ہر طرف انقلاب کی خبریں ہیں اور ایسی گرم کہ لگتا ہے، انقلاب نہیں، رستا خیز کی آمد آمد ہے، پھر نہ بچے گا کوئی
تجھے خبر کیا کہ ہنگامۂ نشور ہے کیا
انقلاب بس آیا ہی چاہتا ہے، ذرا سی پروٹیکشن چاہیے چنانچہ ، بچائو، کی پٹیشن عدالت میں دائر کر دی گئی ہے۔ ظاہر ہے، انقلاب بہت قیمت شے ہے، اس کی حفاظت تو ہونی ہی چاہیے۔ ہفتہ بھر پہلے انقلاب ڈی چوک کی طرف گامزن تھا لیکن حفاظت کے اسباب نہیں تھے چنانچہ پولیس نے انقلاب کو لاٹھیوں پر دھر لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے بپھرا ہوا انقلاب بکھرے ہوئے انقلاب میں تبدیل ہو گیا اور بکھرتے بکھرتے صبح دم تک ہوا ہو چکا تھا البتہ جابجا اپنی نشانیاں چھوڑ گیا۔ اب پھر آنے کو ہے لیکن حفاظت کی ضمانت ملنے کے بعد
رانا ثناء اللہ کہ وزیر داخلہ ہیں ایک سخت زیادتی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ ایک بیان میں ارشاد فرمایا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے بدروحوں کے علاج کی ڈیوٹی مجھے دی ہے، وہ اسلام آباد آئیں تو سہی۔
بادی النظر میں انہوں نے انقلابی ارواح کو بدروحیں قرار دیا ہے جو ان کی انقلاب دشمنی کی دلیل ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ جنہیں بدروح قرار دے رہے ہیں، وہ اصل میں سعید روحیں ہیں۔ ایک سابق منصف اعلیٰ جو بعدازاں ڈیم والے چاچا کے منصب پر سرفراز ہوئے اور مزید بعدازاں ڈیم سمیت لاپتہ ہو گئے، ان سعید روحوں کے قائد کو صادق اور امین قرار دے چکے ہیں۔ اس سند کا حامل کبھی بدروحوں کا قائد نہیں ہو سکتا۔ رانا صاحب اپنے بیان سے رجوع فرمائیں اور سعید روحوں کی مزید دلآزادی نہ کریں۔
یکے از قائدین انقلاب شیخ رشید نے اطلاع دی ہے کہ انقلاب جون میں آئے گا یعنی آج سے شروع ہونے والے مہینے میں اور اگر اس بحران کا (یعنی انقلاب کے ابھی تک نہ آ سکنے کا) کوئی حل نہ نکلا تو پھر کوئی اور نکلے گا۔
کوئی اور نکلنے کا کیا مطلب ہے؟ بات پوری طرح سمجھ میں نہیں آئی۔ لیکن جتنی بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ ہے کہ شیخ صاحب مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ انقلاب کا بحران حل نہیں ہوا کرتا، صحیح محاورہ یہ ہے کہ انقلاب آ کر رہتا ہے۔ ا گر مگر کی بات تو پیشگی مایوسی کا اظہار ہے اور کچھ نہیں۔ شیخ صاحب کو اتنی مایوسی کیوں ہے؟ تھوڑا انتظار کریں، اس کے بعد مایوسی کا اعلان کریں۔ پیشگی مایوسی ظاہر کرنے سے اندیشہ ہے کہ انقلاب ڈر جائے، آyے سے انکار کر دے۔ یہ تو بڑا نقصان ہو جائے گا۔ انقلاب کے پختونخواہ والے شعبے کے سربراہ یعنی وہاں کے وزیر اعلیٰ محمود خاں نے کہا ہے کہ عمران خاں اجازت دیں تو اس بار لانگ مارچ میں صوبائی فورس استعمال کروں گا۔ یعنی پختونخواہ کی سرکاری پولیس کو وفاق اور پنجاب کی پولیس سے بھڑا دینے کا ارادہ ہے۔ عمران خاں نے اس پر خاموشی اختیار کی یعنی نیم رضا مندی ظاہر کی۔
لگتا ہے، محمود خاں قبلہ شیخ رشید سے بھی زیادہ مایوس ہیں اور اس مایوسی کی وجہ 25 مئی کے کاروان انقلاب کی وہ گنتی ہے جو اٹک پل پر کی گئی۔ اے ایف پی کے مطابق اس کارواں میں گنتی 20 ہزار لگ تھی۔ پشاور کی پریس کانفرنس میں ناروا سوال کر کے قائد انقلاب کو برہم اور بدمزہ کرنے والے اخبار نویس اداروں کے ساتھیوں نے ایک ٹی وی شو میں بتایا کہ شرکا کی تعداد 15 ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ یعنی اے ایف پی کی گنتی سے بھی 5 ہزار کم۔ پانچ ہزار کے فرق کو نظرانداز کر دیا جائے تب بھی یہ گنتی حوصلہ افزا نہیں تھی اور اسی عدم حوصلہ افزائی کے نتیجے میں صوبائی قائد انقلاب مایوس ہیں اور اسی مایوسی کی وجہ سے وہ گویا ، دوسرے لفظوں میں، بتا رہے ہیں کہ عوام نہیں آئے تو نہ سہی، میں صوبائی پولیس کو استعمال کروں گا اور گنتی بڑھا لوں گا۔
پختونخواہ پولیس کی نفری کتنی ہو گی؟۔ کچھ علم نہیں لیکن ایک لاکھ کے اوپر نیچے تو ہو گی۔ گویا اٹک پل پر گنتی لگ بھگ ایک لاکھ کرنے کا بندوبست تو ہو گیا۔ کچھ حضرات کے اندیشہ ہائے دور دراز کے مطابق اس طرح وفاق اور صوبے کی جنگ ہو جائے گی۔ تسلی رکھئے حضرات، ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ محمود خاں نے محض ارادہ ظاہر کیا ہے۔ اور وہ بس ارادے ہی ظاہر کیا کرتے ہیں، اس سے آگے نہیں بڑھتے۔ دو ہفتے پہلے انہوں نے افغانستان مقیم ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، یہ کہہ کر اس سے تو اچھا ہے کہ پاکستان چھوڑ کر کابل چلے جائیں، وہیں جا کر باقی عمر اللہ اللہ کریں۔ لیکن نہیں گئے اور جائیں گے بھی نہیں، بس عوام کا جی خوش کرنے کو سبز باغ دکھایا۔
قائد انقلاب کے مترجم، معاف کیجئے گا ترجمان شہزاد گل نے حکومت کو ڈرایا ہے کہ وہ پٹھانوں کو نہیں جانتی، وہ نسل در نسل بدلہ لیا کرتے ہیں۔ مترجم صاحب کو خود نہیں پتہ کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ انقلاب اور ردّانقلاب کی جنگ ہے، پٹھانوں اور پنجابیوں کی نہیں۔ پٹھان پنجابی کی تقسیم کہیں نہیں ہے۔ شیخ چلّی کے خواب دیکھنا اتنی بھی خراب بات نہیں رات ہی نہیں، دن کو بھی دیکھیں لیکن سیاسی لڑائی کو صدیوں اور قومیتوں کی لڑائی میں بدل کر اپنے ہی انقلاب کی راہ کھوٹی مت کریں۔
اطلاعات ہیں کہ انقلاب پارٹی قومی اسمبلی سے دئیے گئے استعفے واپس لینے کی تیاری کر رہی ہے۔ وجہ اس تیاری کی یہ خدشہ ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ ارکان سپیکر کے سامنے پیش ہو کر اپنے استعفوں کی تصدیق سے انکار کر دیں گے جس سے انقلاب کیلئے سخت خفّت آمیز فضا پیدا ہو سکتی ہے، چنانچہ سوچا گیا ہے کہ پالیسی فیصلہ تبدیل کر دیا جائے تاکہ تصدیقِ عدم تصدیق کی نوبت ہی نہ آئے۔ فیصلہ تبدیل کرنے کو بھی انقلاب ہی کہا جاتا ہے، چنانچہ انقلاب وہ نہ سہی، یوں ہی سہی۔
تبصرہ لکھیے