ہوم << تقریب وظیفہ اور اس کی برکات - محمد فیصل شہزاد

تقریب وظیفہ اور اس کی برکات - محمد فیصل شہزاد

ہم نے لڑکپن میں محلے اور دوستوں کے ہاں کئی ایسے پروگرام بھگتائے ہیں، جن میں روحانی ماحول اور تقدس کی فضا باقاعدہ تخلیق کی جاتی تھی۔ محلے کی لڑکیاں بالیاں جدید تراش خراش مگر ہلکے رنگ کے سوٹ پر سفید ململ کا باریک دوپٹا سلیقے سے اوڑھ، نہایت مہارت سے ہلکے ہلکے مکمل میک اپ سے لیس (ایسا کہ تقریب وظیفہ کی مناسبت سے سادگی و پاکیزگی کا ٹچ بھی رہے اور حسن کو قاتل بنانے کے سارے ہنر بھی آزما لیے جائیں)، کھنکتے زیور پہن ، اٹھلاتی تشریف لاتیں. دھلے ہوئے فرش پرسفید بے داغ چاندنی بچھی ہوتی. جا بجا اگر بتی دان میں سلگتی اگربتیوں کا بل کھاتا، خوشبو اڑاتا دھواں ماحول کو مزید بوجھل اور پراسرار سا بنا رہا ہوتا. کناروں پر اسٹینڈ والے پاک فین اپنی مخصوص آواز کے ساتھ پوری رفتار سے چل رہے ہوتے، جن کی ہوا سے دیواروں کے پردے کسی ہارر فلم کے منظر کی طرح اڑ رہے ہوتے. چاندنی کے دونوں اطراف موجود واٹر کولرز میں بہت سارا برف ڈلا روح افزا کا شربت ہوتا اور درمیان میں مسجد سے منگوائی کھجور کی گٹھلیوں کا ڈھیر. جسے گھیر کر سب بیبیاں، بچیاں بیٹھ جاتیں اور پھرزیر لب وظیفہ پڑھا جاتا. مقامی مخارج میں عربی وظیفے کی گنگناتی آوازیں اور گٹھلیاں چننے کی وجہ سے ہونے والی چوڑیوں کی نقرئی کھنک مل کر صوفیانہ ماحول میں گویا کلاسیکل رنگ گھول دیتیں.
ایسے فسوں گر ماحول سے، جس کی کم ازکم اوپری پرت ضرور تقدس زدہ ہوتی، گناہ گاروں کے قلوب پھر بھلا کیوں نہ متاثر ہوتے؟ سو اسی دالان کے دوسرے کونے پر بچھی دری پر، ہل ہل کر وظیفہ کرتے لڑکوں کے قلوب رقت سے نرم پڑ جاتے. وظیفہ اثر کرے نہ کرے، کٹیلے نینوں کے تیر بیس فٹ سے بھی بالکل نشانے پر لگتے اور سیدھے دل کے پار ہو جاتے. عصر، مغرب کی نمازیں اس اثنا میں قضا ہو جاتیں مگر وہ چونکہ فی زمانہ فیشن میں نہیں ہیں، اس لیے خاص ضروری بھی نہیں تھیں. سو ان کی وجہ سے وظیفے میں تعطل ہرگز نہیں کیا جا سکتا تھا کہ کہیں اثر انگیزی میں فرق نہ آ جائے!
ہوتا عموماً یہ تھا کہ گٹھلیوں پر پڑھنے کی جو مشق شروع میں بڑے اہتمام اور پوری ایمان داری سے ایک ایک گٹھلی گرا کر کی جاتی، وہ دیگوں کی کھڑکھڑاہٹ سنتے ہی یعنی عود و عنبر سے بوجھل فضا میں پلاؤ زردے کی اشتہا انگیز خوشبو کے پھیلتے ہی جنونی رفتار پکڑ لیتی. اللہ معاف کرے، ہم دیکھتے کہ انکل، آنٹیاں اور لڑکیاں بالیاں ایک بار زبان ہلاتیں اور دھڑلے سے پوری مٹھی گٹھلیوں سے بھر کر دوسری ڈھیری کو بھردیتیں. ہم بچے پھر کیوں پیچھے رہتے، سو کمال صفائی سے میزبان انکل کی نگاہ بچا کر ایک بار (یا سلام یا رزاق) پڑھتے اور دو مٹھی بھر گٹھلی پار کر دیتے تا کہ ڈھیر ی جلدی ختم ہو اور دسترخوان پر پلائو زردے کی صورت رزق اترے. اب تم جو بھی کہو، قسم سے مزہ بڑا آتا تھا!
محلے کے بچوں کی وہ '' ننھی منی خوشیاں'' جن پر ظالم منافق سماج ہزار پہرے بٹھائے رکھتا، ایسی پاکیزہ محفلوں کی برکات سے، خوب آزادی سے منائی جاتیں. اگر ایک طرف بچھیا کی گول گول بوٹیوں سے لبریز یخنی پلائو سے زبانیں خوب چٹخارہ لیتیں تو دوسری طرف پیاسی نگاہیں بھی دیدار محبوب کے جام سے خوب تسکین پاتیں. خیر کھانے کے بعد تقریب کا آخری سیشن چائے کے ساتھ چلتا، جسے سیشن غیبتاں و فیشناں کہا جا سکتا ہے. یہ خالص زنانہ سیشن ہوتا، جس میں اسی خوش نصیب بی بی کاذکر خیر چلتا، جو اتفاق سے تقریب میں نہ آ سکی ہو. ہم قریب البلوغ لڑکوں کے لیے یہ دلچسپ سیشن ہوتا تھا. ہم چونکہ بچے سمجھے جاتے تھے اس لیے خوب گھس کر ایسی مجالس میں بیٹھتے اور کوئی کچھ نہ کہتا تھا۔ سو ہم محلے کی غائب خاتون کی غیبتیں خوب ذہن نشین کرتے اور اگلے ہی دن موقع نکال کر، معصومیت سے آنکھیں پٹپٹا کر انھی خاتون کو چیز کے لالچ میں خوب مرچ مصالحہ لگا کر سنا آتے. بس پھر اسی شام محلے میں ایک دنگل بے مثال قائم ہوتا جس کی رنگین و سنگین تفصیل اگلی قسط میں ان شاء اللہ!

Comments

Click here to post a comment

  • ایسی مجالس کے نقصانات بھی واضح ہو گئے، اور انداز ایسا کہ پڑھتے ہوئے غصہ بھی نہیں آیا

  • آپ کی اس عجیب و غریب تحریر پر دل کی گہرائیوں سے '' فٹے منہ"۔۔
    ہمارے ہاں تو خواتین کی ایسی محفلیں انتہائی سخت پہرے میں ہی ہو تی ہیں۔۔
    اور لگتا ہے آپ بچپن ہی سے ''بھونڈ'' اور ''جنان کنئیے'' ٹائپ طبیت کے مالک ہیں۔۔۔
    اگلی قسط رہنے دیں۔ ہم نے نہیں پڑھنی!