بھارت میں مودی کے فاشزم کا اصل مقابلہ تو جرات مند مسلم نوجوان لڑکیاں کر رہی ہیں۔ حجاب پر پابندی کے خلاف مہم میں مسکان کا نعرہ تکبیر لاکھوں مسلمانوں کا حوصلہ بنا تھا ۔ اب نوپورشرما کی نبی مہربان ﷺ کی شان میں گستاخی کے خلاف ہونے والے احتجاج میں آفرین فاطمہ قربانی و استقامت کا مینارہ اور جرات و بے باکی کا استعارہ بن کر ابھری ہے، جبکہ جبہ و دستار میں لپٹے اور واہموں میں جکڑے جید علما و اکابرین ملت حسب سابق مصلحتوں اور مفاہمتوں کی سیاست میں غلطاں ہیں. خدا ان لڑکیوں کی شان سلامت رکھے ۔ فاشسٹ مودی کے بھارت میں ڈرہے سہمے مسلمانوں میں امید حوصلہ اور مان انھی لڑکیوں کے دم قدم سے ہے.
الہ آباد کی رہائشی آفرین فاطمہ جے این یو کی طالبہ ہے ۔ فاطمہ دھیمے لہجے میں تقریر کرتی ہے مگر اس کے دو ٹوک الفاظ اور لہجے کی روانی سامعین کے سینوں میں شعلے پیدا کر دیتی ہے ۔ ٹویٹر پر 90 ہزار سے زائد فالورز رکھنے والی فاطمہ انصاف پسند سماجی کارکن، ایکٹوسٹ کے طور پر معروف ہے۔ ایک موقع پر تقریر کرتے ہوئے اس نے مسلم کیمپسز میں پولیس کی جانب سے آنسو گیس اور پیلٹ گنز کے استعمال پر پوچھا کہ "ایسا صرف مسلم کیمپسز میں ہی کیوں ہوتا ہے ۔ اس نے کہا کہ اس وقت ہمیں اپنی عزت نفس اور خودداری کی جنگ لڑنی ہے "۔
بھارتی ریاستوں میں حجاب پر پابندی کے خللاف مسلم طالبات کی تحریک میں بھی فاطمہ بہت سرگرم رہی اور اسکی تقریریں مقبول ہوئیں ۔ ایک موقع پر اس نے بھارتی سپریم کورٹ کے انصاف کی قلعی کھولتے ہوئے کہا کہ "اگرچہ سی اے اے کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے مگر ہم بھارتی سرکار اور سپریم کورٹ پر کوئی بھروسہ نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جس نے پہلے افضل گرو کو پھانسی پر چڑھایا تھا بعد میں پتہ چلتا ہے کہ پارلیمنٹ حملے میں افضل گورو کا کوئی کردار نہیں تھا ۔ یہ وہی سپریم کورٹ ہے جو پہلے بولتی ہے کہ بابری مسجد کے پیچھے کوئی مندر نہیں تھا تالا توڑنا غلط تھا مسجد گرانا غلط تھا اور پھر بولتی ہے یہاں پر مندر بنے گا "
بی جے پی کی ترجمان نوپورشرما نے شان رسالت میں گستاخانہ بیانات دیے تو بھارت سمیت پوری مسلم دنیا میں شدید ردعمل پیدا ہوا ۔ مگر مودی سرکار نے اسے توہین رسالت پر سزا دینے کے بجائے صرف پارٹی عہدے سے ہٹانے پر اکتفا کیا جس پر پورے بھارت میں احتجاج جاری ہے ۔
الہ آباد اور رانچی کے بڑے احتجاج پر پولیس نے بے دریغ فائرنگ کرکے دو مسلمان شہید کر دیے مظاہرین پر بدترین تشدد کیا اور تین سو سے زائد گرفتار کرلیے ۔ اس کے بعد بے جے پی سرکار نے بلڈوزر راج کا آغاز کر دیا ۔ آفرین فاطمہ کے والد کو حراست میں لیا اور احتجاج منظم کرنے کی پاداش میں ان کے گھر کو بلڈوزر چلا کر زمین بوس کر دیا ۔ اس سے پہلے فاطمہ نے اپنی سترہ سالہ بہن اور بلڈ پریشر کی مریضہ والدہ کے ہمراہ خوف و دہشت کے سائے اور بے بسی کے عالم میں ساری رات جاگ کر گزاری تھِی۔ صبح پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ ان کا گھر بلڈوزر کر دیا گیا ۔
الجزیرہ کے صحافی نے فاطمہ کا انٹرویو لیتے ہوئے پوچھا کہ سرکار کہہ رہی ہے کہ گھر غیر قانونی تعمیر کیا گیا تھا تو فاطمہ نے بڑے تحمل سے جواب دیا کہ "ہم گزشتہ بیس سال سے اس گھر کا ٹیکس سرکار کو جمع کروارہے ہیں ان بیس سالوں میں تو سرکار نے کبھی اس کو غیر قانونی قرار نہیں دیا."
میں اس واقعے کی تصاویر اور ویڈیوز کو بغور دیکھ رہا تھا ۔ گھر کا سامان کھلے میدان میں پڑا تھا کتابیں کاپیاں اور قلم اینٹوں کے ملبے میں دبے تھے ایسے میں ایک سنتری، تقریر کرتی فاطمہ کی فریم شدہ تصویر ملبے سے نکال کر اپنی تحویل میں لیے جا رہا تھا۔ وہ شاید فاطمہ کی تصویروں کو بھی قید رکھنا چاہتے ہیں مگر تصویریں ایک طرف اب تو وہ فاطمہ کو بھی قید نہیں کر سکتے کہ اس کی تقریریں سوشل میڈیا کے سمندر میں وائرل ہو کر دنیا کے ہر انصاف پسند ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہیں۔
تبصرہ لکھیے