پہلا منظر
گہری رات تھی. ہو کا عالم تھا. وہ دھیمے قدموں کھیتوں کی جانب چلا جا رہا تھا. گاؤں کی گلیاں جو ہر قدم کے ساتھ دور ہوتی جا رہیں تھیں، ان سے آوارہ کتوں کے بھونکنے کی آوازیں وقفے وقفے سے آ رہیں تھیں. وہ سر جھکائے چادر کی بکل لیے کھیت کے نسبتاً دور اور اندھیرے کونے کی جانب چلا جا رہا تھا. آخر کار اپنے پسندیدہ جگہ پہنچ کر اس نے حاجت رفع کی اور واپسی کے لیے اٹھ کھڑا ہوا. تقریباً پچاس فٹ کے فاصلے پر اسے ایک ہیولا نظر آیا. وہ کوئی عورت تھی. دفعتاً چادر والے شخص کے جسم کے روئیں روئیں سے اس عورت پر قابو پانے کی خواہش ابھرنے لگی. اس کی آنکھوں کے سامنے جھکڑ چل رہے تھے، اسے وہ عورت اپنے پاس آتی نظر آ رہی تھی. جیسے وہ اسے بلا رہی تھی. یہ تیز تیز قدموں سے چلتا اس عورت کے سر پر جا پہنچا اور اسے دبوچ لیا. ناقابل برداشت اشتہا کی وجہ سے چادر والے شخص کی تمام تر حسیات اپنے شکار پر مرکوز تھیں. کسی ہفتے مہینے سے بھوکے انسان کی طرح اس نے عورت کو بھنبھوڑنا شروع کیا اور کچھ ہی دیر میں اپنا قبیح فعل انجام دے دیا.
دوسرا منظر
اس کی نگاہیں سامنے ٹکی تھیں. موٹاپے کے بدترین مرض کا شکار وہ شخص پرہیزی کھانے کھا کر زندہ تھا مگر آج مارکیٹ میں آ کر کباب اور تکوں کی دوکان کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا. اس کا ارادہ ہرگز کھانے کا نہ تھا. اس کے فربہ بدن سے پسینہ دھاروں کی طرح بہہ رہا تھا. اچانک اس کے جسم میں بھوک نے شیطانی انگڑائی لی. اس کے معدے نے جیسے چیخنا شروع کر دیا. وہ جنونی انداز میں ہوٹل میں داخل ہوا اور کھانے کا آرڈر دے کر کھانے پر ٹوٹ پڑا. کچھ دیر بے دریغ پیٹ پوجا کے بعد اس کے دل کی دھڑکن گھڑی کی سوئیوں کی طرح بجنے لگی. اس کا دل کسی الارم کی طرح تیز سے تیز ہوتا جا رہا تھا. وہ چند سیکنڈ بعد کرسی پر مردہ پایا گیا.
تیسرا منظر
سامنے ہی ایک احتجاج ہو رہا تھا. وہ اپنے اوزار لیے مزدوری کے لیے جا رہا تھا. اچانک ایک نعرے نے کونسا جادو کیا کہ کسی پگھلے سیسے کی طرح وہ احتجاج میں شامل ہوا اور اپنی کدال سے گاڑیوں کے شیشے توڑنا شروع کر دیے. خون اس کی آنکھوں سے ابل رہا تھا. رگیں اس کے بازوؤں سے باہر نکلنے کو بے تاب تھیں. اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے مگر وہ تسکین محسوس کر رہا تھا. چند گھنٹے بعد وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھا.
چوتھا منظر
پاکستان کے بھارت پر قبضے کے بعد بالی وڈ کی تمام ہیروئنز کو مجاہدین کے سامنے پیش کیا جا رہا تھا. اس کے سامنے بھی معروف ہیروئنز کھڑی ہوتی ہیں، وہ ان میں سے چند ایک کو پکڑ کر اپنی لونڈی بنا لیتا ہے. امریکہ کی تباہی کے بعد اب مسلمانوں کی ساری دنیا پر حکومت ہے اور اسے یورپ کا حکمران بنا دیا گیا ہے. امی کی آواز آتی ہے اور وہ دہی لینے چلا جاتا ہے.
پانچواں منظر
لاہور کے مال روڈ پر اسکرٹ اور نیکر پہنے لڑکیاں گھوم رہی ہیں. لوگوں کے ہاتھوں میں شراب ہے. وہ سامنے بنے کلب میں داخل ہوتا ہے. اندر تیز میوزک میں بے ہنگم ڈانس ہو رہا ہے. جسم تھرک رہے ہیں. وہ تھرکتے جسموں میں شامل ہوجاتا ہے. کچھ دیر پینے اور بہکنے کے بعد اسے لڑکے اور لڑکیاں اٹھا کر اوپر لے جاتے ہیں. وہ واپسی پر بہت تسکین محسوس کرتا ہے. اچانک ایک ہارن کی آواز اسے چونکا دیتی ہے. پچھلی گاڑی والا گالی دیتے ہوئے اسے سگنل کھل جانے کا بتا رہا ہے.
چھٹا منظر
وہ دیکھتا ہے کہ اس کے دوست کو کچھ لوگ مار رہے ہیں. اس کی کنپٹیاں جلنا شروع ہوجاتی ہیں. وہ آگ بگولا ہوجاتا ہے. اس کے بدن میں بجلی بھر جاتی ہے. وہ اپنے ہاتھ میں بلا پکڑ کر ان لوگوں پر پل پڑتا ہے. ایک کے سر سے خون نکلتا دیکھ کر اس کے ہاتھوں میں مزید تیزی آ جاتی ہے. اس کا دوست اسے روکنے کی کوشش کرتا ہے مگر وہ نہیں رکتا. کچھ دن بعد قتل کے الزام میں وہ پھانسی چڑھ جاتا ہے.
یہ فرضی مناظر ، سگمنڈ فرائیڈ کے پرسنیلٹی اور سائیکی سٹرکچر کے پہلے جزو "اڈ " کی وضاحت کرتے ہیں .فرائیڈ کے بقول ، " اڈ " انسانی شخصیت کا تاریک ترین اور بے مہار حصہ ہے ."اڈ " میں انسان اپنی جبلتوں کا اسیر ہوتا ہے . اس کی زندگی کا واحد مقصد اپنی تسکین ہوتا ہے .اس تسکین کے لیے وہ کسی ضابطے اور قانون کو خاطر میں نہیں لاتا. وہ خیالی اور فرضی باتوں کو حقیقت جان کا تسکین پاتا ہے. جبلتیں اس کو لا شعوری طور پر وہ کام کروا دیتی ہیں جس کو وہ شعوری طور پر سمجھ نہیں پاتا. اس کی جبلتوں کی پرورش اور ساخت تراشیدہ ہوتی ہے. فرائیڈ کی یہ وضاحت پڑھ کر اللہ کی اس بات پر ایمان پختہ ہو جاتا ہے کہ شیطان انسان کی رگوں میں دوڑتا ہے. لیکن ہم ان جبلتوں کو رام کر کے ایک سانچے اور ضابطے میں ڈال سکتے ہیں. اس سے قبل ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ کہیں ہم بھی صرف اپنی جبلتوں کے قیدی تو نہیں بن گئے ہیں؟ ہمارے فیصلے، ہمارے مباحث، ہمارے فکر اور سوچ کے زاویے، ہمارا حق اور ہمارا باطل کہیں صرف "اڈ " کی پیروی تو نہیں کر رہا ؟.مجھے لگتا ہے ہمارا معاشرہ اسی تاریک ترین انسانی پہلو کے ہاتھوں غلام ہے
عمدہ ...انداز تحریر خوب ہے.. پہلے کہانی پن جکڑ لیتی ہے اورپھر آخر میں رخ موڑ کے مقصد بیان کیا گیاہے