ہوم << کچھ سود اور بینکنگ کے بارے میں - پروفیسر ممتاز حسین

کچھ سود اور بینکنگ کے بارے میں - پروفیسر ممتاز حسین

گزشتہ دنوں وفاقی شرعی عدالت نے بالآخر اس پرانے مقدمے کا فیصلہ سنا دیا جس کا مقصد معیشت سے سود کا خاتمہ تھا۔ چونکہ اسلامی شریعت میں سود کی حرمت پر کوئی اختلاف نہیں اس لیے یہ فیصلہ غیر متوقع نہیں تھا۔ عدالت نے حکومت کو واضح ہدایت کر دی ہے کہ وہ سودی نظام کو غیر سودی نظام پر تبدیل کرے اس لیے اب معاملے کو مزید نہیں ٹالا جا سکتا۔ تاہم یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں کہ اسے ایک عدالتی فیصلے کے ذریعے حل کیا جا سکے۔ عدالت حکم تو دے سکتی ہے لیکن متبادل نظام بنا نہیں دے سکتی۔ غالباً مقدمے کے مدعیوں نے عدالت سے کسی متبادل نطام کی نشاندہی کی درخواست بھی نہیں کی تھی۔ فرض یہ کیا گیا ہے کہ متبادل نظام موجود ہے، جسے حکومت نافذ کرنے میں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے۔

ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ سود کا کوئی متبادل نہیں۔ لیکن متبادل کا موجود ہونا اور اس کی بنیاد پر ایک مکمل معاشی ڈھانچہ کھڑا کرنا دو مختلف چیزیں ہیں۔ سوشلسٹ نظام مارکس اور انجیلز کی کتابوں میں بڑی وضاحت سے موجود تھا لیکن اسے کسی ملک پر قابل عمل طور پر نافذ کرنے میں کیا کیا مشکلات پیش آئیں اور آخر میں اس کے ساتھ کیا ہوا، یہ سب جانتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اسلامی نظم معیشت کے بنیادی خد و خال اور اصول ہماری کتابوں میں وضاحت کے ساتھ موجود ہیں، لیکن ان کی بنیاد پر ایک ایسا فعال نظام جو فوری طور پر موجودہ نظام کی جگہ لے سکے، موجود نہیں۔ انسانی معاشرہ ہر دم تغیر پذیر رہتا ہے اور اس کے ادارے بھی ساتھ ساتھ ارتقا کرتے رہتے ہیں۔ گزشتہ چند صدیوں کے دوران معاشرتی تغیر کی رفتار بے حد تیز ہو گئی ہے اور قسم قسم کے نئے ادارے وجود میں آ گئے ہیں۔ بنک بھی ان اداروں میں سے ایک ہے۔ اس جدید معاشرے کے (جو ساری دنیا میں پھیلا ہے) سارے ادارے ایک دوسرے سے منسلک بلکہ بری طرح الجھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو تبدیل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم دیگر اداروں پر بھی اثر انداز نہ ہوں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ادارے راتوں رات وجود میں نہیں آتے بلکہ رفتہ رفتہ متشکل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ آج کی دنیا میں ایک ملک دوسرے ممالک اور اداروں سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔ جن چند ممالک نے ایسی کوئی کوشش کی ہے ان کی صورت حال بھی ہمارے سامنے ہے۔

لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہم خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں اور عالمی معاشرے کے بہاؤ پر بہتے جائیں۔ ہمیں اپنے مقامی معاشرے کو اپنے مذہب اور کلچر کے مطابق استوار کرنے کی کوشش کرتے رہنا چاہیے۔ یہ کوشش صرف سیاسی اور قانونی جد و جہد سے ممکن نہیں بلکہ اس کی بنیاد علمی تحقیق ہی بن سکتی ہے۔ ہمیں متبادل نظام کو نہ صرف تھیوریٹیکلی ثابت کرنا ہوگا بلکہ اس کے پائلٹ پروجیکٹ بنا کر عملاً نافذ کرکے ٹیسٹ کرنا بھی ضروری ہے۔

مروجہ اسلامی بینکنگ
گزشتہ کافی عرصے سے 'اسلامک بینکنگ' کے نام سے ایک متبادل نظام کے خد و خال اُبھر رہے ہیں۔ اس کی ابتدا عرب ممالک میں ہوئی اور اب پاکستان میں بھی اس کا تجربہ کافی کامیاب جا رہا ہے۔ پاکستان میں اس نظام کی کامیابی میں مفتی محمد تقی عثمانی اور ان کے ادارے کا کردار بنیادی ہے۔ جب کہ کچھ دیگر علماء کے نزدیک یہ نظام اسلامی اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔

پاکستان میں کچھ بینک تو خالصتاً اس نئے نظام کے تحت قائم ہوئے ہیں اور کچھ عام بینک بھی ضمنی طور پر یہ خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ اس نظام کے تحت بینک قرض کی بجائے فنانسنگ کی کچھ دیگر پراڈکٹ پیش کرتے ہیں، جیسے مضاربہ، مشارکہ، لیزنگ اور مرابحہ وغیرہ۔ ان خدمات کا مختصر تعارف کچھ یوں ہے:
1۔ مضاربہ: یہ ایسا کاروبار ہے جس میں ایک فریق سرمایہ فراہم کرے اور دوسرا اس کے ذریعے کاروبار کرے۔ بنک یہاں پر کاروبار کے لیے قرض دے کر اس پر مقرر شرح سے سود لینے کے بجائے کاروبار کرنے والے کو رقم دے کر اس کے کاروبار میں شریک ہوگا۔ مقررہ وقت پر کاروبار کے نفع نقصان اور اس میں سے بنک کے حصے کا تعین ہوگا۔ کاروبار کا نفع زیادہ ہوگا تو بنک کو بھی زیادہ حصہ ملے گا اور نقصان کی صورت میں بنک بھی نقصان اٹھائے گا۔

2۔ مشارکہ: ایسا کاروبار جس میں ایک سے زیادہ فریق سرمایہ فراہم کریں۔ یہ اس صورت میں ہوگا اگر کاروبار کرنے والا کچھ سرمایہ خود لگائے اور کچھ بنک فراہم کرے گا۔ یہاں بھی کاروبار کے منافع کا حساب کرکے اس میں سے دونوں فریقوں کا حصہ ان کے سرمایے کے تناسب سے نکالا جائے گا۔

3۔ اجارہ: مثلاً کوئی شخص گاڑی خریدنے کے لیے بنک سے قرض لیتا ہے۔ اجارہ کی صورت میں بنک گاڑی خرید کر گاہک کو دے گا اور وہ گاڑی کی قیمت اور ایک مقررہ کرایہ بنک کو ادا کرتا رہے گا، یہاں تک کہ اصل قیمت ادا نہ ہو جائے۔

4۔ مرابحہ: آپ کوئی چیز خریدنے کے لیے فنانسگ حاصل کرنا چاہیں تو بنک وہ چیز خرید کر آگے آپ کو ایک خاص منافع پر فروخت کرے گا۔ گاہک اصل قیمت اور منافع قسطوں کی صورت میں بنک کو ادا کرتا رہے گا جب تک دونوں ختم نہیں ہو جاتیں۔ اس دوران اگر گاہک کچھ قسطیں نہ دے سکے تو بنک اس سے کچھ اضافی رقم عطیے کے طور پر وصول کرے گا۔ یہ عطیہ بنک فلاحی کاموں میں استعمال کرے گا۔ عملاً بنک جاکر مطلوبہ چیز خود نہیں خریدتا بلکہ گاہک کو اپنی طرف سے مختار کرتا ہے کہ بنک کے نام پر خریدے اور پھر بنک سے اپنے لیے خریدے۔ اس سلسلے میں مختلف قسم کے ایگریمنٹ کیے جاتے ہیں۔ جیسے بنک کی طرف سے مرابحہ کا بنیادی معاہدہ، بنک کی طرف سے گاہک کو مختار بنانے کا معاہدہ کہ وہ مطلوبہ چیز بنک کے لیے خریدے اور ببنک کی طرف سے مطلوبہ چیز گاہک کو فروخت کرنے کا بیع نامہ۔

آج کل اسلامی بنکوں میں فنانسگ بیشتر مرابحہ اور کسی قدر اجارہ کی صورت میں ہوتی ہے۔ مضاربہ اور مشارکہ کے طریقے شاید ہی استعمال ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بنک کسی گاہک پر اعتبار کرنے میں دشواری محسوس کرتا ہے کہ وہ کاروبار کا دیانتداری سے حساب رکھ کر بنک کو اتنا منافع دے گا کہ اسے خسارہ نہ ہو۔ شاید ہی کوئی نیک نفس انسان ہوگا جو منافع لاکر بنک کو دے۔ ورنہ اکثریت تو نقصان کا رونا ہی روئے گی۔ خود گاہک بھی اپنے کاروبار کا حساب کتاب بنک کے سامنے رکھنے پر مشکل ہی سے تیار ہوگا۔ یہ مفروضہ نہیں بلکہ اس کا کچھ تجربہ ہو چکا ہے۔

جنرل ضیاء کی کوششیں
جنرل ضیاء نے اسلامائزیشن کی جو کوششیں کی تھیں ان میں ایک بنکنگ کو اسلامی بنانا بھی تھا۔ اس کے تحت بنک سے لفظ interest کو profit سے تبدیل کیا گیا تھا۔ صرف یہی نہیں بلکہ بنکوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ڈپازٹ رکھنے والوں کو ایک مخصوص شرح سے سود ادا کرنے کے بجائے اپنے نفع نقصان میں شریک کریں۔ تب سے بنک اپنا سالانہ حساب کتاب کرکے جو منافع آتا ہے اس کا ایک حصہ ڈپازٹ رکھنے والوں کو دیتے ہیں۔ ڈپازٹ سائیڈ پر بنکوں سے سود کا خاتمہ ہو چکا ہے۔ لیکن مسئلہ فنانسنگ یعنی قرض دینے کا ہے۔ اس کے لیے بھی اُس وقت گنجائش رکھی گئی تھی قرض لینے والا اگر چاہے تو نفع نقصان کی شراکت کی بنیاد پر یہ سہولت حاصل کر سکتا ہے۔

میری پہلی ملازمت ایک سرکاری مالیاتی ادارے میں تھی جو چھوٹے کاروبار اور صنعتوں کو فنانسگ کرتی تھی۔ چونکہ اس زمانے میں اسلامائزیشن کا بڑا شہرہ تھا اس لیے ہماری ٹریننگ میں غیر سودی فنانسگ پر کافی توجہ دی گئی۔ جب عملی طور پر ہمارا سامنا گاہکوں سے ہوا تو معلوم ہوا کہ ان میں بھی اسلامی طریقے سے قرض لینے کی خواہش بہت ہے۔ تقریباً ہر گاہک کی پہلی ڈیمانڈ یہ ہوتی تھی کہ اسے غیر سودی قرض ملے۔ لیکن جب اسے بتایا جاتا کہ اسے کاروبار کا باقاعدہ اکاونٹ رکھنا پڑے گا جس کی ہم ششماہی آڈٹ کریں گے اور اپنی فنانسگ کے تناسب سے منافع سے حصہ لیں گے، تو ان کے جذبے پر اوس پڑ جاتی اور کہتے کہ پرانے طریقے پر ہی قرض دے دیں۔ میں نے چار سال اس ادارے میں گزارے اور کسی ایک گاہک کو بھی نفع نقصان میں شراکت پر راضی ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر گاہک اس پر راضی ہو بھی جاتے تو قرض دینے والے ادارے کے لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ ہزاروں گاہکوں کے کاروبار کا آڈٹ کرے، ان کا تفصیلی حساب کتاب رکھے اور ہر ایک کے منافع کا تعین کرکے اپنا حصہ نکالے۔

ڈاکٹر فضل الرحمٰن
میکگل یونیورسٹی کے سکالر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کو ایوب خان نے پاکستان بلایا تھا تاکہ مذہبی معاملات میں اس سے استفادہ کرے۔ تاہم وہ اپنے کچھ خیالات کی وجہ سے تنقید کی زد میں رہے اور واپس چلے گئے۔ دیگر مسائل کی طرح انہوں نے سود اور بینکنگ پر بھی کافی کام کیا تھا۔ ایک تو وہ بینکوں کی طرف سے قرضوں پر لیے جانے والے اضافی رقم کو حقیقی معنوں میں سود نہیں سمجھتے تھے۔ تاہم وہ سمجھتے تھے کہ اس کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ قرضوں لیا جانے والا سود یکدم ختم نہیں کیا جاسکتا، بلکہ اسے بتدریج کم کرکے زیرو تک لایا جاسکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ معیشت کو ترقی دینے سے سرمایے کی طلب کم ہوتی جائے گی اور ایک وقت آئے گا کہ ملک میں اتنا سرمایہ موجود ہوگا جو قرض لینے والوں کی ضرورت سے زیادہ ہوگا۔ ایسی صورت میں لوگ اپنے سرمایے کی حفاطت کے لیے بغیر منافع کے بنک میں رکھیں گے اور بنک بغیر منافع کے لوگوں کو قرض دیں گے۔ ایسی معیشت میں بغیر سود قرض دینے والے کو کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ کرنسی کی ویلیو وقت گزرنے کے ساتھ کم نہیں ہوگی۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی رائے میں ایک ترقی پذیر ملک میں جہاں سرمایے کی شدید قلت ہوتی ہے اور کرنسی کی ویلیو گھٹتی جاتی ہے، بغیر سود کے قرض دینا ممکن ہی نہیں ہوگا۔

مولانا مودودی
سود کی حرمت اور اس سے پاک معیشت پر مولانا مودودی نے گہرا تدبر کیا ہے۔ چونکہ ان کا نقطہ نظر holistic ہے اس لیے وہ ملک کے معاشی اور سیاسی نظام کو مکمل اسلامی اصولوں پر استوار کیے بغیر سود کے خاتمے کو ممکن نہیں سمجھتے۔ وہ بینکنگ کے متبادل کے طور پر مضاربہ، مشارکہ جیسے طریقوں کا ذکر تو کرتے ہیں لیکن ان کا اصل مطمح نظر ایک ایسا فلاحی معاشرہ ہے جہاں کسی کو اول قرض کی ضرورت ہی نہ پڑے اور اگر پڑے تو حکومت اور معاشرے کی طرف سے اسے بلا سود قرض آسانی سے دستیاب ہو۔ وہ بینکوں کا جو نظام تجویز کرتے ہیں اس میں نہ تو قرضوں پر کسی بھی نام سے اضافی رقم لینے کی گنجائش ہے اور نہ بینک میں رکھے گئے ڈپازٹس پر بینک کوئی منافع دے سکیں گے۔ وہ تجویز کرتے ہیں کہ لوگ اپنی بچتیں رفاہ عامہ کے کاموں پر خرچ کریں یا ضروتمندوں کو قرض حسنہ دیں۔ بنکوں میں وہ رکھیں گے تو صرف حفاظت کے لیے۔ جب لوگ بینکوں سے ڈپازٹس پر منافع نہیں لیں گے تو بینک بھی ضرورتمندوں کو قرض حسنہ دے سکیں گے۔ تاہم جو لوگ بنکوں کے ذریعے منافع حاصل کرنا چاہیں وہ اپنا سرمایہ بنکوں کے ذریعے کسی کاروبار میں شرکت کی بنیاد پر لگائیں گے اور اس کاروبار کے منافع میں شریک ہوں گے۔ مولانا مودودی سود کو سرمایے کے ارتکاز کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس سے امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہوتا جاتا ہے۔ وہ سرمایے کی فراہمی کے ہر اس طریقے کو سود سمجھتے ہیں جس میں ایک فریق کا منافع متیعین ہو۔ چنانچہ مروجہ اسلامی بینکنگ کا ان کے اصولوں پر پورا اترنے کی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ ان کا موقف اس معاملے میں کسی بھی دوسرے عالم سے سخت ہے اور وہ کسی بھی حیلے یا تاویل کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔

اس وقت کیا آپشنز ہیں؟
جہاں تک ڈاکٹر فضل الرحمٰن کی تجویز کا تعلق ہے تو اس کے مطابق سود کا خاتمہ معیشت کی بہتری پر منحصر ہے۔ چونکہ ہمارے ہاں فوری طور پر معیشت میں کوئی انقلابی بہتری کے امکانات نظر نہیں آتے اس لیے ان کی تجاویز ناقابل غور ہیں۔ مولانا مودودی بھی پوری معیشت بلکہ معاشرت اور سیاست کو ری اسٹرکچر کر کے سود کے خاتمے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا قول مشہور ہے کہ "میں داغ دوزی (patchwork) پر نہیں بلکہ کلی تعمیر پر یقین رکھتا ہوں"۔ ان کی تجویز کردہ نظام معیشت کو نافذ کرنے کے لیے نہ صرف صالح قیادت بلکہ صالح عوام کی بھی ضرورت ہے۔ یعنی ایسے لوگ جو نفع اندوزی کے بجائے نفع رسانی پر یقین رکھتے ہوں۔ ظاہر ہے ایسے معاشرے اور ایسی قیادت کے جلد یا بدیر دستیاب ہونے کے امکانات اتنے روشن نہیں۔

ان حالات میں لے دے کے مجوزہ اسلامی بینکنگ ہی رہتی ہے جسے مفتی محمد تقی عثمانی کی تائید حاصل ہے۔ حکومت بینکنگ کے پورے موجودہ نظام کو مروجہ اسلامی بینکنگ سے تبدیل کر سکتی ہے۔ اس طرح عدالت کا منشاء پورا ہوجائے گا۔ اگر اس پر کسی کو اعتراض ہے (اور بہت سے علماء کو ہے) تو ان کو چاہیے تھا کہ وہ اس پر تحقیق کرکے متبادل نظام وضع کرتے اور اس کی بنیاد پر ایک بنک قائم کرکے دیکھتے کہ آیا یہ قابل عمل ہے بھی یا نہیں۔ موجودہ حالات میں فوری طور پر ممکن العمل یہی ایک طریقہ ہے جس پر عملی اور عملی کام ہوا ہے۔