ہوم << چوبیس کروڑ کہاں جائیں؟ محمد اکرم چوہدری

چوبیس کروڑ کہاں جائیں؟ محمد اکرم چوہدری

میرا مسئلہ سیاسی جماعتوں کا عروج و زوال نہیں ہے، میرا مسئلہ یہ نہیں کہ کون اقتدار ہے اور کون سڑکوں کی خاک چھان رہا ہے، میرا مسئلہ فلور کراسنگ نہیں ہے، میرا مسئلہ یہ نہیں کہ کون سا سیاست دان کہاں جا رہا ہے، کہاں آ رہا ہے، کہاں سے کھا رہا ہے، کہاں کھلا رہا ہے، کیا پی رہا ہے، کیا پلا رہا ہے، کیا پہن رہا ہے، کہاں گھوم رہا ہے، میرا مسئلہ یہ بھی نہیں کہ کس کی کتنی فیکٹریاں لگ گئیں، کس نے کتنا مال بنایا، کون پسماندہ علاقے سے آیا اور اسمبلی میں بیٹھ گیا، کون باہر سے آیا اور حکمران بن گیا، کس کے بچے باہر پڑھتے ہیں، کس کی جائیدادیں ملک سے باہر ہیں۔ میرا مسئلہ میرے ملک کے لگ بھگ چوبیس کروڑ انسان ہیں۔ ان کا والی وارث کون ہے۔

ایک فیصلہ آیا ہے کہ چند اراکینِ اسمبلی پارٹی پالیسی کی مخالفت کرنے پر ڈی سیٹ ہوئے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈی سیٹ ہونے سے انہیں کیا فرق پڑے گا وہ دوبارہ اسمبلیوں میں پہنچ جائیں گے، ان کے ڈی سیٹ ہونے سے عام آدمی کو کیا فرق پڑے گا۔ کیا اس کے مسائل حل ہو جائیں گے؟؟؟

میرے پیارے پاکستانیوں یہ کیسا نظام ہے کہ عوام سے جھوٹے وعدے کرنے والے غربیوں کی بے بسی کا مذاق اڑاتے رہیں، وعدے نہ نبھائیں، سبز باغ دکھا کر ووٹ حاصل کریں، روٹی کا لالچ دے کر ووٹ خرید لیں اور پھر دو وقت کی روٹی بھی چھین لیں، سب باغ دکھائیں اور اقتدار میں آنے کے بعد آنکھیں پھیر لیں، چند نوٹوں کے عوض ووٹ خریدیں، ووٹ لینے کے لیے جھک کر سلام کریں اور پھر سائلین پر پالتو کتے چھوڑ دیں، عام آدمی کو بہتر زندگی کا خواب دکھا کر اس کا خون چوس لیں، زندگی بہتر بنانے کے نام پر سانس لینا مشکل کر دیں اور برسوں سے یہی کھیل سب کے سامنے اور بار بار کھیلتے رہیں لیکن کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کے ساتھ کھیلنے والے گنتی کے لوگوں کے خلاف کبھی کوئی قانون نہیں بنا، ایسا قانون جو ووٹر کے ساتھ وعدوں سے پھرنے والوں کو الٹا لٹکائے۔

قانون حرکت میں بھی کب آتا ہے جب ایک طاقتور دوسرے طاقتور کے سامنے آتا ہے۔ وہ کروڑوں ووٹر دہائیوں سے جنہیں بیوقوف بنایا جا رہا ہے، پرکشش انتخابی نعروں اور وعدوں پر کیا ان پر کوئی ضابطہ اخلاق لاگو نہیں ہوتا، جن کے نام پر جمہوریت ہے وہ ذلیل و رسوا ہیں اور جمہوریت سے فائدے اٹھانے والے موجیں کر رہے ہیں۔

اگر پارٹی پالیسی سے انحراف سنگین جرم ہے تو سادہ لوح ووٹرز کی غربت و بے بسی سے فائدہ اٹھانا اس سے بھی سنگین جرم ہے، کیوں ان معصوم ووٹرز کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون موجود نہیں ہے، اگر ہے تو وہ قانون حرکت میں کیوں نہیں آتا۔ دہائیوں سے کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ میرے ملک کے کروڑوں غریبوں کا خون چوسا جا رہا ہے، استحصال ہو رہا ہے، کروڑوں لوگ بنیادی حقوق سے محروم ہیں عین اسی وقت گنتی کے لوگ اپنے حقوق کے لیے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے نظام کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں لیکن کسی میں بولنے کی جرات نہیں ہے۔ کیا ان کروڑوں لوگوں کے جذبات مجروح نہیں ہوتے، کیا ان کے حقوق پر ڈاکہ نہیں ڈالا جاتا۔ عام آدمی کا سب کچھ لٹ چکا ہے لوٹنے والے معزز ٹھہرے جبکہ جمہوریت کے سب سے بڑے محافظ ووٹرز آج بھی صاف پانی، دو وقت کی روٹی، علاج کی بہتر سہولیات، بچوں کی اچھی،معیاری اور سستی تعلیم کے لیے خوار ہیں لیکن ان کے حقوق پر آئین کی تشریح کرنے والے، اپنے مطلب کی شقیں نکالنے والے، آئین کی پامالی کے کیس لڑنے والوں کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔

جس کا جہاں دل کرتا ہے جائے، الیکشن لڑتا ہے لڑے، ہارے جیتے، مجھے کسی سے کوئی غرض نہیں، میں جانتا ہوں سب ایک جیسے ہیں، یہ بھیس بدل بدل کر آتے ہیں، باریاں لیتے ہیں اور معصوم لوگوں کی خواہشات کو قتل کر کے اگلے سفر پر نکل جاتے ہیں۔ یہ رہنما ہیں خدا کا خوف کریں، انہیں رہنما لکھنے کے بجائے کوئی اور لفظ استعمال ہونا چاہیے۔ یہ رہنما کے معیار پر ہرگز پورا نہیں اترتے۔

شاعر انقلاب، شاعر عوام حبیب جالب فرماتے ہیں

حکمراں ہو گئے کمینے لوگ

خاک میں مل گئے نگینے لوگ

پھر کہتے ہیں

رہزنوں نے جو رہزنی کی تھی

رہبروں نے بھی کیا کمی کی تھی

معروف شاعر راحت اندوری لکھتے ہیں

انصاف ظالموں کی حمایت میں جائے گا

یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائے گا

پھر لکھتے ہیں

واقف ہے خوب جھوٹ کے فن سے یہ آدمی

یہ آدمی ضرور سیاست میں جائے گا

جناب مجھے فکر چھلانگیں لگانے والے سیاستدانوں، وعدے توڑنے والے مفاد پرستوں کی نہیں مجھے ان کروڑوں لوگوں کا غم ہے جن کا استحصال ہو رہا ہے۔کیا نظام ہے پارٹی سربراہ کی حکم عدولی پر سیٹوں سے محروم ہوتے ہیں لیکن جن کی ووٹوں سے اسمبلیوں میں جاتے ہیں ان سے کیے وعدوں سے انحراف کی کوئی وقعت نہیں اور چلے ہیں جمہوریت مضبوط کرنے۔ ان سیاست دانوں نے ان اقتدار کے بھوکے خاندانوں نے میرے ملک کے سکون کو، اخلاقیات کو رواداری کو، احساس کو مروت کو قتل کر دیا ہے۔

احمد فراز کہتے ہیں

اس شہر میں نغمے بہنے دو

بستی میں ہمیں بھی رہنے دو

ہم پالنہار ہیں پھولوں کے

ہم خوشبو کے رکھوالے ہیں

تم کس کا لہو پینے آئے ہو

ہم پیار سکھانے والے ہیں

کروڑوں لوگوں کو چند مفاد پرستوں نے جکڑ رکھا ہے میں دیکھ رہا ہوں ان کی طرف جنہیں آئین نے جکڑ رکھا ہے وہ کب تک ان لائنوں میں الجھے رہیں گے وہ کب تک ان کروڑوں ہم وطنوں کے ارمانوں کا خون برداشت کریں گے کب تک!!

Comments

Click here to post a comment