تحریک انصاف اگر واقعتا نیب قوانین میں تبدیلیاں روکنے کی ٹھانے ہوئے تھی تو اس کے سینیٹروں نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ کیوں کیا۔اپنی موجودگی سے وہ اپنا کیس بھرپور انداز میں پیش کرسکتے تھے۔پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے تحریک انصاف کے نمائندوں کی غیر حاضری واضح عندیہ دے رہی تھی کہ و ہ بالآخر سپریم کورٹ ہی سے ”چور اور لٹیروں“ کو بخش دینے والے قانون کے خاتمے کی توقع باندھے ہوئے ہیں۔اعلیٰ عدلیہ کو ایک بار پھر ایک ایسے معاملے میں ملوث کیا جارہا ہے جس کا حل ڈھونڈنا بنیادی طورپر سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے۔
اعلیٰ عدالت کو جب اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں حتمی فیصلہ سازی کے لئے مجبور کیا جاتا ہے تو اس ادارے کا وقار اور ساکھ بھی خطرے میں پڑجاتے ہیں۔یہ عمل ملک کو استحکام بخشنے کے بجائے مزید خلفشار کی جانب دھکیل دیتا ہے۔اس حقیقت کو ہم مگر نظرانداز کئے ہوئے ہیں۔
تبصرہ لکھیے