ملکی مسائل کے حل کے لیے اگر ہم نے پانی میں مدھانی ہی چلانی ہے تو پھر ٹھیک ہے ، لیکن اگر ہم سچ میں اصلاح احوال چاہتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسائل کی بنیاد دستور پاکستان کے آرٹیکل 268 کی ذیلی دفعہ ایک میں ہے۔ یا تو اسے پڑھیے ، سمجھیے ، اور تبدیل کر دیجیے ، یا پھر پانی میں مدھانی چلاتے رہیے اور دیکھتے رہیے کہ مکھن بنا ہے یا نہیں۔
آئیے آج اس معاملے کو ذرا تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ قیام پاکستان کے وقت ہمیں تین بنیادی باتوں کو طے کرنا تھا۔ پہلی بات یہ کہ ہمارا آئین کیا ہو گا ،ہم نے طے کر لیا کہ جب تک ہم اپنا آئین نہیں بنا لیتے ، انڈیا ایکٹ 1935 ہمارا عبوری آئین ہو گا۔یہی بات انڈین اینڈی پنڈنس ایکٹ میں بھی کہی گئی تھی۔ جب تک ہم اپنا آئین نہ بنا لیتے ، ہم برطانوی ‘ ڈومینین‘ رہتے اور جارج ششم ہمارے آئینی سربراہ ہوتے۔ چنانچہ 1952 تک جاج ششم ہمارے آئینی سربراہ رہے اور ان کی وفات سے لے کر 23 مارچ 1956 تک ملکہ برطانیہ ہماری آئینی سربراہ رہیں۔ جب ہم نے مارچ 1956میں اپنا آئین بنا لیا تو برطانوی بادشاہت بھی ختم ہو گئی اور گورنر جنرل کا عہدہ بھی ختم ہو گیا۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ قانون کون سا ہو گا؟ 14 اگست 1947 کو ایک پی سی او ( عبوری آئینی حکم نامہ )جاری کیا گیا اور یہ اصول طے کر دیا گیا کہ برطانوی دور کے تمام قوانین ہمارے قوانین ہوں گے اور جب تک کسی قانون میں تبدیلی نہیں کی جاتی یہی قانون رائج رہے گا۔ آئین تو ہم نے بدل لیا لیکن قانون ہم نہ بدل سکے۔
چنانچہ 1956میں جب ہم نے پہلا آئین بنایا تو یہی اصول اس میں بھی لکھ دیا کہ برطانوی دور کے تمام قوانین ہمارے قوانین ہوں گے۔ یہی بات ہم نے 1962 کے آئین میں لکھ دی۔ 1973 کا آئین آیا تو وہاں بھی آرٹیکل 268 کی ذیلی دفعہ ایک میں یہی اصول طے کر دیا گیا ۔البتہ اب کی بار الفاظ بدل دیے گئے کہ تمام موجودہ قوانین ہی ہمارے قوانین کے طور پر رائج رہیں گے تاوقتیکہ بدل نہ دیے جائیں۔ چنانچہ وہ سارے قوانین جو 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد یہاں محکوم رعایاپر مسلط کیے گئے تھے ، ہم نے اپنے قانون قرار دے کر رائج کر دیے۔ وہی 1861 کی پولیس، وہی 1860 کا تعزیرات پاکستان ، فہرست اٹھا کر دیکھ لیجیے کوئی قانون پونے دوو سو سال پرانا ہے کوئی ڈیڑھ سو سال پرانا۔ برطانیہ نے رعایا کی زمین ضرورت سرکاری ضرورت کی خاطر معمولی سی قیمت پر ہتھیانے کے لیے 1894 میں لینڈ ایکویززیشن ایکٹ متعارف کرایا۔ ہم آج تک اسی انٹرنیٹ ظالمانہ قانون کو نہ صرف لیے پھرتے ہیں بلکہ ہم نے اس میں یہ تبدیلی کر دی کہ سرکاری ضروریات میں ہائوسنگ کالونی بھی شامل ہوتی ہے۔
اور اگر کسی سیٹھ نے کہیں ہائوسنگ سیکٹر بنانا ہے یا اشرافیہ کے لیے کوئی کالونی بنانی ہے تو غریب سے اس کی زمین جبراََمعمولی قیمت پر ہتھیائی جا سکتی ہے۔اسلام آباد میں حال ہی میں سپریم کورٹ کے وکیلوں کے لیے جو سیکٹر بنایا گیا اس زمین کے مالک غریب کسان اسی قانون کی وجہ سے مقدمہ ہار گئے ، انہیں زمینوں سے نکال دیا گیا اور اب وہاں سپریم کورٹ کے وکیل قیام پذیر ہوں گے اور انہیں آتے جاتے دیکھ کر رعایا نعرے لگائے گی کہ ریاست ہو گئی ماں کے جیسی۔ تیسرا سوال یہ تھا کہ عمال حکومت یعنی ملازمین کہاں سے آئیں گے۔ انڈین انڈی پنڈنس ایکٹ نے طے کر دیا اور ہم نے مان لیا کہ وہ تمام ججز ااور بیوروکریٹ جو قیام پاکستان کے وقت برطانیہ کی سرکار کے لیے خدمات انجام دے رہے تھے ، اب نئی ریاستوں میں انہی ٹرمزا ینڈ کنڈیشنز پر چلے جائیں گے ا ور انہیں تمام مراعات دستیاب رہیں گی۔
اب حالات یہ تھے کہ ان افسران نے یہاں ’’ سول سرونٹ‘‘ کے طور پر نہیں بلکہ ایک آقا کی حیثیت سے رعایا پر حکومت کی تھی۔ ان کے طور اطوار ، ان کی تربیت انہی خطوط پر ہوئی تھی کہ آپ اس رعایا کے حاکم ہو۔ شہری کا تو کوئی تصور نہیں تھا۔چنانچہ اس سول سروس کے ساتھ حاکم کی نفسیات کا پورا ایک کلچر ہمارے حصے میں آ گیا۔ ان کی رہائش ، ان کی مراعات ، ان کے اللے تللے ، ان کے ناز نخرے آج بھی وہی ہی جو اس دور میں تھے۔ یہ اسی روایت کے نگہبان ہیں جو رعایا پر مسلط کی گئی تھی۔پولیس ، اسسٹنٹ کمشنر ، ڈپٹی کمشنر وغیرہ کا منصب جو 1857 کی جنگ آزادی کے بعد خاص مقصد کے لیے تخلیق کیا گیا تھا ، آج بھی اسی رعونت ا ور مراعات کے ساتھ موجود ہے۔ وہی پولیس ہے ۔ ووہی قوانین ہیںاور وہی بے بس رعایا ہے۔کبھی لگان کے ذریعے اس کی چمڑی ادھیڑی جاتی تھی تو کبھی ٹیکسوں اور مہنگائی کے ذریعے۔
مطلوب و مقصوود وہی ہے کہ اشرافیہ اور افسر شاہی مزے میں رہے اور سارا نوجھ عوام پر منتقل کر دیاجائے۔ برطانیہ ایک غاصب قوت تھی اور ہندوستان محکوم۔ چنانچہ افسر شاہی اور قوانین ایک خاص سوچ کے ساتھ بنائے گئے، ہم نے دونوں کو گود لے لیا اور نہ افسر شاہی کا ڈھانچہ بدلا نہ قانون۔ چنانچہ آج ہمیں یہ دیکھ کر حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ کمشنر سرگودھا 104 کنال کے گھر میں رہتاہے۔ امریکی صدرکے وائٹ ہائوس سے تھوڑے سے چھوٹے محل میں۔اس بیو روکریسی کا ایک خاص مزاج ہے ۔ یہ اپنے فرسودہ قوانین کے ساتھ ابھی تک برطانوی دور میں رہ رہی ہے اور عوام کو رعایا سمجھتی ہے۔اس کے اخراجات ، اس کی تنخواہیں ، اس کا رویہ ، اس کی مراعات ، اس کی بند ربانٹ ، سب کچھ وہی دور غلامی والا ہے۔ برطانیہ نے خود تو ہندوستان سے جانے والے افسران سے مختلف طریقوں سے نجات حاصل کر لی کہ یہ ہندوستان سے آئے ہیں ، ان کی نفسیات آقا والی بن چکی ہے جب کہ یہاں برطانیہ میں ہمیں پبلک سرونٹ چاہییں ، آقا نہیں چاہییں۔
لیکن ہم پاکستان میں ایسا کچھ نہ کر سکے۔ وہی انگریزی دور والا رویہ ، وہی زبان ، وہی بول چال ، وہی رہن سہن ، وہی مقامی لوگوں سے نفرت ،۔۔۔۔یہ ہے ہماری بیوروکریسی اور یہ ہے ہمارا قانون اور یہ ہیں ان کی مراعات۔ چنانچہ اپنا حال دیکھ لیجیے اور ان کے مزے دیکھ لیجیے۔معاشی بوجھ ڈالا جاتا ہے تو عوام پر ۔ ٹیکس لگائے جاتے ہیں تو عوام پر۔ بیوروکریسی کی مراعات اور عنایات پر کوئی بات نہیں کرتا ۔
یہ وہی صدیوں پرانے دور غلامی کے قانون کے تحت ہمارے وائسرائے بنے پھرتے ہیں۔ ضرورت اب اس بات کی ہے کہ جیسے ہم نے ایکٹ آف انڈیا 1935 سے نجات حاصل کر کے اپنا آئین بنا لیا تھا ، ایسے ہی اب ہمیں انڈین انڈی پنڈنس ایکٹ کی ذیلی شقوں سے باہر نکل کر سوچتے ہوئے اپنے آئین کے آرٹیکل 268 کی ذیلی دفعہ ایک میں تبدیلی کرنی چاہیے۔ہمیں نئے اصولوں اور نئے قوانین کی ضرورت ہے۔ہم اب رعایا نہیں ، شہری ہیں۔
تبصرہ لکھیے