ہوم << مسدس حالی؛ مدو جزرِ اسلام - میرافسر امان

مسدس حالی؛ مدو جزرِ اسلام - میرافسر امان

ریاض احمد چوھدری سیکر ٹیری؍ ڈاریکٹر بزم اقبال کلب روڈ لاہور بیشک قابل تعریف ہیں کہ وہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے ہر نقوش کو ڈھونڈ ڈھونڈ قوم کے سامنے لا رہے ہیں۔مسدس حالی :مدو جزر اسلامصدی:ایڈیشن،تدوین نو، از ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقارسابق سیکر ٹیری بزم اقبال کے طباعت ثانی جس میں مولانا حالی کے دیباچہ اوّل اور دوم، اکابرین کی قیمتی تحریروں اور آل عمران کی آیت139’’تم نہ سستی کرواورنہ غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان دار ہو‘‘ سے مزین ، اشاعت سال 2003ء کو پھر، سال 2021 ء میں شائع کرنے کی سعادت حاصل کی۔

مولانا حالی دیباچہ اوّل شروع سے آخر تک قرآن کی شاعروں سے متعلق آیات کہ شاعر ہروادی میں بھٹکتے پھرتے ہیں مبالغہ کرتے ہیں کی مکمل تفسیر بیان کرنے کے بعدفرماتے ہیں کہ بیس برس کی عمر سے چالیسویں سال تک تیلی کے بیل کی طرح اُسی چکرّ میں پھرتے رہے اور اپنے نزدیک سارا جہاں طے کر چکے۔ جب آنکھیں کھولیں تو معلوم ہوا کہ جہاں سے چلے تھے وہیں ہیں۔۔۔ناگاہ دیکھا کہ خدا کا ایک بندہ( سر سید احمد خان جو کہتے کہ اللہ آخرت میں پوچھے گا۔ دنیا میں کیا نیک کام کیا۔ تو کہوں گا حالی سے مسدس لکھوائی )جو اس میدان کا مرد ہے، ایک دشوار گزار رستے میں رہ نورد ہے۔۔۔اس کی نگاہ اِدھر پڑی اور اپنا کام کر گئی ۔ زمانے کا نیا ٹھاٹھ دیکھ کر پرانی شاعری سے دل سیر ہو گیا۔جھوٹے ڈھکوسلے باندھنے سے شرم آنے لگی۔ناصح کی جادو بھری تقریر جی میں گھر کر گئی۔ مولانا حالی نے مسدس کی آغاز میں پانچ بند تمہید کے لکھ کر اوّل سے آخر تک مسلمانوں کے حالات بیان کیے۔دوسرے دیباچہ میں لکھتے ہیں کہ مسدس 1296ھ میں شائع ہوئی۔لکھتے ہیں نظم کا خاتمہ ایسے دل شکن اشعار پر ہوا۔ جن سے تمام اُمیدیں منقطع ہو گئیں اور تمام کوششیں رائیگاں نظر آنے لگیں۔ ایک ضمیمہ مقتضاے حال کے موافق اصل مسدس کے آخر میں لاحق کیا گیا۔ طوالت سے بچنے کے لیے ہم مولانا الطاف حسین حالی کے اس کلام کو ہی کافی سمجھتے ہیں:

وہ بجلی کا کڑکا تھا یا صوت باری
عرب کی زمیں جس نے ساری ہلا دی
نئی اِک لگن دل میں سب کے لگا دی
اِک آواز میں سوتی بستی جگا دی
بڑا ہر طرف غُل یہ پیغام حق سے
کہ گونج اُٹھے دشست و جبل نام حق سے

مسدس کے ضمیمہ میں پہلا بیان ہے کہ:

بس اے نا امیدی نہ یوں دل بجھا تو
جھلک اے امید اپنی آخر دکھا تُو
ذرا نا امیدوں کی داھارس بندھا تو
فسردہ دلوں کے دل آخر بڑھا ٹُو
ترے دَم سے مُر دوں میں جانیں پڑی ہیں
جلی کھیتیاں تو نے سرسبز کی ہیں

رسولؐ اللہ کی شان میں نعت لکھتے ہیں :

اے خاصہ خاصان رسل قوتِ دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے

مسدس میں مشکل الفاظ اور حوالوں کے لیے فرہنگ بھی ترتیب دی گئی ہے۔آخر میں اکابرین کے خطوط بھی پیش کیے گئے ہیں۔سرسید احمد خان کا راقم کو پہلی مرتبہ ذوق کا پتہ چلا۔ فرماتے ہیں کہ میں نہیں چاہتا کہ اس مسدس کو، جو قوم کا حال کا آئینہ اور یا ان کاماتم کا مرثیہ ہے،کسی قید سے مقیّد کیا جائے۔ لڑکے ڈنڈوں پر گاتے پھریں، اور رنڈیاں مجلسوں میں طبلے سارنگی پر گائیں۔میرا دل چاہتا ہے کہ دہلی میں ایک مجلس کروں جس میں تمام اشراف ہوں، اور رنڈیاں نچواؤں۔ مگر وہ رنڈیاں بھی مسدس گاتی ہوں۔ مولوی عبدالحق لکھتے ہیں کہ مسدس حالی زندہ جاوید کتابوں میں سے ہے۔اس کی درد بھری آواز دلوں کو تڑپاتی رہے گی۔اس کے درد مندانہ اقوال دلوں میں گھر کیے بغیر نہ رہیں گے۔ نواب مسعود جنگ بہادر سید سر راس مسعود وزیر بھوپال، مولانا الطاف حسین حالی کا اپنے والد اور دادا سے خوش گوار ملاقاتوں کا ذکر بڑی عقیدت سے کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ جب تک اس دنیا میں ہماری مادری زبان رائج ہے۔ الطاف حسین حالی کا نام مٹ نہیں سکتا۔ مولانا مرحوم کی نثر بھی لاجوب ہے اور نظم بھی۔ مولانا کی تصانیف کا نفیس ایڈیشن شائع کیا جائے۔نواب صدر یار جنگ بہادر مولوی حبیب الرحمان صاحب شروانی رئیسِ حبیب گبنج فرماتے ہیں کہ ایک جنٹلمین جو شاید کبھی شعر پڑھتے ہوں، مسدس کے یہ بند ترنم سے پڑھتے تھے اور جھومتے تھے۔

کوئی قرطبہ کے کھنڈر جاے دیکھے
حجازی امیروں کے گھر جا کے دیکھے

مولوی عبدالماجد دریا آبادی مدیر صدق، حالی کے کلام میں سے ایک یہ شعر کوٹ کیا۔

وہ شعر اور قصائد کا ناپاک دفتر
عفونت میں سنڈاس سے ہے جو بدتر

فرماتے ہیں اکبر اور اقبال کے دور سے قبل اپنے شعر و تغزل کے وصف، آپ نے شاعر ہی کی زبان سے سن لیے۔ اپنی دو قرن قبل والی شاعری کا عکس آپ نے شاعر ہی کی زبان سے سن لیا۔مولانا سید سلیمان ندوی ناظم دارالمصنفین لکھتے ہیں کہ اس مسدس کی تالیف نصف صدی سے زیادہ گزر چکی۔ مگر اُس اثر کی تازگی کا اب بھی وہی عالم ہے، امید ہے صدیوں پر صدیاں گزرتی چلی جائیں گی۔ لیکن ان اوطاق پر سچائی اور اخلاص ملت کی تاثیر سے کہنگی نہ آئے گی۔
خواجہ غلام السیدن لکھتے ہیں کہ آج جو لوگ قومی خدمت کی راہ میں گام زن ہیں، حالی کی سیرت اور شاعری ہر قدم پر ان کی رہنمائی کرتی ہے۔ اور زبان حال سے یہ کہہ رہی ہے:

نگہ بلند سخن دل نواز، جاں پر سوز
یہ ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے

ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار فرماتے ہیں کہ مسدس کے بعد حالی کے نغمے احیائے ملی کے لیے وقف ہوگئے اور مسلم ایجوکیشن کانفرنس کے سالانہ جلسوں کے موقع پر اُن کی نظم پڑھنا ایک معمول بن گیا۔صاحبو!اکبر الہ آبادی، مولانا الطاف حسین حالی اور علامہ اقبالؒ مسلمانوں میں ایسی شخصیتیں گزری ہیں کہ جن پر ہم بجا طور فخر کر سکتے ہیں۔ امت مسلمہ ان کے لیے دعا گو ہے ۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے آمین۔

Comments

Click here to post a comment