عدلیہ تحریک میں مجھے وہ وقت یاد ہے جب زرداری حکومت نے وعدے کے باوجود ججز کو بحال کرنے سے انکار کر دیا تھا, اس وقت سب جماعتوں نے مشترکہ طور پر اسلام آباد کی طرف مارچ کا اعلان کیا تھا۔ اسی سلسلے میں لاہور جماعت نے بھی لٹن روڈ سے روانگی کا اعلان کیا, پہلے لٹن روڈ سے لاہور ہائی کورٹ آنا تھا اور پھر وہاں سے دیگر جماعتوں اور وکلاء کے قافلوں کے ساتھ اسلام آباد روانگی کا پلان تھا۔
میں بھی اپنی یونین کونسل کے جماعتی ساتھیوں کے ساتھ لٹن روڈ بروقت پہنچ گیا, وہاں سینکڑوں کی تعداد میں جماعتی ساتھی پہنچنا شروع ہو گئے تھے۔ لٹن روڈ سے ہی پولیس نے سڑک روکاوٹیں لگا کر بند کر رکھی تھی۔ لیکن جب ٹرک پر کھڑے لیاقت بلوچ صاحب کی قیادت میں جماعتی قافلہ روانہ ہوا تو پولیس کی تمام روکاوٹیں اور خاردار تاریں روندتا ہوا جلد ہی لاہور ہائی کورٹ پہنچ گیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے پاس مین مال روڈ اور اردگرد کی عمارتوں پر گویا پورے لاہور کی پولیس پورے لاؤ لشکر اور تشدد کے آلات کے ساتھ تعینات تھی۔
وہ دن میرے لیے بہت یاد گار ہے, اس دن لیاقت بلوچ صاحب کی جواں مردی, فرنٹ پر لیڈ کرنے کی صلاحیت, مشکل ترین حالات میں بھی بذلہ سنجی اور جملہ بازی نے دل موہ لیا۔ لیاقت صاحب ٹرک کی چھت پر کھڑے مائیک پر کارکنان کا حوصلہ بڑھا رہے تھے, ٹرک پر پولیس کی جانب سے ارد گرد کی عمارات سے آنسو گیس اور پتھروں کی بارش جاری تھی۔ لیکن لیاقت صاحب مائیک سے کبھی ٹرک کو آگے بڑھنے, کبھی پیچھے ہٹنے, کبھی دائیں مڑنے اور کبھی بائیں جانے کی ہدایات کسی ماہر کمانڈر کی طرح دے رہے تھے۔ ساتھ ہی کارکنان کو بھی ہدایات دے رہے تھے کہ " جوانو نال دیاں عمارتاں دی فکر کرو, اوتھے پہنچو تے پولس والیاں نوں تھلے لاؤ" جلد ہی کمانڈر انچیف کی ہدایات پر اردگرد کی عمارات سے پولیس والوں کو بھگا کر جماعتی پرچم لہرا دیے گئے۔
اس روز جماعت اسلامی کے کارکنان کے ساتھ قیادت کو بھی جواں مردی سے پولیس گردی سے نپٹتے دیکھا۔ امیرالعظیم, وقاص جعفری, ذکر اللہ مجاہد وغیرہ کو اپنے رومال لپٹے ہاتھوں سے آنسو گیس کے شیل اور پتھر اٹھا کر واپس پولیس پر پھینکتے دیکھا۔ اتنا گھمسان کا رن تھا کہ جس کا اظہار الفاظ میں ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ جماعتی کارکنان کے آہنی عزم کے سامنے پولیس کو تھکتے اور ہارتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
میاں نواز شریف صاحب نے مسلم لیگ ن کے قافلے کے ساتھ دوپہر بارہ بجے ماڈل ٹاؤن سے روانہ ہونا تھا, لیکن تین بجے تک وہ اپنی رہائش گاہ سے باہر نہ آئے, جبکہ عمران خان صاحب اسلام آباد ہی میں مرکزی قافلوں کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ چار بجے کے قریب مسلم لیگ ن کے کارکنان بھی ٹی وی سکرینوں پر جماعتی مزاحمت دیکھ کر آنے لگے اور مسلم لیگ ن کے مقامی لیڈر نے مجھ سے بات کرتے ہوئے خود اقرار کیا کہ اصل کمال آپ لوگوں کا ہے۔ اگر آپ لوگ ہمت نہ دکھاتے تو آج لاہور سنسان ہوتا۔ ان کے مطابق خود نواز شریف نے انھیں ہدایات دی ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ کارکنان کو لے کر پہنچیں کیونکہ جماعت اسلامی والوں نے ماحول بنا دیا ہے, جلد ہی میں بھی ماڈل ٹاؤن سے قافلہ لے کر نکلتا ہوں۔
بہرحال لاہور ہائی کورٹ پر میں نے کئی پولیس افسران کو بیلٹیں اتار کر ڈیوٹی سے انکار کرتے دیکھا۔ پھر میاں نواز شریف بھی اپنی رہائش گاہ سے نکل آئے اور آہستہ آہستہ جیسے پورا لاہور امنڈ آیا, تمام روکاوٹیں ریزہ ریزہ ہو گئیں اور اسلام آباد کی طرف قافلے رواں دواں ہو گئے۔ خاکسار بھی اپنی اس وقت کی مہران گاڑی میں کارکنان کو بٹھا کر اسلام آباد کی طرف روانہ ہو گیا۔ رستے میں بھی جی ٹی روڈ پر جگہ جگہ روکاوٹیں تھیں, لیکن قافلے ان روکاوٹوں کو ہٹاتے آگے بڑھتے رہے۔
تقریباً تہجد کے وقت اسلام آباد کے راستے میں جی ٹی روڈ پر ہی اطلاع ملی کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے ججز بحالی کا اعلان کر دیا ہے۔ رستے ہی میں شکرانے کے نوافل ادا کیے, لیکن اسلام آباد کی طرف سفر جاری رکھا۔ فجر کی نماز اسلام آباد پڑھی اور چیف جسٹس افتخار چوہدری کی رہائش گاہ پر بالکونی میں کھڑے جج کو ہاتھ ہلا کر مبارک باد دی اور واپس لاہور کی راہ لی۔ لیکن آگے اس ملک کے ساتھ ان سیاست دانوں اور عدلیہ نے جو کیا اور جو کر رہے ہیں وہ ایک الگ تاریخ ہے۔
تبصرہ لکھیے