میں کراچی کا باسی رہاہوں ۔میں کراچی میں1963ء سے 2017ء تک رہائش پذیر رہا۔ صحت کی وجہ سے اسلام آباد منتقل ہو گیا۔ مجھ پر بھی کراچی کا بہت احسان ہے۔ آج کل حقوق کا زمانہ ہے۔
تو آہیے آج اسلام کی روح کے مطابق حقوق کی بات کر لیتے ہیں۔ ویسے تو انسان کو اگر اللہ سونے کی ایک وادی دے تو دوسری کی تمنا کرتا ہے۔ انسان پھر بھی مطمن نہیں ہوتا۔ انسان کا پیٹ مٹی سے ہی بھرتا ہے۔ اسلام کی تعلیمات میں حقوق اور قومیت کے موجودہ تصور کا کوئی تصور نہیں۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ لوگو! تمھاری قومیں اور براردیاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو‘‘سورۃ الحجرات (آیت13) یعنی برادریاں اور قومیں صرف پہچان کے لیے ہیں۔ قومیت اور لسانیت کی بنیاد پر سیاسی پارٹیاں بنا کر دوسری قومیں سے لڑنے کااسلام میں کوئی تصور نہیں۔ رسولؐ اللہ کی حدیث کا مفہوم ہے۔ جس نے قومیت پر بلایا وہ ہم میں سے نہیں۔ جس نے لسانیت پر بلایا وہ ہم میں سے نہیں۔
کراچی منی پاکستان ہے۔ اس میں پورے پاکستان کے لوگ رہتے ہیں۔یہ پاکستان کے صوبہ سندھ کا سب سے بڑا شہرہے ۔ پاکستان کا تجارتی مرکز ہے ۔ اس پر سب سے پہلاحق اس کے قدیم باشندے سندھیوں کا ہے۔ اس کے بعد برعظیم کی تقسیم پر جو لوگ اپنا گھر بار، اپنی زمینیں، اپنے آبائو اجداد کی قبریں، اپنے کھیت گلیان اور گلیاں اورمیدان چھوڑ کر صرف اورصرف اسلام کے نام پرہجرت کرے پاکستان کے مختلف شہروں اور خاص کر کراچی تشریف لائے ان کا ہے۔اس کے بعد ان تمام پاکستانیوں کا حق جو ملک کے مختلف حصوں سے روزی روٹی کمانے کے لیے کراچی آئے اور آتے ہیں۔ بلکہ کراچی پر سب مسلمانوں کا حق ہے کہ بقول شاعر اسلام حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے اندلس کے متعلق ایک فارسی شہر کہ:۔
خندید ودست خویش بشمشیرہرد و گفت
ہر ملک ، ملک ماست کہ ملک خدای است است
ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے پہلے غلام مصطفیٰ شاہ المعروف (جی ایم سید) نے قرآن و حدیث کی تعلیمات کے خلاف ، سندھی قومیت اور سندھی لسانیت کے نام پر حقوق کی تحریک چلائی۔ قربان جائو سندھیوں پر کہ جی ایم سید کوا نہوں رد کر دیا ۔ ان کی بات نہیں مانی۔ پھر الطاف حسین نے مہاجر قومیت کے نام پر حقوق کی تحریک بھر پاہ کی۔ اس کو بھی اللہ نے نشان عبرت بنا دیا۔ پہلے تو ہم یہ بات سمجھ لیں کی مہاجر کوئی بھی قومیت ہے نہیں۔پاکستان کے چاروں صوبے پاکستان بننے سے پہلے کے موجود تھے۔ مہاجر جس جس صوبے میں آباد ہوئے پہچان کے لیے اسی صوبے کی برداری اور قومیت میں ضم ہو ہوگئے۔ اسی طرح ہے جیسے جی ایم سید عرب سے آکر سندھی ہو گئے۔
نواز شریف کشمیر سے پنجاب آکر پنجابی ہو گئے۔عبدالغفار خان افغانستان سے خیبر پختون خواہ میں آکر مقامی آبادی میں مل جل گئے۔ محمود خان اچکزئی افغانستان سے بلوچستان آکر بلوچی ہو گئے۔ ہم سب پاکستانی ہیں اس کے آئین کے مطابق سب قومیتوں کے حقوق برابر ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پہلے سے آباد کسی صوبے کی قوم آنے والی قوم سے کہے کہ تم نے ہمارے حقوق چھین لیے ہیں ۔ پاکستان جواسلام کے نام پر وجود میں آیا۔ برعظیم کے لوگوں سے بانی پاکستان کی قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میںاللہ سے وعدہ کیا تھا کہ اے اللہ! آپ ہمیں پاکستان عطا کر دے ۔ ہم پاکستان کو مدینہ کی اسلامی فلاحی اور جہادی ریاست بنائیں گے۔ اللہ حی القیوم ہے۔
برعظیم کے لوگوںنے آل انڈیا مسلم لیگ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو کر اللہ سے پاکستان مانگا۔ اللہ نے اپنی سنت پر عمل کرتے ہوئے مثل مدینہ اسلامی ریاست عطا کی۔پھر اسے ایٹمی اور میزائل قوت بنادیا۔ مگر قائد اعظمؒ کے وفات کے بعد مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے اپنا وعدہ وفا نہیں کیا۔ ملک کو سیکولر طرز حکومت پر چلایا۔ اللہ ہم سے ناخوش ہو اور ہمیں سزا دی۔ دشمن نے ہمارے ملک میں قومیتوں کو ایک دوسرے سے لڑا کر پاکستان کو کمزور کیا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ قومیت کے نام پر پاکستان سے الگ ہو گیا۔ ہم عرض کر چکے ہیں قومیت کے نام پر حقوق نہیں مل سکتے موت مل سکتی ہے۔ یہ شیطانی طریقہ ہے۔ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے۔ یہ اللہ کی مخلوق کو صرف لڑاتاہے ۔
حقوق صرف اسلام کے برابری کے اصولوں کے مطابق ہی مل سکتے ہیں۔ جماعت اسلامی کسی ایک قوم کی جماعت نہیں ۔ ساری مسلمان قومیتیوں کی جماعت ہے۔ یہ ہی کراچی کے عوام کو ان کی جائز حقوق دلا سکتی ہے۔ کیونکہ وسائل پر حکومت کا قبضہ ہوتا ہے۔ اس لیے حکومت پر ہی دبائو ڈال کر ہی حقوق حاصل کیے جاسکتے ہیں۔جماعت اسلامی نے پہلے بھی پیپلز پارٹی پر دبائو ڈال کر بلدیاتی حقوق حاصل کے تھے۔ اب بھی جماعت اسلامی کراچی کے امیر انجینئر نعیم الحق کی قیادت میں حکومت پردبائو ڈال کر حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ لہٰذا کراچی میں رہنے والی تمام قومیتوں کو اپنے اپنے قومیت کے بت توڑ کر جماعت اسلامی کے ترازووالے نشان کے جمع ہو کر انجنیئر نعیم الرحمان کی برپاکردہ’’ حق دو کراچی کو‘‘ کی تحریک میں شامل ہو جائیں۔ گوادر کی طرح کراچی میں بھی شکست مخالفوں کا مقدر بنے گی۔
اس کے علاوہ کیوں کہ سب کہتے ہیں کہ کراچی منی پاکستان ہے ۔ یعنی سب پاکستان نیوں کا شہر ہے۔ لہٰذاملک کے سارے صوبوں ،پنجاب، سرحد اور بلوچستان، آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ بھی کراچی کے ترقیاتی کاموں میں اپنے اپنے حصہ کے فنڈ مہیا کر کے اسلام سے محبت کا اظہار کریں۔ بھائی چارہ اسی کو کہتے ہیں۔ پاکستان شمالی علاقوں میں جب زلزلہ آیا۔ پاکستان میں جب سیلاب آیا تو کراچی کے لوگوں نے اپنے دکھی بھائیوں کی دل کھول کر مدد کی تھی۔ اب اس وقت کراچی مسائلستان بنا ہوا ہے۔
کراچی میں لوگوں کونلوں میں پانی نہیں مل رہا۔ ٹرانسپورٹ مہیا نہیں۔صحت کی حالات خراب ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔ سوریج کا نظام درست نہیں۔ بارش کے وقت کی نکاسی کا انتظام صحیح نہیں۔ اس لیے سارے پاکستان کے صوبائی حکومتوں کا فرض بنتا ہے کہ دل کھول کر کراچی کے عوام کی مدد کی جائے۔منی پاکستان کراچی خوشحال ہو گا توسارا پاکستان خوش حال ہوگا۔ کراچی بے سکون عوام کو جب سکون ملے گا۔ کراچی پہلے سے زیادہ ریونیو کما کر اپنے پاکستانی بھائیوں کو دے گا۔جماعت اسلامی ’[کراچی ترقیاتی فنڈ‘‘ قائم کرے ۔
اس قومی فنڈ میں پیسے جمع کیے جائیں۔ کم از کم کے فو منصوبے کو جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ پانی ہے تو زندگی ہے۔ کراچی کی سب قومیتیں سے درخواست ہے جماعت اسلامی کے امیر انجینیئر نعیم الرحمان کی قیادت میں جاری’’حق دو کراچی کو‘‘ میں شامل ہو جائیں۔ اللہ کراچی کی مددفرمائے۔ آمین۔
تبصرہ لکھیے