صُبح اُٹھ کر واٹس ایپ پر نظر ڈالی تو سب سے پہلے شکاگو سے برادرِ عزیز عرفان صوفی کے پیغام پر نظر پڑی ، پیغام کیا تھا ایک ڈراؤنا خواب تھا جس نے پورے وجود کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ یہ ایک مختصر سی ویڈیو کی شکل میں تھا جس میں علامہ اقبال کی بہو، ڈاکٹر جاوید اقبال کی شریکِ حیات ، اعلیٰ عدلیہ کی ریٹائرڈ جج اور ہم سب کے لیے ایک بے حد محترم خاتون ناصرہ اقبال بتا رہی تھیں کہ کس طرح کل رات اُن کے گھر پر پولیس نے بِلاوارنٹ ہلہ بولا اور اُن کا گیٹ توڑنے کے ساتھ ساتھ انتہائی بدتمیزی سے اُن کے صاحبزادے سینیٹر ولید اقبال کے بارے میں دریافت کیا اور پورے گھر کی تلاشی لی جس کا واحد قصور یہ تھا کہ و ہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھتا ہے۔
اگرچہ بعد میں مسلم لیگ ن کے سینئر لیڈر خواجہ آصف نے پنجاب پولیس کے اس عمل کی قومی اسمبلی میں بھر پور مذمت کی لیکن اگر ایمانداری سے دیکھا جائے تو یہ جُرم مذمت کی قرار داد سے کہیں آگے کا ہے کہ ولید اقبال اُن چند سیاست دانوں میں سے ہیں جن کو بات کرنے کا سلیقہ اور ڈھنگ آتا ہے اور جو انتہائی دھیمے مزاج کے ایک صلح کل طبیعت کے حامل انسان ہیں ۔اب ظاہر ہے اس نوع کا فیصلہ علاقے کا ایس ایچ او تو نہیں کرسکتا یقیناً یہ احکامات کہیں اوپر سے آئے ہوں گے اور یہ بھی واضح ہے کہ یہ سب کچھ پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کو روکنے کے حوالے سے کیا گیا ہے لیکن اس کے لیے پاکستان کے آزاد اور بے قصور شہریوںکی پکڑ دھکڑ حکومت کے اعتماد کے بجائے اس کے خوف اور پریشانی کی عکاس ہے۔
اگر موجودہ حکومت کا ارادہ واقعی فوری طور پر یا جلد از جلد الیکشن کرانے کا نہیں تو ان کو اس کا پورا حق حاصل ہے مگر دوسری طرف اُس پر یہ دیکھنا بھی لازم ہے کہ اس طرح کے لانگ مارچ، دھرنے یا احتجاج ہر روز نئی سے نئی شکل بدل کر سامنے آئیں گے زیادہ مناسب طریقہ شاید یہی ہے کہ آپ سب کے لیے قابلِ قبول الیکشن اصلاحات منظور کروائیں اور اس کے فوراً بعد انتخابات کا اعلان کر دیں۔ اُمید ہے کہ اس عرصے میں الیکشن کمیشن بھی خیبر پختونخوا کی اضافی سیٹوں اور قومی مردم شماری کا مسئلہ حل کرلے گا۔
اس وقت جو تلخی کی فضا سارے ملک کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے اُس کو ختم یا کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں بنیادی اخلاقیات کے اصولوں کی طرف واپس جائیں، ذاتی حملوں اور کردار کشی کی جگہ دوسروں کو وہی عزت دیں جو وہ اپنے لیے چاہتی ہیں اور عملی طور پر ہر طرح کے گالم گلوچ اور ہتکِ عزت کے عمومی رویوں سے سیاسی ماحول کو پاک کردیں کہ اس کے بغیر شفاف سے شفاف الیکشن بھی ہمیشہ متنازعہ رہے گا اس طرح کے مزاج کی تعمیر اور تربیت کے لیے کچھ اچھی باتیں میرے مطالعے میںآئی ہیں، سو میں اُن کو اس اُمید پر شیئر کرتا ہوں کہ ہمارے سیاستدان عمر کے ساتھ ساتھ علم اور حلم کے حوالے سے بھی سچ مچ بڑے ہوجائیں۔
’’محبت، دوستی، احساس، خیال یا امداد۔ دنیائے ارض پر کوئی ایسی نشانی ضرور چھوڑ کر جائیں جو یہ بتاتی رہے کہ اس راہ سے کبھی آپ گزرے تھے۔ زندگی میں ہمیشہ ریاضی کے اصول پر کاربند رہیں۔ دوست احباب کوہمیشہ جمع کریں، دشمنوں کو تفریق کریں خوشیوں کو ضرب دیں اور رنج و الم کو تقسیم کریں اور ہمیشہ مسکراتے رہیں۔‘‘
’’آپ کو زندگی میں جو کچھ حاصل ہو اُسے ہضم کرنا سیکھیے اس لیے کہ کھانا ہضم نہ ہونے پر بیماریاں پیدا ہوتی ہیں، مال و دولت ہضم نہ ہونے کی صورت میںریا کاری جنم لیتی ہے، بات ہضم نہ ہونے پر چغلی اور غیبت کا عنصر غالب آتا ہے، تعریف ہضم نہ ہونے کی صورت میں غرور میں اضافہ ہوتا ہے ، غم و الم ہضم نہ ہونے کی صورت میں مایوسی سرایت کرجاتی ہے اور اقتدار اور طاقت ہضم نہ ہونے کی صورت میں خطرات اور تفکرات میں غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے‘‘
ایک اور دانشور کے خیال میں’’رشتے درختوں کی مانند ہوتے ہیں بعض اوقات ہم اپنی ضرورتوں کی خاطر انھیں کاٹتے چلے جاتے ہیں اور آخر کار خود کو گھنے سائے سے محروم کردیتے ہیں اس لیے ہاتھ بڑھانے میں جلدی نہ کریں اور جب ہاتھ تھام لیا ہے تو پھر اسے مضبوطی سے تھامے رکھیے کہ اب اس کی حفاظت آپ کی ذمے داری ہے‘‘ میں جانتا ہوں کہ موجودہ صورتِ حال اور طرزِ انتخاب میں ان باتوں پر عمل بہت مشکل ہے کہ اس کی بنیاد ہی طبقاتی مفادات پر رکھی اور اٹھائی گئی ہے.
عملی طور پر اسمبلیوں کو قومی مفادات کا صحیح نمایندہ بنانے کے لیے از حد ضروری ہے کہ بلدیاتی نظام کو رائج کرکے اس پر سختی اور تسلسل سے عمل کیا جائے تاکہ ہمارے نمایندے بھی برطانیہ کے ہاؤس آف کامنز کی طرح بنیادی سطح کی کونسلر شپ سے تربیت اور تجربہ حاصل کرکے آگے آئیں اور اپنی سیاست کی بنیاد عوامی مفادات پر اس طرح سے رکھیں کہ آپس میں لڑنے کے بجائے سب لوگ مل کر ترقی کے راستے سے اُن رکاوٹوں کو دُور کریں جو تاریخ یا عالمی سیاست کے حوالے سے راہ پاگئی ہیں اور دل و جان سے پوری قوم کے ترجمان ہوں ۔
تبصرہ لکھیے