آج سے چند برس قبل اسلام آباد ایئرپورٹ پر ایک حیران کن واقعہ پیش آیا‘ برطانیہ جانے والی ایک فیملی نے امیگریشن کی فی میل اسٹاف سے بدتمیزی کی‘ بدتمیزی کرنے اور بھگتنے والی دونوں خواتین تھیں‘ بات بڑھتے بڑھتے گالی گلوچ اور ہاتھا پائی تک چلی گئی‘ پہلا تھپڑ مسافر خاتون نے مارا۔
جواب میں امیگریشن کی خاتون نے بھی تھپڑ جڑ دیا‘یہ دیکھ کر مسافر فیملی کے مردوں نے خاتون امیگریشن افسر پر حملہ کر دیا‘ ایئرپورٹ کااسٹاف آ گے بڑھا اور اپنی کولیگ پر حملہ آوروں کو پھینٹا لگا دیا‘ معاملہ ذرا ٹھنڈا ہوا تو دونوں طرف سے یہ اعتراض کیا جا رہا تھا ’’ہماری خاتون پر ہاتھ اٹھایا گیا‘‘ مسافروں کا کہنا تھا۔
اس چڑیل نے ہماری خالا کو تھپڑ ماراجب کہ امیگریشن آفیسرز اور اے ایس ایف کا کہنا تھا مسافروں نے ہماری فی میل اسٹاف پر تشدد کیا‘ یہ دونوں درست کہہ رہے تھے‘ ایشو صرف اتنا تھا‘ دونوں کا زاویہ نظرمختلف تھا‘ مسافر فیملی صرف اپنی خالا کو خاتون سمجھ رہی تھی اور وہ صرف اس کے لیے تمام زنانہ حقوق حاصل کرنا چاہتی تھی جب کہ دوسری طرف ایئرپورٹ کا اسٹاف صرف اپنی کولیگ کو فی میل مان رہا تھا اور وہ مسافر خاتون کو خاتون کا اسٹیٹس دینے کے لیے تیار نہیں تھا چناں چہ زاویہ نظر کے اس فرق نے چند لمحوں میں ایئرپورٹ کو میدان جنگ بنا دیا۔
یہ واقعہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ہم روز پورے ملک میں ایسے ایشوز فیس کرتے ہیں اور اس کی وجہ صرف ہمارا زاویہ نظر ہے‘ ہم صرف اپنی بہن‘ ماں‘ بیوی اور بیٹی کو خاتون سمجھتے ہیں‘ دنیا میں صرف ہمارے بزرگ‘ بزرگ ہیں‘ صرف ہمارے بچے‘ بچے ہیں اور صرف ہماری چادر‘ چادر اور چار دیواری‘ چار دیواری ہے جب کہ دوسروں کی دیواریں دیواریں‘ چادر چادر‘ بزرگ بزرگ اور عورتیں عورتیں نہیں ہیں اور یہ رویہ ملک کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
یہ سلسلہ اگر یہاں تک رک جاتا تو بھی شاید گزارہ ہو جاتا لیکن یہ ایشو گھمبیر سے گھمبیر ہوتا چلا جا رہا ہے‘ ہماری نظر میں اب عدالت بھی صرف وہ درست ہے جو ہمارے حق میں فیصلہ دے ‘ پولیس بھی صرف وہ اچھی ہے جوہمارے مخالف کا سر اتار دے‘ جمہوریت بھی صرف وہ اصلی ہے جس کے ذریعے میں اقتدار میں آ جاؤں‘ آئین بھی صرف وہ ٹھیک ہے جو میری کرسی کی حفاظت کرے‘ مذہب بھی صرف وہ سچا ہے جسے میں سچا مان رہا ہوں اور فرقہ بھی صرف وہی درست ہے جس کا میں پیروکار ہوں لہٰذا پھر اس ملک میں لڑائی کیسے رکے گی؟ امن اور سکون کیسے ہو گا؟
آپ محترمہ شیریں مزاری کے معاملے ہی کو لے لیں‘ یہ معاملہ کیا تھا؟ شیریں مزاری کے خاندان کے قبضے میں چالیس ہزار کنال زمین ہے‘ زمین کا ریکارڈ 1972 میں غائب کر دیا گیا تھا اور یہ کیس پانچ دہائیوں سے مختلف عدالتوں میں چل رہا تھا‘ اینٹی کرپشن پنجاب کے سابق ڈی جی رائے منظور نے پچاس سال پرانا ریکارڈ کھود کر نکال لیا‘ پنجاب میں عثمان بزدار کی حکومت تھی‘ اس دور میں شیریں مزاری اور ان کے خاندان کے خلاف ایف آئی آر درج ہو گئی۔
نئی حکومت آئی تو پہلا کمال یہ ہوا پچاس سال پرانا ریکارڈ نکالنے والے رائے منظور کو عہدے سے ہٹا دیا گیا لیکن محکمہ اس کے باوجود مزاری فیملی کو سمن بھجواتا رہا مگر شیریں مزاری اور ان کے خاندان نے پیش ہونے سے انکار کر دیا یہاں تک کہ اینٹی کرپشن نے 21مئی کو پولیس کی مدد سے شیریں مزاری کو گرفتار کر لیا‘ پورے ملک نے وڈیو میں دیکھا شیریں مزاری کو خاتون پولیس اہلکار گرفتار کر رہی ہیں اور شیریں مزاری انھیں گالیاں دے رہی ہیں‘ میں قطعی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا باسٹرڈاب گالی بھی ہے یا نہیں لیکن شیریں مزاری صاحبہ اس وقت یہ فرما رہی تھیں۔
بہرحال گرفتاری کے بعد ملک میں کہرام برپا ہو گیا اور وزیراعلیٰ حمزہ شہباز نے بھی خاتون کے ساتھ ناروا سلوک کا نوٹس لے لیا‘ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی پولیس اور اینٹی کرپشن کو طلب کر لیا اور سوشل میڈیا پر بھی ٹرینڈ بننے لگے‘ ہم سردست یہ مان لیتے ہیں شیریں مزاری صاحبہ کے ساتھ زیادتی ہوئی‘ ملک میں کسی ہائی پروفائل خاتون کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن سوال یہ ہے آج سے تقریباًچار سال قبل جب مریم نوازاور نواز شریف کو لاہورایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔
کیا وہ درست تھا اور کیا مریم نواز خاتون نہیں ہیں‘ شیریں مزاری صاحبہ کو تو تمام زنانہ حقوق مل گئے لیکن مریم نواز عدالت اور جیل دونوں جگہوں پر قانونی زنانہ حقوق سے محروم رہیں‘ مرد اہلکار ان کے سیل کی نگرانی کرتے تھے اور ان کے کمرے میں کیمرے بھی لگے ہوئے تھے‘دوسرا میاں نواز شریف اور مریم نواز کولاہور سے گرفتار کیا گیا تھا اور پنجاب ن لیگ کا گڑھ ہے اگر یہ دونوں اس وقت گرفتاری نہ دیتے اور شیریں مزاری کی طرح مزاحمت کرتے تو کیا انھیں گرفتار کیا جا سکتا تھا؟ اورتیسرا کیا کسی عدالت نے مریم نواز کی مس ہینڈلنگ کا نوٹس لیا؟ اگر نہیں لیا تو کیوں نہیں لیا؟ کیا یہ خاتون نہیں ہیں؟آپ کو 11 اگست 2020 کا دن بھی یاد ہو گا۔
اس دن نیب لاہور نے مریم نواز کو طلب کیا تھا اور ن لیگ کے کارکنوں نے نیب لاہور کا محاصرہ کر لیا تھا‘ مجھ سمیت پورے میڈیا نے ن لیگ کی مذمت کی تھی‘ ہم سب کا کہنا تھا اداروں کا احترام ہونا چاہیے‘ ریاست مدینہ میں اگر حضرت عمر فاروقؓ سے کرتے کا حساب مانگا جا سکتا ہے تو شریف فیملی کو کیوں طلب نہیں کیا جا سکتا لیکن آج جب شیریں مزاری نے گرفتاری پر مزاحمت کی تو کسی طرف سے اداروں کے احترام کی آواز نہیں اٹھی‘ آج کسی نے نہیں کہا قانون کی نظر میں سب کو برابر ہونا چاہیے اور آج کسی کو بھی ریاست مدینہ یاد نہیں آئی‘کیوں؟
سپریم کورٹ آف پاکستان نے 19مئی 2022کو ایک تاریخی حکم جاری کیا‘ اس تاریخی حکم سے قبل چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ایک کولیگ جج کے خط کی روشنی میں سوموٹو نوٹس لیا‘ اگلے دن اٹارنی جنرل کو طلب کیا اور مختصر سماعت کے بعد حکم جاری کر دیا ہائی پروفائل کیسز کی تفتیش اور قانونی ٹیم تبدیل نہیں کی جائے گی‘ نیب اور ایف آئی اے کو وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ حمزہ شہباز کے مقدمات اور تفتیش جاری رکھنے کا حکم بھی دے دیا گیا۔
یہ فیصلہ تاریخی بھی ہے اور ٹھوس بھی‘ بے شک حکومتیں بدلنے سے ملک میں قانون نہیں بدلنا چاہیے‘ یہ کیا بات ہوئی پولیس فروری تک شیخ رشید کے حکم پر اپوزیشن کو ڈنڈے مار تی رہے اور یہ دو ماہ بعد رانا ثناء اللہ کی ہدایت پر عمران خان کے لیے ڈنڈے تیار کرنے لگے‘ کیوں؟ احتجاج اگر حق ہے تو یہ حق سب کو ملنا چاہیے اور نہیں تو پھر سب کو محروم ہونا چاہیے۔
عہدے تبدیل ہونے سے ریاست کا نظریہ کیسے بدل سکتا ہے؟ اور حکومتیں تبدیل ہونے سے تفتیش اور پراسیکیوشن کیسے تبدیل ہو سکتی ہے لہٰذا سپریم کورٹ کا فیصلہ مقدم بھی تھا اور بروقت بھی لیکن سوال یہ ہے کیا صرف شریف فیملی کے مقدمات ہی ہائی پروفائل ہیں اور شیریں مزاری کا کیس لو پروفائل ہے اور کیا اینٹی کرپشن کا محکمہ ایف آئی اے اور نیب کی طرح ریاستی ادارہ نہیں؟ اور اگر یہ بھی ریاستی ادارہ ہے اور شیریں مزاری کا کیس بھی ہائی پروفائل ہے تو پھر اس کیس کی تفتیش شروع ہوتے ہی ڈی جی اینٹی کرپشن رائے منظور اور کیس کے دوسرے تفتیش کاروں کو کیوں بدل دیا گیا؟ کیا یہ ٹرانسفر درست تھی اور اگر رائے منظور شیریں مزاری کیس پر ہاتھ نہ ڈالتا‘ یہ پچاس سال پرانا ریکارڈ نہ نکالتا تو کیا پھر بھی اس کا ٹرانسفر ہو جاتا؟ یہ افسر اس عہدے پر صرف 75 دن قائم رہا جب کہ عہدے کی مدت تین سال ہے۔
کیا کسی نے وزیراعلیٰ پنجاب کو بلا کر اس تبادلے کی وجوہات پوچھیں اور کیا اس کا مطلب یہ نہ لیا جائے ہمارے ملک میں خواتین کی طرح ہائی پروفائل کیس بھی اپنے اپنے ہوتے ہیں ‘بالکل نیوٹرل کی طرح آپ اگر حکومت میں ہیں تو نیوٹرل جانور ہوتے ہیں اور آپ اگر حکومت سے نکل گئے تو پھر نیوٹرل کو نیوٹرل رہنا چاہیے لہٰذا آپ اب نیوٹرل ہی رہیں یعنی جانور بن جائیں‘کیا یہ کمال نہیں!
ہمیں آج یہ ماننا ہوگا یہ ملک تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اور ہر تقسیم خود کو مکمل اوردرست سمجھ رہی ہے‘ پی ٹی آئی کی نظر میں مریم نواز خاتون نہیں ہیں اور ن لیگ شیریں مزاری کو عورت ماننے کے لیے تیار نہیں‘ ن لیگ دو ماہ پہلے تک اسٹیبلشمنٹ سے نیوٹرل ہونے کا مطالبہ کر رہی تھی اور آج یہ پٹرول کی قیمت بڑھانے کا فیصلہ بھی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں کرنا چاہتی ہے۔ہائی پروفائل کیسز بھی صرف وہ ہیں جن پر شریف فیملی کا ٹھپہ لگا ہو‘ احتجاج کا حق بھی صرف اس وقت حق ہے جب ہم اپوزیشن میں ہیں‘ ہم اگر حکومت میں آ گئے تو پھر ملک میں کوئی شخص احتجاج نہیں کر سکتا‘ جمہوریت بھی صرف اس وقت تک جمہوریت ہے جب تک میں کرسی پر ہوں.
آئین بھی صرف اس وقت تک آئین ہو گا جب تک یہ میرے عہدے اور انا کی حفاظت کرتا رہے گا اور عدالتیں بھی صرف اس وقت تک عدالتیں رہیں گی جب تک یہ میرے لیے کھلتی رہیں گی‘ یہ اگر ایک بار کسی اور کے لیے کھل گئیں تو پھر جج جج اور عدالتیں عدالتیں نہیں ہیں لہٰذاآپ پھر دل پر ہاتھ رکھ کر بتایے یہ ملک اس طرح چل سکے گا؟ کیا ہم ان حالات میںآگے بڑھ سکیں گے؟۔
تبصرہ لکھیے