وہی ہوا جس کاڈر تھا ،ملک میں افراتفری بڑھ رہی ہے، سیاسی تشدد کے رحجان میں اضافہ ہو رہاہے، حکومت نے تحریک انصاف کے رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاریاں شروع کر دی ہیں، پنجاب میں وسیع پیمانے پر چھاپے مارے گئے ہیں، کچھ رو پوش ہو گئے اور بہت سارے گرفتار بھی ہوئے ہیں۔
لاہور میں گزشتہ روز ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، ماڈل ٹائون میں تحریک انصاف کے خلاف پولیس کے کریک ڈائون کے دوران فائرنگ سے پولیس اہلکار کمال احمد جاں بحق ہو گیا۔ وفاقی حکومت نے تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے نمٹنے کیلئے دیگر صوبوں سے پولیس، ایف سی اور رینجرز طلب کر رکھی ہے، کنٹینر لگا کر ڈی چوک کو سیل کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے ہر صورت میں دھرنے کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ عمران خان اپنی بات پر بضد نظر آتے ہیں، عمران خان نے مقتدر قوتوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیوٹرل والوں کو اب نیوٹرل رہنا چاہئے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے ممکنہ تشدد اور گرفتاریوں کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی درخواست کی سماعت ہوئی ، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا پہلے سے فیصلہ موجود ہے اس پر عمل ہونا چاہئے۔
یہ ٹھیک ہے کہ گرفتاریاں غیر جمہوری ہیں اور سیاست میں تشدد کا رحجان نہیں ہونا چاہئے مگر دونوں طرف سے آگ لگی ہوئی ہے، ملک اور قوم کی بہتری کیلئے کوئی نہیں سوچ رہا، وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب کا یہ کہنا کہ سخت اقدامات عوام کو شر پسندوںسے بچانے کیلئے کئے جا رہے ہیں ، جب عمران خان اقتدار میں تھے تو وہ بھی یہی بات کہتے تھے، تحریک انصاف کے مرکزی رہنما مخدوم شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ امپورٹڈ حکومت نامنظور ہے، تمام مسائل کا حل صرف اور صرف الیکشن ہیں، جبکہ پی ڈی ایم والے جب اپوزیشن میں تھے تو وہ بھی یہی کہتے تھے کہ سلیکٹڈ حکومت نامنظور ہے اور تمام مسائل کا حل صرف اور صرف انتخابات ہیں۔ اس وقت بات تحریک انصاف والوں نے نہیں مانی تھی ، اب پی ڈی ایم والے نہیں مان رہے، لیکن اس لڑائی میں عام آدمی کا کیا قصور ہے؟ ملک اور قوم کا کیا قصور ہے؟
مہنگائی اور بیروزگاری آسمان تک چلی گئی، غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی ہے، جس طرح غربت کے خاتمے کے حوالے سے عمران خان کے تمام وعدے اور دعوے نقش بر آب ثابت ہوئے تھے اسی طرح موجودہ حکومت کے دور میں بھی غریب عوام کو ریلیف کی بجائے تکلیف مل رہی ہے۔ گزشتہ روز سٹیٹ بینک نے شرح سود میں اضافہ کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔ اب بتائیں غریب جائے تو کہاں جائے؟۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے انکشاف کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے اسمبلیوں کی پانچ ، دس دن میں تحلیل کا فیصلہ کر لیا تھا ، سوال یہ ہے کہ پھر کیا ہوا؟۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ کپتان کی ضد معاملات بگاڑ کا باعث بنے۔ رویے میں لچک ہونی چاہئے، نگاہ بلند ہونی چاہئے، سخن دلنواز ہونا چاہئے اور جاں پرسوز ہونی چاہئے، یہی ہے رخت سفر میر کاررواں کیلئے۔
مگر جو کچھ ہو رہا ہے سب اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ضد اور انا کے حوالے سے ایک واقعہ اس طرح ہے کہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کرنے کے لیے عمران خان کی پریس کانفرنس شروع ہونے سے پہلے شاہ محمود قریشی کو اہم فون آگیا، شاہ محمود نے عمران خان کو نمبر دکھایا، عمران خان نے ہنس کر کہا، بند کر دو اسے اس کے باوجود شاہ محمود قریشی نے فون سنا۔ عمران خان نے ایک بار پھر کہا کہ فون بند کر دو، سب ڈسٹرب ہو رہے ہیں، شاہ محمود قریشی نے فون بند کر کے عمران خان کو فون کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ وہ کہہ رہے ہیں آپ کال لو ورنہ آپ کو ٹریپ کردیں گے، شاہ محمود کو جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کر دیں، کر دیں۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کرنے والوں کا حساب لیں گے ۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ مارچ کی آڑ میں خانہ جنگی کی سازش کی جا رہی ہے اور ماڈل ٹائون لاہور میں پولیس اہلکار کے قتل کا حساب لیں گے۔ اچھی بات ہے کہ ماڈل ٹائون میں قتل کا حساب لیا جانا چاہئے بلکہ ماڈل ٹائون میں جتنے بھی قتل ہوئے سب کا حساب لیا جانا چاہئے ۔ ایک سوال یہ بھی ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے 14 افراد کے قتل کا جو الزام خود رانا ثناء اللہ پر ہے اس کا حساب بھی ہونا چاہئے۔ پنجاب کے علاوہ سندھ میں بھی تحریک انصاف کے رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاری کا سلسلہ جاری ہے ، حکومت سندھ نے پورے صوبے میں ایک ماہ کیلئے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے، اسلام آباد میں حکومت نے ڈی آئی جی آپریشنز سہیل ظفر چٹھہ کو ڈی آئی جی لاء اینڈ آرڈر کا بھی اضافی چارج سونپ دیا ہے ۔
سہیل ظفر چٹھہ گزشتہ دور حکومت میں راجن پور اور رحیم یار خان میں بطور ڈی پی او تعینات رہے، اس دوران سینکڑوں افراد ماورائے عدالت قتل ہوئے ، حکومت کے اقدامات سے لگتا ہے کہ وہ سختی کے موڈ میں ہے جو کہ ملک و قوم کیلئے بہتر نہیں ہے، دونوں فریقوں کو افہام و تفہیم سے کام لینا چاہئے اور مسائل کے حل کیلئے مذاکرات کی میز پر آنا چاہئے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھاکہ پی ڈی ایم والے بھی الیکشن کا مطالبہ کرتے تھے اور تحریک انصاف نہیں مانتی تھی ، اب تحریک انصاف الیکشن کا مطالبہ کر رہی ہے تو پی ڈی ایم حکومت نہیں مان رہی ، الیکشن کے مطالبے کی کوئی مخالفت نہیں کرتا لیکن الیکشن کے ساتھ قومی معاملات اور قومی امور کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے
عمران خان ملتان آئے ، اپنا وعدہ پورا نہ کرنے پر ندامت اور شرمندگی کا اظہار کرنے اور وسیب کے لوگوں سے معذرت کرنے کی بجائے وسیب کے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کر کے واپس چلے گئے، اسی طرح موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف نے چولستان سے پیاس سے مرنے والوں کیلئے ہمدردی کا ایک لفظ بھی بولنا گوارا نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں فریقوں حکومت اور اپوزیشن کے اقدامات ملک اور قوم کی بہتری کیلئے سود مند نہیں ہیں، دونوں فریقوں کو ملک اور قوم کی بہتری کیلئے سوچنا ہوگااور ملک میں سیاسی تشدد کے رحجان کی نفی کرنا ہوگی۔
تبصرہ لکھیے