ہوم << قربانی صرف عوام سے نہ مانگی جائے - زاہدہ حنا

قربانی صرف عوام سے نہ مانگی جائے - زاہدہ حنا

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک اور ایٹمی طاقت ہے۔ اس کا جغرافیائی محل وقوع بھی انتہائی اہم ہے۔ پاکستان دنیا کے اہم ترین ملکوں اور خطوں کو آپس میں ملاتا ہے۔ اس اعتبار سے اس کی معاشی ، تجارتی اور تزویراتی اہمیت خطے کے کئی ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔

قدرتی اور انسانی وسائل کے حوالے سے بھی پاکستان ایک مالا مال ملک ہے۔ آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہاں بلند بالا برف پوش پہاڑ، گلیشیئر اور سرسبز وادیاں ہیں۔ ہزاروں میل طویل ساحلی پٹی ، لہلہاتے کھیت ، گھنے جنگلوں کے ساتھ ریگستان بھی ہیں۔معدنی دولت اس کی زمین میں دفن ہے اور منتظر ہے کہ ملک اس سے بے پناہ فائدہ حاصل کرے۔ سال میں چار موسم ہوتے ہیں اور چاروں موسم اس ملک میں اپنا جلوہ دکھلاتے ہیں جس کی وجہ سے گندم ، چاول ، کپاس اور دالیں سمیت تمام غذائی اجناس کاشت کی جاسکتی ہیں۔آبادی کی اکثریت سخت جان محنت کشوں پر مشتمل ہے جو بدترین موسمی حالات میں بھی سخت ترین اور جان لیوا محنت کرنے سے نہیں گھبراتے۔

شمال کے سرد اور برفانی علاقوں میں رہنے والے اس محنت کش کا ذرا تصور کیجیے جو جیکب آباد ، سبی، حیدر آباد ، لاہور اور راولپنڈی کی بھیانک گرمی اور جلد کو جھلسا دینے والی لُو میں بھی کھدائی کرتا اور پتھروں کو توڑتا نظر آتا ہے ، وہ ہاتھ پھیلانے اور بھیک مانگنے سے ممکنہ حد تک گریز کرتا ہے۔ اس ملک کے مثبت حوالے اتنے زیادہ ہیں کہ جنھیں ایک کالم میں سمونا ممکن نہیں ، اس کے لیے ایک ضغیم کتاب تحریر کی جاسکتی ہے۔

اوپر بیان کردہ خوش آیند اور امید افزا حقائق اپنی جگہ لیکن شدید دکھ اور المیہ یہ ہے کہ آج یعنی 2022 میں ہمارا شمار دنیا کے پسماندہ ملکوں میں کیا جانے لگا ہے۔ اب اس خدشے کا اظہار ہر سطح پر برملا کیا جانے لگا ہے کہ معقول اور سخت فیصلوں کے ذریعے حالات پر جلد قابو نہ پایا گیا تو عالمی سطح پر ہم کو نادہندہ ہونے سے کوئی نہیں بچا سکے گا، معیشت کا بحران بے قابو ہوجائے گا اور غربت، بے روزگاری ، مہنگائی کا ایسا طوفان آئے گا جو سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔

ہمارے فیصلہ ساز اداروں اور حلقوں نے اگر اپنے مخصوص سیاسی اور محدود مفادات کو ملک کے مجموعی قومی مفاد سے بالا تر رکھا تو ہمارے ساتھ کیا کچھ ہوسکتا ہے، اس کی معمولی سی جھلک ایک معتبر بین الاقوامی ادارے آئی آر سی کی رپورٹ سے سامنے آئی ہے جس میں بعض ایسے ملکوں کی صورتحال بیان کی گئی ہے جو بدترین معاشی اور انسانی بحرانوں میں گھرے ہوئے ہیں، عالمی برادری کو ان کی کوئی پرواہ نہیں محض چند امیر ترین ملک نیم دلی سے ان کی مدد کرنے کا وعدہ کرتے ہیں جنھیں اکثر وفا بھی نہیں کیا جاتا ہے۔

ہم نے معاشی مسئلوں کی سنگینی کا اب بھی ادرا ک نہیں کیا تو ہمارا ملک بھی آنے والے دنوں میں بدترین بحران کے شکار ایسے ہی ملکوں کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے۔ مذکورہ رپورٹ میں شامل ممالک کے بارے میں اس لیے بھی جاننا ضروری ہے کہ اس میں ہمارے لیے کئی کھلے اور پوشیدہ اشارے پنہاں ہیں۔ ہم حقائق کی پردہ پوشی میں بڑی مہارت رکھتے ہیں جس کے لیے یہ عذر پیش کیا جاتا ہے ایسا کرنے سے لوگوں میں مایوسی اور بد دلی پیدا ہوتی ہے۔

ماضی میں یہ تلخ حقیقت نہیں بتائی گئی تھی کہ حقائق کتنے سنگین ہیں۔ پوری دنیا بحران کی طرف بڑھ رہی ہے لہٰذا ہمارا ملک بھی دیوالیہ ہوسکتا ہے۔ اس طرز عمل سے کیا بحران ٹل گیا ؟ لہٰذا اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ان ملکوں کے بارے میں جانا جائے جو بد ترین معاشی ، سماجی اور انسانی مسائل سے دوچار ہیں تاکہ ہمیں آیندہ کی پیش بندی میں کچھ مدد مل سکے۔

براعظم افریقا کا ملک سوڈان طویل عرصہ سے سیاسی محاذ آرائی، خشک سالی اور مسلح تنازعات کی وجہ سے بد ترین بحران کی زد میں ہے۔ سوڈان کی آبادی تقریباً 5 کروڑ ہے۔ معاشی بحران سے 1 کروڑ 40 لاکھ افراد براہ راست متاثر ہوئے ہیں جن کو فوری مدد کی ضرورت ہے۔خانہ جنگی اور تنازعات کے باعث 30لاکھ افراد خود اپنے ملک میں بے گھر ہوکر کہیں اور پناہ لینے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ افراط زر پر قابو پانا ممکن نہیں رہا۔ موسم کی تبدیلی سے بارشیں نہیں ہو رہی ہیں۔

لوگ بھوک اور کم خوراک کی وجہ سے لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ شام کی صورتحال بھی بہت سنگین ہے۔ ایک دہائی سے زیادہ جاری رہنے والی خانہ جنگی میں لاکھوں بے گناہ انسان ہلاک ہوچکے ہیں اور ملک کے معاشی مسائل میں ناقابل بیان اضافہ ہوگیا ہے۔ 2 کروڑ کی آبادی والے اس ملک کے 1کروڑ 40 لاکھ لوگ کھانے پینے کی اشیاء کے علاوہ دیگر نوعیت کی انسانی امداد کی راہ تک رہے ہیں۔ المناک بات یہ ہے کہ خود اپنے ہی ملک کے اندر 68 لاکھ شامی بے گھر ہوکر کہیں اور رہنے پر مجبور ہیں۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دو کروڑ کے ملک کی تقریباً تمام آبادی براہ راست مشکلات میں گھری ہوئی ہے۔

جب بھی دنیا کے بدنصیب اور مجبور ملکوں کا ذکر ہوتا ہے ہم صومالیہ کا نام ضرور لیتے ہیں۔ اس ملک میں 1 کروڑ 65 لاکھ لوگ رہتے ہیں۔ سیاسی خانہ جنگیوں کی وجہ سے 29 لاکھ صومالی اپنے ملک میں مہاجر بن گئے ہیں۔ 77 لاکھ لوگوں کو فوری مدد نہ ملی تو زیادہ تر لوگ ہلاک ہوجائیں گے۔ اب ذرا اپنے خطے کے ملک میانمار کا ذکر ہوجائے جسے ماضی میں برما کہا جاتا تھا۔

فوجی آمریتوں اور مارشل لائوں نے اس ملک کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ میانمار پر اس وقت فوج قابض ہے لہٰذا عالمی برادری نے اسے تنہا کردیا ہے، ڈیڑھ کروڑ لوگ مدد کے طلب گار ہیں، کوئی ان کی داد رسی کے لیے آگے بڑھنے پر تیار نہیں ہے۔ کانگو 9 کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔معاشی بحران سے جو خانہ جنگی شروع ہوئی ہے اس میں 100 سے زیادہ مسلح گروہ ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ مختلف نسلی، لسانی اور علاقائی گروہ قدرتی وسائل بالخصوص معدنی ذخائر پر قبضے کے لیے ایک دوسرے پر حملے کرتے ہیں۔ کانگو کے 56 لاکھ لوگ بے گھر اور 30 لاکھ افراد زندہ رہنے کے لیے عالمی مدد کے منتظر ہیں۔

نائیجیریا ایک بڑا اسلامی ملک ہے جس کی آبادی 21 کروڑ ہے۔ اس ملک کے حالات کے بارے میں ہماری معلومات بہت محدود ہیں۔ کم لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ ملک 12 برسوں سے مسلح محاذ آرائیوں اور خانہ جنگی کی زد میں ہے۔ جس سے 8 کروڑ لوگ بد ترین معاشی مسائل کا شکار ہیں جنھیں مدد کی سخت ضروت ہے۔ اس مرحلے پر ایتھوپیا کا ذکر کرنا لازمی ہے۔ قحط اور غربت کے حوالے سے یہ ملک ایک استعارہ یا علامت بن گیا ہے ۔

معاشی بحران سے خانہ جنگی پیدا ہوئی اس پر موسمی تبدیلی نے مزید عذاب نازل کردیا۔ اس وقت 9 لاکھ لوگ قحط سے دوچار ہیں اور 11 کروڑ کے ملک کی 2 کروڑ آبادی کو زندہ رہنے کے لیے مدد درکار ہے۔ اب ہم آتے ہیں اپنے پڑوسی ملک افغانستان کی جانب جسے آج اس حال پر پہنچانے میں دنیا کی بڑی طاقتوں کے ساتھ ہمارا بھی ایک اہم کردار ہے۔ کئی دہائیوں کی خانہ جنگیوں نے اس ملک کی معاشی بنیادوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ اس وقت 2 کروڑ 60 لاکھ افغانی بھوک اور افلاس میں مبتلا ہیں اور 42 لاکھ بدنصیب لوگ اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور کر دیے گئے ہیں۔

اپنے ملک کے موجودہ حالات کو سامنے رکھ کر بدترین بحران میں گھرے چند ملکوں کی صورت حال کا مذکورہ بالا تجزیہ ہمیں خبردار کرتا ہے کہ معاشی بحران سے خانہ جنگی جنم لیتی ہے اور اس کا جو نتیجہ نکلتا ہے اس کے چند مظاہر ہمارے سامنے ہیں ، لہٰذا ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے سب کو ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے حصے کی وہ قربانی دینی ہوگی جو ہم سب پر قرض ہے۔ قربانی صرف عوام سے نہ مانگی جائے۔

Comments

Click here to post a comment