ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے ’’مقبوظہ کشمیر‘‘ شاید صرف ایک ڈسکشن پوائنٹ، کانٹروورسی، سیاسی کارڈ اورسیاسی ڈرامہ یا چال ہے۔ لیکن گزشتہ دوہفتوں سے وادی میں جس طرح سے چالیس سے زیادہ لوگ شہید ہوئے ہیں اور وہ وہاں پاکستان کا پرچم لہرا لہرا کر پلٹ گن، چاقو اور گولیوں کے وار اپنے جسموں پر برداشت کر رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہماری طرح کنفیوژ نہیں ہیں. اسی وجہ سے اپنے دل میں ان لوگوں کے لیے محبت اور ہمدردی محسوس کر رہا ہوں. لیکن حقیقت یہ ہے کہ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ یہاں ان کے درد کو محسوس کرنے والے بہت کم ہیں۔ میڈیا میں آنے والی روزانہ کی رپورٹس دل کو مزید دکھی کردیتی ہیں اور میں یہاں بے بس یہ سوچ رہا ہوں کہ سوائے دعا کے اور کیا کرسکتا ہوں ان نہتے معصوموں کے لیے. وہ چار سالہ بچہ جو پلٹ گن کی وجہ سے نابینا ہوگیا ہے، اس کی آواز سنائی دیتی ہے کہ
تم شہر اماں کے رہنے والو ! درد ہمارا کیا جانو
لیکن امید اور اللہ سے دعا ہے کہ اہل کشمیر کو آزادی ضرور نصیب ہوگی، وہ بھی سکھ کا سانس لیں گے، آزادی سے جینے اور لاشوں کے بجائے سٹائلش سیلفی لینے کا موقع ان کو بھی نصیب ہوگا کیوں کہ
شہید کے خون نے ہمیشہ، غلامیوں کے حصار توڑے
الجھ کے صیاد کے ستم سے، قفس سے بلبل چھڑا گئے ہیں
بہت عمدہ مختصر نوٹ
تم شہر اماں کے رہنے والو ! درد ہمارا کیا جانو