ستاون سال قبل9 اگست 1965 کو اس وقت کی ملائشین حکومت نے گھر کی روٹی میں برابر کا حصہ مانگنے پر لات مار کر اس ”نکھٹو“ بیٹے کو نکالا تھا کہ حصہ دینا پڑتا ہے لیکن کُبڑے کو لات راس آگئی۔
آج ملائشیا کی حالت کرپشن ،بے ایمانی و اقربا پروری کی وجہ سے غیر ہے، ملائشیا کے خزانے سے پانچ ارب امریکی ڈالر چوری ہوئے جس کا کھُرا نہ صرف اس وقت کے وزیراعظم ملائشیا نجیب عبدالرزاق تک پہنچا بلکہ اس کے سوئز اکاؤنٹ میں خطیر رقم بھی برآمد ہوئی، اس کے علاوہ مال غنیمت کی تقسیم پر ایک مشکوک قتل جس میں وزیراعظم کی سیکیورٹی کے دو اہلکاروں کو سزائے موت بھی سُنائی گئی، ان میں سے ایک آسٹریلیا فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ لیکن سیاسی اشرافیہ کا کچھ نہ بگڑ سکا. ملائشیا کی کرنسی بھی سنگاپور کے مقابلے میں ایک تہائی سے کم ہے۔ بلکہ روزانہ لاکھوں ملائشین بسوں، کاروں و موٹر سائیکلوں پر کاروبار و ملازمتوں کے لیے سنگاپور آتے ہیں اور شام کو ملائشیا گھر چلے جاتے ہیں۔
اور وہ ”نکھٹو“ بیٹا جو خالی ہاتھ گھر سے نکلا تھا دنیا کی بیس بڑی معیشتوں میں سے ایک ہے۔ بلکہ زندگی ہر شعبے میں ملائشیا سے کئی گُنا آگے نکل چَکا ہے۔ یہ پچاس لاکھ افراد پر مشتمل چھوٹا سا ملک کرپشن سے پاک، امن و امان کے لحاظ سے جنت، بہترین تعلیم ( لوگ یہاں کے تعلیمی نظام میں طلبہ پر دباؤ کی شدت کے شکایت ضرور کرتے ہیں)۔ لیکن یہ بھی حقیقت کہ یہاں پر سڑک پر کام کرنے والا خاکروب ہو یا وزیراعظم کی اولاد ( سوائے بیرون ملک سے آنے والی اشرافیہ یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے اعلی افسران کے اولاد کے) سب ہی سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
اس کے محفوظ خزانے میں کم از کم نصف کھرب ڈالر جمع ہیں۔اور تقریباً 88 فیصد آبادی اپنے گھروں کی مالک ہے، ہر نوجوان جوڑا شادی سے پہلے ہی سرکاری گھروں کی درخواست کرتا ہے اور چند سالوں میں اسے بنا بنایا فلیٹ مل جاتا ہے جس کی ادائیگی بیس پچیس سال میں آسان اقساط میں دینی ہوتی ہے۔ یہی معاملہ صحت کا ہے۔ آج بھی ملائشیا ہو یا انڈونیشیا و تھائی لینڈ یقیناً ان ممالک میں بھی اچھے اسپتال ہوں گےلیکن ان کی اشرافیہ اپنے علاج کے لئے سنگاپور کا رُخ کرتی ہے۔
گزشتہ روز سابق وزیراعظم مہاتیر محمد کو اچانک ہی تاریخ یاد آگئی کہ سنگاپور ملائی سلطنت کا حصہ تھا اور ہمیں واپس لینا ہوگا، یہ بات گھر سے نکالتے ہوئے 1965 میں یاد نہیں آئی اور اب پُرانی ملّائی سلطنت کے احیاء کا چورن بیچنے کی کوشش کی جاری ہے۔ اصل میں بات اتنی ہے جب گھر میں دانے کم پڑ جاتے ہے تو ایسے ہی ہذیان بکنے کا جی چاہتا ہے۔ وہ تو شُکر ہے کہ وہ سابق وزیراعظم ہے اور حاضر وزیراعظم ہوتا تو اس بیان یا بکواس کے بعد شاید ہم بھی پڑوس کے ”بھارت“ سے مقابلے کے لئے تیاری میں سارے وسائل خرچ کررہے ہوتے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ مہاتیر محمد اگلے انتخابات کے لئے قوم کو نیا چورن فروخت کرنے کی کوشش کررہے ہیں. ان کے سنگاپور کے خلاف منفی جذبات مخفی نہیں تھے لیکن اپنے طویل دور اقتدار میں انہوں نے ایسی کوئی بات نہیں کی اور اقتدار سے باہر آکر اس قسم کی باتیں گھٹیا سیاست سے زیادہ کچھ نہیں لگتی لیکن مجھے یقین کے اس بیان و تقریر نے سنگاپور کےمتعلقہ حلقوں میں سُرخ بتیاں جلنے لگی ہوں گی ۔یقیناً ملائشیا ایک بڑا ملک ہے، اور سنگاپور انتہائی مختصر۔اسی طرح طاقت کا توازن ۔ ملائشیا کے پاس نسبتا بڑی فوج لیکن ہتھیاروں و ساز وسامان کے لحاظ سے کمتر ہے، کتنی بھی طاقتور فوج اور سازو سامان سے لیس ہو جنگوں میں سائز کی اہمیت رہتی ہی ہے۔
یقیناً سنگاپور کی مختصر زمین اور نسبتا گنجان آبادی دشمن کے لئے آسان نشانے ہیں۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا وقت آئے لیکن اسی دن کے لئے سنگاپور نے لازمی فوجی سروس کا قانون بنایا ہے جس کے تحت اصل فوج تو مختصر ہی رکھی گئی ہے۔ یہاں کا ہر نوجوان تعلیم مکمل کرنے سے ہی 18 سال کی عمر میں (عموماً بارہویں جماعت کے بعد ) پہلے وطن کی حفاظت کے لئے تیاری کرنے فوج یاکسی بھی ادارے جہاں بھیجا جائے میں جاتا ہے، دوسالہ مدت مکمل کرنے کے بعد دوبارہ اپنی تعلیم میں مشغول ہو جاتا ہے۔
یہ نوجوان عموماً فوج ،پولیس، یا ریسکیو (سول ڈیفینس) کے اداروں میں اپنی جسمانی صحت و آپریشن ضروریات کے تحت بھیجے جاتے ہیں اور 40 (کمیشنڈ افسران 45سال کی عمر تک ) سال میں کم از کم پندرہ دن سے ایک ماہ اپنی ملازمتوں و کاروبار چھوڑ کر اپنی متعلقہ فورس میں اپنی صلاحیتوں کو تازہ رکھنے و بڑھانے کے لئے لازمی طور جانا پڑتا ہے۔اس دوران ان کی آپریشنل تیاری کا امتحان لینے کے لئے وقتا فوقتا چند گھنٹوں کے نوٹس پر طلبی اور سالانہ جسمانی چُستگی کا امتحان جس کے تحت ساڑھے بارہ منٹ میں 2400 میٹر دوڑ، اور ایک منٹ میں مخصوص تعداد میں پُش اپ اور پُل اپ کرنا لازم ہے۔
ملائشیا کی فوجی اہلیت بہت کمزور ہے۔ انتہا یہ ہے کہ ملائشین ائرلائن کا جہاز جو چند سالوں قبل غایب ہوا تھا اس کا ٹرانسپونڈر بند کرکے واپس ملائشین فضاؤں سے گذرتا ہوا کہیں غائب ہوا ۔۔ اور ملائشین ائیرفورس سوتی ہئ رہ گئی۔
یقیناً اس کا امکان نہیں ہے کہ ملائشیا حملہ کرنا چاہے۔ لیکن یہ خدشہ ہمیشہ پالیسی سازوں کو رہتا ہے۔اس قسم کے بیانات بالخصوص سابق وزیراعظم کی جانب سے نو سسٹم کا حصہ ہی نہیں بلکہ سسٹم کو بنانے والوں میں شامل تھا۔ بہت بڑی شر انگیزی ہے۔اور کوئی ہلکا نہیں لے سکتا۔
دوسری بات یادرکھی جائے کہ سنگاپور کی لائف لائن ملائشیا کی ریاست جوھور سے پائپ کے ذریعے آنے والا پانی ہے۔ ملائشیا اس پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکتا ہے۔اور ریاست سنگاپور کے بانی لی کوان یو نے اپنی کتاب میں لکھا تھا ۔ کہ پانی کی بندش اعلان جنگ تصور کی جائے گی۔حالانکہ اس کے باوجود سنگاپور نے اپنے آبی وسائل و ذخیرہ کرنے کی صلاحیت پر بھرپور توجہ دی ہے۔بارش کے پانی سے لیکر گٹروں کے فاضل پانی کو بھی ضائع کرنے سے بچایا جاتا ہے۔لیکن پھر بھی ۔۔۔۔ تیاری پوری رہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ 80 فیصد آبادی سرکاری تیار شدہ فلیٹوں میں رہتی ہے۔ اب جتنے بھی نئے فلیٹ سرکار تیار کررہی ہیں ان میں ہر فلیٹ میں ایک چھوٹا سا کمرہ بطور بم شیلٹر ہے یعنی اس کی ساخت ایسی رکھی گئی ہے کہ بمباری کی صورت میں نقصان نہ پہنچے۔اس کے علاوہ پورے ملک میں زمین دوز ریلوے کا نیٹ ورک بھی اسی ہوائی حملے سے پناہ گاہوں کے سلسلے کی کڑی ہے۔اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ ریاست سنگاپور حالت امن میں مستقل ممکنہ جنگ کی تیاریوں میں مشغول رہی کہ،
ہے جُرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
اللہ نہ کرے کہ وہ وقت آئے کہ سنگاپور و ملائشیا دوبدو ہوں، لیکن یہ بات یقینی ہے کہ جنگی و توسیع پسندانہ عزائم نہ ہونے کے باوجود سنگاپور کبھی اپنے دفاع سے غافل نہیں رہا۔ اگر کوئی سنگاپور کی خوشحالی کی وجہ سے رال ٹپکا رہا ہے تو اسے یاد دلانا چاہتا ہوں کہ مہاترے محمد صدام حسین نہیں ہے اور نہ سنگاپور کویت ہے۔ اپنا اور اپنے وطن دفاع ہمارا حق ہے،اگر ایسا ہوا تو میں اور میری اولاد وطن پر قربان ۔ اور سنگاپور بھی میرا اتنا ہی وطن ہے جتنا پاکستان۔
تبصرہ لکھیے