بھارت ، جسے بعض طبقات آج بھی دنیا کی سب سے بڑی سیکیولر جمہوری مملکت کے عنوان سے جانتے ہیں ، در حقیقت بد ترین فاشسٹ انتہا پسنداستبدادی حکومت ہے جس نے جمہوریت اور روشن خیالی کا بہروپ بھر رکھا ہے۔ اب یہ تو واضح ہے کہ جس ریاست نے اپنا مطمعِ نظر "رام راج" کو بنا لیا ہو اور جس کو آبیاری شدھی اور سنگھٹن جیسی نسل کشی پہ مبنی تحریکوں کے نظریے سے ملی ہو ، وہ لاکھ پردوں میں چھپی ہو تو بھی اہلِ نظر پہچان ہی لیں گے۔
موجودہ بی جے پی حکومت اپنی ذات اور ماہیت میں انتہا پسند ہندو تنظیم کے طور پر جانی جاتی ہے اور اس کا سربراہ نریندر مودی ہے، جسے بعض سنجیدہ طبقے بھی گجرات کے قصاب کے نام سے جانتے ہیں ۔ اس جماعت کی مسلم دشمنی یا مجموعی طور پر اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کی تاریخ بہت دور تلک جاتی ہے۔ 6 دسمبر 1992 کو جب ایودھیا میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو اس انسانی بنیادی حقوق کی پامالی کے سنگین جرم میں سب سے اہم کردار اسی بھارتی جنتا پارٹی نے ادا کیا تھا۔ پھر دو ہزار دو میں بھارتی صوبہ گجرات میں اسی بھارتی جنتا پارٹی اور اس وقت کے گجرات کے وزیرِ اعلیٰ نریندر مودی ہی کو مسلمانوں کے قتلِ عام کا شوق چرایا تھا۔ یہ تو ماضی قریب کے حالات و واقعات ہیں ، مگر کیا 1969 اور 1989 کے گجرات فسادات کے پیچھے یہی بھارتی جنتا پارٹی نہیں تھی؟ کیا باخبر طبقے ، دور رس نگاہیں اور امر یادداشتیں یہ بیان نہیں کرتیں کہ بھارت میں بالعموم اور گجرات میں بالخصوص مسلم دشمنی کی راکھ میں چنگاری کا کردار یہی انتہا پسند فاشسٹ ٹولہ نبھاتا ہے جس نے ہمیشہ اقلیتوں کے ہر بنیادی حق کو پامال کیا ، اور جس کے شر سے مسلم ، سکھ ، عیسائی یادیگر کسی بھی اقلیتی طبقے کی جان ، مال ، عزت و آبرو ، جذبات ، وابستگی کچھ بھی محفوظ نہیں ۔
ملاحظہ فرمائیے دنیا کی سب سے بڑی روشن خیال جمہوریت!!!
اس داستانِ خونچکاں کی تازہ ترین قسط تو گزشتہ روز ، مؤرخہ پانچ جون 2022 کو منظرِ عام پر آئی ، جب معروف بھارتی سیاست دان نوپور شرما نے انسانی اخلاقیات کی آخری حد کو توڑتے ہوئے نبیِ اکرم ﷺ کی شانِ اقدس میں شاتمیت کی جسارت کی۔ یہ متعلقہ خاتون کی جانب سے پہلی بار نہیں ہوا بلکہ وہ ایسا ہی ایک بے حد شرمناک، گستاخانہ بیان چند روز قبل ، ستائیس مئی 2022 کو لائیو ٹی وی شو میں بھی دے چکی ہیں۔
ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو
بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو
دہلی یونیورسٹی کی طلبہ یونین کی سابق صدر، اور اب سے کچھ پہلے تک بھارتی جنتا پارٹی کی با ضابطہ ترجمان ، نوپور شرما ، جن کا سیاست میں پہلا تعارف بدنامِ زمانہ، راشٹریہ سیوک سنگھ کی طلبہ تنظیم سَنگھ پریوار کی جانب سے دہلی یونیورسٹی کی طلبا یونین کی صدر منتخب ہونا تھا۔ جی ہاں، وہی راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس) ، جس کے ہاتھ ہزارہا بے گناہ مسلمانوں کے خون سے رنگے ہیں ۔
ان کے کریڈٹ پر دیگر کار ہائے نمایاں کیا ہیں؟
چھ نومبر 2008 کو جب دہلی یونیورسٹی کے ایک سیمینار کے سلسلے میں سید علی گیلانی یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے دعوت ملنے کے بعد اس سیمینار سے خطاب کر رہے تھے تو آکھل بھارتیہ وِدیارتھی پریشد کی جانب سے ایک طوفانِ بد تمیزی اور انسانیت سوز بد سلوکی کی روحِ رواں یہی نوپور شرما تھیں۔ پھر اسی رات ، ایک لائیو ٹی وی شو میں انہوں نے بیان دیا تھا کہ پورے بھارت کو علی گیلانی کے چہرے پر تھوکنا چاہیے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نام نہاد روشن خیال جمہوریہ میں ایسی انتہا پسند ، نفرت انگیز خاتون کو حکمران جماعت کی ترجمان کیوں بنایا گیا تھا؟ اور یہ طرزِ عمل کیا صرف نوپور شرما تک محدود ہے؟ ابھی کچھ دن پہلےحکومتی جماعت کی میڈیا ٹیم کے انچارج ، نوین کمار جندل نے انتہائی اہانت آمیز ہفوات پر مبنی ٹویٹ نہیں کیا تھا؟ کیا یہ واضح نہیں ہو چکا کہ یہ نکتہِ نظر اس بھارتی جنتا پارٹی کا ہے؟
اس مرحلے پر عرب ممالک اور بیشتر مسلم دنیا نے جس مقدور بھر ملی غیرت کا مظاہرہ کیا ، یہ کافی حد تک خوش آئند بات تھی۔ سعودی عرب ، پاکستان ، قطر ، ایران ، کویت ، افغانستان ، مصر ، بحرین و دیگر مسلم ممالک کے سربراہان کی جانب سے فوری اور شدید رد عمل سامنے آیا اور تقریباً سبھی نے اپنے اپنے ممالک میں تعین بھارتی سفیر سے واضح جواب طلبی کی ۔ خود او آئی سی نے اس مرحلے پر دو ٹوک انداز میں اپنے موقف کو واضح کیا اور بھارتی حکومتی اہلکاروں کی جانب سے مسلسل اس طرزِ عمل کو مہمیز دینے کے عمل کی پر زور مذمت بھی کی۔ سب سے موثر طرزِ عمل عرب ممالک کی جانب سے اپنایا گیا ، جنہوں نے بھارتی مصنوعات کی خرید و فروخت کا سلسلہ اپنے ملکوں میں مزید جاری نہ رکھنے کے آپشن پر غور کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ در ایں حالات شاید یہ مودی سرکار کو جھنجھوڑنے کے لیے بہترین حربہ تھا ، کیونکہ خلیجی ممالک سے بھارت کی تجارت 87 بلین ڈالرز پر محیط ہے، جن سے مراد ہے سترہ اعشاریہ دو ٹریلین پاکستانی روپے !!!
مودی راج کے پاس تو سمجھیے بھیگی بلی بنے بنا کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ نوپور شرما کے ساتھ ساتھ جندل کمار بھی برطرف کیے گئے ، اور ان دونوں کی بنیادی پارٹی رکنیت بھی معطل کی گئی ۔ مگر کیا یہ مسئلہ سلجھ گیا؟
اب یہاں ممکن ہے یہ سوال اٹھے کہ مودی سرکار نے تو ان دونوں واقعات پر ایکشن لیا ہے۔ نوپور شرما اور جندل کمار کی بنیادی رکنیت معطل ہو گئی ۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ آخر کس کس کو پارٹی سے نکالا جائے گا ؟ جہاں دال مکمل کالی ہو وہاں دال میں کچھ کالا کیسے نظر آئے گا؟
کیا یہ طرزِ عمل بھارت کی ریت اور روایت نہیں؟ سلمان رشدی کے بدنامِ زمانہ ، گستاخانہ ناول ، سیٹانک ورسز کے سامنے آنے پر بھارتی حکومت نے کس انداز سے مجرم کو تحفظ فراہم کر کے اپنے سینے سے لگایا تھا۔ اور یہ نفرت آمیز بیانات ، ٹویٹس ، ہفوات تو اس حکایت کا صرف ایک رخ ہے۔ بھارتی ریاست مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں سے جو رویہ رکھے ہوئے ہے ، کیا اسی کو نازی ازم نہیں کہا جاتا ؟ کیا یہاں پر (The Others) کی تھیوری صادق نہیں آتی؟ کیا اسی طرزِ عمل کے بارے میں Children of the lesser gods کی مثل معرضِ وجود میں نہیں آئی تھی؟ کیا آئے روز بھارت میں کسی مسجد کو مسمار کر کے وہاں مندر کی تعمیر کا بیڑہ یہی انتہا پسند دہشت گرد نہیں اٹھاتے ؟ ابھی چند روز قبل ، بنارس (موجودہ ورانسی) میں ساڑھے تین سو برس پرانی، تاریخی گیانواپی مسجد کو بند نہیں کروا دیا گیا؟ کیا انتہا پسند دَل ، اس مسجد کو گرانے کے درپے نہیں ؟
کیا عالمی ادارے ، جینوسائڈ واچ کی جانب سے خبردار نہیں کیا گیا کہ آئندہ پانچ برس تک بھارت میں باقاعدہ طور پر مسلمانوں کی نسل کشی شروع کیے جانے کا خدشہ ہے؟؟؟ اس سب کے بیچ آخر کب تک مسلم دنیا بالخصوص اور اقوام متحدہ یا مبینہ مہذب مغر ب آنکھیں بند کر کے بھارت کی جانب سے مسلمانوں کے استحصال کو برداشت کرتے رہیں گے؟ وہ دن کب آئے گا جب ایمنسٹی انٹرنیشنل ، اقوام متحدہ اور او آئی سی بھارت نامی اس فاشسٹ نازی ریاست کے خطرے سے نپٹنے کے لیے کوئی با قاعدہ اور با ضابطہ عملی اقدام کرنے کی ٹھانیں گے؟؟
تبصرہ لکھیے