کیا بین الاقوامی قانون میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے اور قابض اور غاصب سرائیل کو تسلیم کیے بغیر اس بات کو یقینی بنا سکے کہ اس کے شہری مسجد اقصی کی زیارت کو جا سکیں؟
انٹر نیشنل لاء کے ایک طالب علم کے طور پر میں نے اس سوال پر بہت غور کیا ہے اور میرے نزدیک اس کا جواب اثبات میں ہے۔ جو بات ہمارے سمجھنے کی ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں اسرائیل سے بھلے تعلق قائم نہیں کرنا کیونکہ وہ ایک غاصب ریاست ہے لیکن ہمیں مسجد اقصی سے تعلق جوڑنا ہے کیونکہ جس جگہ سے ہمارے نبی ﷺ معراج پرتشریف لے گئے تھے ہم اس مقام سے لاتعلق نہیں ہو سکتے۔ہمارا وہاں جانے کا حق مسلمہ ہے اور اس حق پر اصرار کرنا اصل میں اسرائیل کے ناجائز قبضے کی نفی ہے۔آئیے اس نکتے کو تفصیل سے اور اس کے قانونی سیاق و سباق میں سمجھتے ہیں۔
مسجد اقصیٰ جس علاقے میں واقع ہے اسے القدس الشرقیہ یعنی مشرقی یروشلم کہتے ہیں۔پہلے ہم یہ دیکھ لیتے ہیں کہ یروشلم شہر کا سٹیٹس کیا ہے۔اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپنی قرارداد نمبر 181 کے تحت29 نومبر 1947 کو یہ قرار دیا کہ یروشلم کا شہر Corpus Seperatum ہو گا۔ یعنی یہ شہر چونکہ سب مذاہب کے لیے محترم ہے تو اب جب یہاں اسرائیل اور فلسطین کے نام سے دو ریاستی بندوبست ہونے جا رہا ہے تو یہ شہر کسی ریاست کا حصہ نہیں ہو گا۔اسی موقف کو فلسطین پر اقوام متحدہ کے کمیشن UNCCP نے بھی تسلیم کیا۔
اقوام متحدہ کے اسی اصول کے تحت اسرائیل نے مصر، اردن اور شام کے ساتھ 1949 میں Armistice Agreement کیے ان کے تحت مشرقی یروشلم کے معاملات اردن کے حوالے کر دیے گئے۔
یروشلم کا مشرقی حصہ یعنی القدس الشرقیہ، 1967 تک اردن کا حصہ تھا اور مغربی یروشلم پر اسرائیل کی عملداری تھی۔ اسرائیل نے 1967 میں مشرقی حصے پر قبضہ کر لیا۔ لیکن اس قبضے کو اقوام متحدہ نے سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 242 کے ذریعے غیر قانونی اور ناجائز قرار دیتے ہوئے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔جنرل اسمبلی نے بھی قرارداد 2253 کے ذریعے اسے ناجائز قرار دے دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 99 ممالک نے اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔یعنی دنیا نے متفقہ طور پر یہ اصول طے کر دیا کہ جس علاقے میں مسجد اقصی ہے یہ علاقہ اسرائیل نہیں ہے۔بین الاقوامی برادری بار بار اس اصول کو دہراتی رہی۔اسرائیل نے جب اپنا دارلحکومت یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تو سلامتی کونسل نے دو قراردادوں، قرارداد نمبر 476 اور 478 کے تحت نہ صرف اسے تسلیم کرنے سے انکار کیا بلکہ دنیاکوبتایا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے اس لیے کوئی بھی ملک اسے اسرائیل کا دارالحکومت سمجھ کر معاملہ نہ کرے۔
سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر252 بھی یہی اصول طے کر چکی ہے۔سلامتی کونسل اپنی قرارداد نمبر 672 میں بھی کہہ چکی کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔بات چلتے چلتے عالمی عدالت انصاف تک بھی پہنچ گئی۔ عالمی عدالت انصاف نے 2004 میں قرار دیا کہ یروشلم اسرائیل کا حصہ نہیں ہے۔ اسے اسرائیل نہیں کہا جا سکتا۔گویا پہلا اصول تو اچھی طرح سمجھ لیجیے کہ بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی، سلامتی کونسل اور عالمی عدالت انصاف کے مطابق جس علاقے میں مسجد اقصی واقع ہے وہ علاقہ اسرائیل کانہیں ہے۔وہ فلسطین کا ہے۔دوسرا معاملہ خود مسجد اقصی سے متعلق ہے۔کیا ہمیں معلوم ہے کہ قانونی طور پر آج بھی مسجد اقصی کا ’کسٹوڈین‘ کون ہے؟ یعنی اس کا خادم اور اس کا منتظم کون ہے؟اس کے معاملات کون دیکھ رہا ہے؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کام اسرائیل کر رہا ہے تو آپ غلطی پر ہیں۔
ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ مسجد اقصی کے ’کسٹوڈین‘ اردن کے شاہ عبد اللہ ہیں جو شریف مکہ کی اولاد میں سے ہیں۔جس طرح سعودی عرب کے فرمانروا خادم الحرمین شریفین کہلاتے ہیں، اسی طرح اردن کے شاہ عبد اللہ مسجد اقصی کے ’کسٹوڈین‘ہیں۔باوجود اس کے کہ اسرائیل القدس الشرقیہ پر ناجائز قبضہ کیے ہوئے ہے لیکن آج بھی مسجد اقصی کے معاملات اردن کے پاس ہیں۔ اور نہ صرف مسجد اقصی کے، بلکہ دیگر مقامات مقدسہ کے کسٹوڈین بھی وہی ہیں۔یروشلم کے مسیحی رہنما بھی ان کا یہ مقام تسلیم کرتے ہیں اور بین الاقوامی برادری بھی۔دستیاب اعدادو شمار کے مطابق اردن ان مقامات مقدسہ کی تزئین و اہتمام پر ایک ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔
مسجد اقصی کے امام کا تعین بھی اردن ہی کی ذمہ داری تھی جو اس نے خود ہی بعد میں فلسطینی اتھارٹی کو دے دی۔ لیکن وہاں جو وقف کام کر رہا ہے اس کے معاملات اردن ہی دیکھ رہا ہے۔ قریب ایک ہزار ملازمین وہاں کام کر رہے ہیں۔ اس وقت ایک معاہدے کے تحت یہ انتظام چل رہا ہے کہ اس پورے احاطے میں یہودی آ تو سکتے ہیں لیکن عبادت کاحق نہیں ہے۔چنانچہ وہ فی الوقت دیوار گریہ پر عبادت کرتے ہیں۔ یہ معاہدہ بھی اسرائیل کے ساتھ اردن ہی نے کر رکھا ہے۔اب آئیے واپس اپنے سوال کی طرف کہ کیا کیا بین الاقوامی قانون میں اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے اور قابض اور غاصب سرائیل کو تسلیم کیے بغیر اس بات کو یقینی بنا سکے کہ اس کے شہری مسجد اقصی کی زیارت کو جا سکیں؟
جواب بہت واضح ہے۔ نہ یہ علاقہ اسرائیل کا ہے، نہ یہ مسجد اور یہ احاطہ اس کی عملداری میں ہے۔ اس کا غاصبانہ قبضہ ضرور ہے لیکن اس قبضے کو اقوام متحدہ ناجائز اور غیرقانونی قرار دے چکی ہے۔اقوام متحدہ اور عالمی عدالت انصاف یہ بھی کہہ چکیں کہ یہ علاقہ اسرائیل نہیں ہے، یہ فلسطین ہے۔اب اگر کوئی مسلمان مسجد اقصی جانا چاہے تو اس کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا ضروری کیسے ہو گیا؟ اور کوئی ملک اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا تو اس پر مسجداقصی کے دروازے بند کیسے ہو سکتے ہیں؟بین الاقوامی قانون کے مطابق کوئی پاکستانی مسجد اقصی جانا چاہے تو وہ اسرائیل جانا نہیں ہے، وہ Corpus Seperatum جانا ہے۔اور اس کا حق مسلمہ ہے۔قانونی حیثیت بڑی واضح ہے۔سوال اب اس عملی نوعیت کا ہے۔اس کے لیے اقوام متحدہ سے بھی بات کی جا سکتی ہے، اردن سے بھی اور او آئی سی سے بھی۔لیکن حق تب ہی مل سکتا ہے جب پہلے معلوم ہو جائے کہ حق حاصل ہے۔
ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیل ایک غاصب قوت ہے اور ہم اسے بے شک تسلیم نہ کریں لیکن اس کے باوجود بین الاقوامی قانون ہمیں یہ حق دیتا ہے کہ ہم القدس الشرقیہ کے Corpus Seperatum میں جا کر مسجد اقصی کی زیارت کر سکیں.(یاد رہے کہ یہ عام پاکستانی شہریوں کے مسجد اقصی جانے کے بین الاقوامی حقوق کی بات کر رہا ہوں، کسی این جی اوکے ساتھ مشکوک مقاصد کے تحت کیے گئے دورے پر جا کر اسرائیلی حکام سے ملاقات کی بات نہیں کر رہا)
تبصرہ لکھیے