ہوم << اللہ کے لیے خدا، میاں اور مزاج وغیرہ جیسے الفاظ کا استعمال - حافظ محمد زبیر

اللہ کے لیے خدا، میاں اور مزاج وغیرہ جیسے الفاظ کا استعمال - حافظ محمد زبیر

جیسا کہ ہمارے ہاں خدائی لب ولہجہ اختیار کرنے کو ناپسند کیا جاتا ہے کہ یہ خدا کو زیب دیتا ہے نہ کہ بندے کو۔ لیکن ایک سوال یہ بھی پیدا ہوا کہ کیا اللہ کی طرف ایسے لفظ کی نسبت کی جا سکتی ہے جو کتاب وسنت میں موجود نہ ہو یا سلف صالحین نے استعمال نہ کیا ہو؟

اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں ایسے لفظ کی نسبت اللہ کی طرف کی جا سکتی ہے اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا موقف اور عام اہل علم کا موقف یہی ہے بلکہ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے کہ ایسا کیا جا سکتا ہے کیونکہ خبر کا باب بہت وسیع ہے۔ جب بھی آپ اپنی زبان میں اللہ کے بارے کلام کریں گے یا کتاب وسنت کا اپنی زبان میں ترجمہ ہی بیان کریں گے تو کتاب وسنت کے یا سلف کے استعمال کردہ الفاظ کہاں سے لائیں گے!

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
"وَيُفَرِّقُ بَيْنَ دُعَائِهِ وَالْإِخْبَارِ عَنْهُ فَلَا يُدْعَى إلَّا بِالْأَسْمَاءِ الْحُسْنَى؛ وَأَمَّا الْإِخْبَارُ عَنْهُ: فَلَا يَكُونُ بِاسْمِ سَيِّئٍی؛ لَكِنْ قَدْ يَكُونُ بِاسْمِ حَسَنٍ أَوْ بِاسْمِ لَيْسَ بِسَيِّئِ وَإِنْ لَمْ يُحْكَمْ بِحُسْنِهِ. مِثْلَ اسْمِ شَيْءٍ وَذَاتٍ وَمَوْجُودٍ" [مجموع الفتاوی] ترجمہ: اللہ عزوجل کو پکارنا اور اس کے بارے خبر دینا تو یہ دو مختلف ابواب ہیں۔ اللہ عزوجل کو پکارا تو اسمائے حسنی کے ذریعہ ہی جائے گا لیکن اس کے بارے ایسے اسم سے خبر دی جا سکتی ہے جو کہ برا نہ ہو یعنی یا تو وہ اچھا اسم ہو یا پھر کم از کم یہ کہ برا نہ ہو، بھلے اچھا نہ ہو جیسا کہ اللہ کے لیے شیء، ذات یا موجود کے الفاظ کا استعمال جائز ہے۔
[یہاں اچھا حسن کے معنی میں ہے]۔

اسی طرح اہل علم کے ہاں اللہ عزوجل کے بارے "میاں" کے لفظ کے استعمال کی بابت فتاوی موجود ہیں۔ بعض ظاہر پرستوں نے جب یہ شبہ پیدا کیا کہ اللہ عزوجل کے بارے "میاں" کا لفظ قرآن وحدیث میں نہیں ہے، یا سلف نے استعمال نہیں کیا تو اس کا استعمال بدعت ہے بلکہ اللہ کی توہین ہے کیونکہ لفظ "میاں" کا معنی شوہر ہے اور ایک معنی لغت میں "دلال" بھی ہے تو اس پر اہل علم نے اس لفظ کے استعمال کے جواز کے فتاوی دیے جیسا کہ دار العلوم دیوبند، جامعہ بنوریہ اور فتاوی اہل حدیث میں موجود ہے کہ لفظ میاں کا اللہ عزوجل کے لیے استعمال جائز ہے۔ اور کوئی استعمال نہ کرے تو اس کی مرضی ہے لیکن کسی کے استعمال کرنے پر طعن کرنا درست نہیں ہے، یہ بات ہو رہی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس لفظ کے لغت میں اکیس معانی ہیں جن میں سے ایک آقا اور مالک بھی ہے۔ اور یہ اللہ عزوجل کے لیے تعظیم اور اکرام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح لفظ خدا کے بارے ہمارے ہاں یہ بحث پیدا ہو گئی کہ اس لفظ کا اللہ عزوجل کے لیے استعمال جائز نہیں ہے کہ اہل فارس نے اس لفظ کو اپنے معبود باطل کے لیے استعمال کیا ہے۔ لیکن اہل علم نے اس لفظ کا استعمال اپنے فتاوی میں کیا ہے کیونکہ خبر کا باب وسیع ہے۔ اب جسے یہ عبارت ہی سمجھ نہ آئے کہ "خبر کا باب وسیع ہے"، اس کا معنی کیا ہے، وہ اعتراض کرنے میں لگے ہیں، کمال ہے! سادہ لفظوں میں اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے بارے جب بھی اپنی زبان میں گفتگو کریں گے تو کوئی نہ کوئی خبر جاری کر کے ہی کلام کر سکیں گے ورنہ تو صرف آیت یا حدیث پڑھ کر خاموش ہو جائیں گے۔

تو اللہ عزوجل کے بارے جو بھی گفتگو کریں گے، اس میں کچھ نہ کچھ ایسا کہہ ہی رہے ہوں گے جو کتاب وسنت میں نہیں ہے اور نہ ہی سلف سے مروی ہے۔ ابھی اللہ عزوجل کے بارے ایک پوسٹ لگا کر دیکھ لیں اور پھر اسی نظر سے اپنی پوسٹ کو پڑھ لیں کہ کیا یہ الفاظ کتاب وسنت یا سلف سے ثابت ہیں۔ قرآن مجید نے لفظ "إله" یعنی معبود کا استعمال اللہ عزوجل کے لیے کیا ہے جیسا کہ "لا إله إلا الله"۔ اور اس لفظ کا استعمال باطل معبودوں کے لیے بھی کیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ان کے لیے "آلهة" کا لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ اب بت پرست جس لفظ کو اپنے باطل معبودوں کے لیے استعمال کرتے تھے، اسی لفظ کو قرآن نے معبود برحق یعنی اللہ سبحانہ وتعالی کے لیے استعمال کیا ہے۔

اسے کہتے ہیں، زبان کا استعمال۔ آپ اپنی زبان پر اس قسم کی قیدیں لگا دیں گے تو آپ کی بات فصیح نہیں رہ جائے گی اور خدا کو ایک ایسا بت بنا کر رکھ دیں گے کہ جو حرکت سے بھی معذور ہوتا ہے۔ زبان وبیان کے اسالیب پر فتوے نہ لگائیں، توحید توحید کرتے ایک اور گمراہی میں پڑ جائیں گے۔ بعض بریلوی علماء سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا اللہ کے لیے انگریزی کا لفظ "گاڈ" استعمال کرنا درست ہے تو انہوں نے کہا کہ اس کا معنی محافظ کا ہے لہذا جائز ہے لیکن استعمال نہ کرنا بہتر ہے۔ لیکن اللہ عزوجل کے لیے "اوپر والا" کہنے کو ناجائز کہہ دیا بلکہ کفر تک کہہ دیا کہ اس سے جہت ثابت ہوتی ہے اور اللہ عزوجل کے لیے جہت کا اثبات کفر ہے۔

اب اہل حدیث علماء سے پوچھ لیں کہ اس لفظ کو استعمال کر سکتے ہیں یا نہیں؟ اور اس لفظ کا استعمال ہماری زبان میں عام ہے۔ اب یہ ایک سوال ہے کہ کیا صفت علو کا ترجمہ "اوپر والا" سے کیا جا سکتا ہے؟ اس میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے، آپ جو بھی موقف رکھیں۔ جہت کا اثبات کیے بغیر بھی یہ ترجمہ صفت علو کے معنی کے طور کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح لفظ "مزاج" کے اردو لغت میں دس معانی ہیں کہ جن میں سے معروف معنی آمیزش ہے۔ تو اس بنیادی معنی کے تناظر میں مزاج سے مراد "مجموعہ صفات" ہوتا ہے کہ صفات کو ملا دینے سے جو شیء بنے، وہ مزاج ہے۔

لہذا اس معنی یعنی "مجموعہ صفات" کے معنی میں اس لفظ کو اللہ عزوجل کے لیے جاری کرنے میں حرج نہیں ہے کہ خبر کا باب وسیع ہے۔ مزاج کا ایک معنی طبیعت بھی ہے اور ایک معنی عادت بھی ہے۔ طبیعت کے معنی میں اس لفظ کا اطلاق اللہ عزوجل کے لیے درست نہیں ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:

اگر کسی نے اللہ عزوجل کے لیے لفظ "جسم" کا استعمال کیا تو اس سے یہ پوچھا جائے گا کہ اس کی مراد کیا ہے؟ اگر اس کی مراد گوشت پوست اور ہڈیوں کا مجموعہ ہے تو اس لفظ کا اس معنی میں اللہ عزوجل کے لیے استعمال ناجائز ہے۔ اور اگر اس کی مراد ذات اور وجود ہے تو اس لفظ کا استعمال جائز ہے کہ یہ لفظ اس معنی میں بھی استعمال ہو جاتا ہے اور اللہ کی ذات اور اس کا وجود ہونا ماننے میں حرج نہیں ہے بلکہ ضروری ہے۔

رہی یہ بات کہ حافظ صاحب، آپ نے غلطی کی ہے، رجوع کریں۔ تو عالم کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ علم سے جہالت کی طرف رجوع کرے۔ جس عالم نے کسی مسئلے میں مطالعہ کیا ہو، اور اس مسئلے میں پہلے سے آراء موجود ہوں اور وہ شعوری طور ایک رائے کا قائل رہا ہو تو اس کے یہ لائق نہیں ہے کہ لوگوں کے دباؤ اور پریشر میں آ کر اپنے علم سے رجوع کرنا شروع کر دے تا کہ لوگوں سے حق پرست ہونے کے تمغے وصول کرے۔ آج سے سترہ سال پہلے ایک دوست نے ایک مباحثے میں کہا کہ حافظ صاحب مجھ سے بحث میں موقف بنا رہے ہو۔

میں نے کہا نہیں، میں آپ سے پہلے اس موضوع پر گھنٹوں بحث کر چکا ہوں، آپ سوئے ظن میں مبتلا ہو۔ میرا سوچا سمجھا موقف یہی ہے۔ اب تو یہ باتیں پہلے سے لکھی ہوئی موجود ہیں۔ کوئی پڑھے تو جانے کہ حافظ صاحب نے کس دور میں کس مسئلے میں کیا موقف اپنایا تھا۔ باقی آپ کو ہمارے موقف سے اختلاف کا حق حاصل ہے۔ ہماری رائے میں آپ کا موقف جہالت پر مبنی ہے، علمی رائے نہیں ہے۔ علمی رائے وہ ہوتی ہے کہ جس میں بندہ اس طرح آغاز کرتا ہے کہ اس مسئلے میں آج تک یہ یہ بحث اس اس طرح سے ہو چکی ہے لیکن اس میں یہ یہ مسائل ہیں۔

یہاں تو ایک لفظ سن کر طوفان بد تمیزی کھڑا کر دیا جاتا ہے اور اعتراض کرنے والے کے اعتراض سے ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا اس مسئلے میں ککھ مطالعہ نہیں ہے. ورنہ تو مسئلے کو گہرائی میں جا کر پکڑتا اور اس کے نظائر پر بحث کر کے اس میں نکھار پیدا کرتے ہوئے اپنی علمی رائے پیش کرتا۔ علمی رائے، علمی روایت کا تسلسل ہے نہ کہ توپ کا گولہ جو دوسرے کے منہ پر دے مارا جائے۔

Comments

Avatar photo

حافظ محمد زبیر

ڈاکٹر حافظ محمد زبیر نے پنجاب یونیورسٹی سے علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ کامساٹس میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ مجلس تحقیق اسلامی قرآن اکیڈمی لاہور کے ریسرچ فیلو ہیں۔ 4 کتب کے مصنف ہیں۔ کئی جرائد میں 150 سے زائد تحقیقی، فکری اور اصلاحی مضامین شائع ہو چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ دینی امور پر رہنمائی کرتے ہیں۔

Click here to post a comment