ہوم << ملکی معاشی صورت حال اور کرنے کے کام - سید عزیز الرحمن

ملکی معاشی صورت حال اور کرنے کے کام - سید عزیز الرحمن

سیاست اور سیاسی حمایت و مخالفت سے قطع نظر اس وقت ملکی معاشی صورت حال نہایت توجہ طلب ہے، یہ بات سب ہی جانتے ہیں اور اس بے تحاشہ خرابی میں ہر دور کی ہر حکومت نے اپنا حصہ بھی شامل کیا ہے، اس سے بھی کسی کو مفر نہیں۔ لیکن اب کیا کیا جائے؟ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ درآمد اور برآمد کا انتہائی عدم توازن ہے، جس کے نتیجے میں زر مبادلہ کے حوالے سے ہم دن بہ دن پیچھے چلے جا رہے ہیں۔ ہر شخص یہ بات کہتا ہے اور جانتا بھی ہے کہ اللہ تعالی نے اس ملک کو نہ جانے کس کس حوالے سے نواز رکھا ہے۔ یہاں صرف دو پہلوؤں پر بات کی جاتی ہے جو زرمبادلہ کے حوالے سے ہمارے لیے انتہائی مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔

پھل
اللہ تعالی نے ہمیں پھلوں کے معاملے میں طرح طرح کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ قدرتی ماحول میں پیدا ہونے والے یہ پھل گرمی کے بھی ہیں، اور سردی کے بھی، اور معتدل موسم کے بھی، چونکہ یہ تمام موسم ہمارے ہاں موجود ہیں، اس لیے یہ پھل بھی اپنی بہت سی اقسام کے ساتھ ہمارے درمیان کثرت سے موجود ہیں، لیکن بہت بڑے پیمانے پر یہ پھل ہر سال ضائع ہوجاتے ہیں۔ صرف ایک پھل آڑو کو لے لیجیے جس کا اس وقت موسم ہے اور اس وقت سوات اور بعض دوسرے مقامات پر یہ باغوں کے کنارے ڈیڑھ سو سے دو سو روپے کلو بک رہا ہے، بڑے شہروں میں یہ چار سو تک فروخت ہو گا، لیکن خود باغوں کے باہر کیفیت یہ ہے کہ آدھے سے زیادہ گل رہا ہے، سڑ رہا ہے اور برباد ہو رہاہے۔ اور یہ ہر سال کا معمول ہے۔

تجاویز
سب سے پہلے تو انہیں عالمی منڈیوں تک بڑی مقدار میں فوری رسائی دی جانی چاہیے۔ دوسری اہم ترین بات یہ ہے کہ بہت سے پھل جن میں آڑو بھی شامل ہے بہت زیادہ مدت تک اپنی تازگی برقرار نہیں رکھ سکتے اس لیے ان کے رس اور گودے کو نکال کر محفوظ کرنے کا اہتمام ہونا چاہیے، جس کے لیے بہت زیادہ انوسٹمنٹ کی ضرورت نہیں ہے، صرف ترغیب اور چند سہولتیں فراہم کرنا حکومت کے لیے کافی ہوگا۔ تیسری اہم ترین چیز یہ ہے کہ انہیں پروسس کر کے برانڈ کی شکل دینا اور ملک کی ضرورت کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ضرورتوں کی تکمیل کرنا بہت بڑی مقدار میں زرمبادلہ کا باعث بن سکتا ہے۔ اس ضمن میں حکومت کو سب سے پہلے آگہی مہم چلانی چاہیے، پھر لوگوں کو خاص اس مقصد کے لیے فوری اور آسان قرضے فراہم کرنے چاہییں، جن کے لیے بینک بڑی سہولت سے اپنی اسکیمیں پیش کر سکتے ہیں اور اس کے بعد اس کی ایکسپورٹ کے لیے حکومت کو اپنے قوانین اور قوانین پر عمل کرنے والے اداروں کو ایک پیج پر لانا چاہیے۔ باغ مالکان اور اس کی پروڈکشن میں شامل بنیادی حضرات کو ان کا حق ملنا چاہیے تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور آئندہ یہ عمل نہ صرف جاری رہ سکے بلکہ اس میں اضافہ بھی ہو سکے۔ اس لیے کہ اس معاملے میں ہمیشہ مڈل مین اور ایکسپورٹر فائدے میں رہتے ہیں، اصل مالکان کو کچھ ہاتھ نہیں آتا۔

سیاحت
پتہ نہیں کتنے لوگوں کے علم میں یہ بات ہوگی کہ پاکستان میں سیاحتی مقامات کی کوئی کمی نہیں، ہم بنیادی طور پر پڑھنے لکھنے سے من حیث القوم کوئی تعلق نہیں رکھتے، تحقیق کے تو لفظ سے ہی ہمیں چڑ ہے۔ ہمیں گھومنے کے لیے اچھے پوائنٹس کی تلاش ضرور ہوتی ہے اور اچھے پوائنٹس کا مطلب ہمارے ذہن میں جھرنے، آبشاریں، بلندی اور ہریالی ہے، یہ سب چیزیں بھی بہت اہم ہیں لیکن تاریخی مقامات یا historical points کی بھی ہمارے ہاں کوئی کمی نہیں۔موہن جو دڑو، ہڑپہ ،ٹیکسلا یہ تو سب جانتے ہیں لیکن بہت چھوٹے چھوٹے مقامات پر بہت اہم ترین تاریخی نوادرات موجود ہیں۔ جن سے خود پاکستانیوں کی اکثریت واقف نہیں۔ محمد بن قاسم کا نام ہم بار بار لیتے ہیں لیکن ہم میں سے کتنوں کو خبر ہے کہ اس کی بنائی ہوئی مسجد کے آثار پاکستان میں اروڑ کے مقام پر موجود ہیں، اس مسجد کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ پاکستان میں نہیں دنیا کی پہلی صدی کی بنی ہوئی ان چند مساجد میں سے ایک ہے، جن کے آثار کسی نہ کسی درجے میں محفوظ ہیں۔ اگر اس کی تاریخی اہمیت سمجھنا چاہیں تو دیکھیے کہ مکلی ٹھٹھہ قبرستان ہو یا شاہی مسجد ٹھٹہ یا بادشاہی مسجد لاہور شاہی قلعہ ان میں سے کسی کی تاریخی حیثیت 400 سال سے زیادہ نہیں۔ اور یہ مسجد چودہ سو سال پرانی ہے۔ مسجد کے آثار اگر سلیقے سے نمایاں کر دیے جائیں تو مجھے بتائیے کہ صرف دنیائے اسلام سے نہیں پوری دنیا سے کتنے لوگ اسے دیکھنے کے لیے آسکتے ہیں۔

چند برس پیشتر بنوں جانا ہوا . وہاں کے مقامی میزبانوں نے ایک ایسے مقام کی نشاندہی کی جو اس وقت مٹی کا ڈھیر تھا لیکن ذرا سی سورج کی روشنی بھی میسر ہو تو اس میں انسانی ہڈیاں دور سے چمکتی ہیں۔ میزبانوں نے ہمیں بتایا کہ کئی درجن افراد کا روزگار صرف یہ ہے کہ روز یہاں آتے ہیں، کھدائی کرتے ہیں، کوئی لوہا ، پیتل سونا، یا ایسی کوئی چیز ہاتھ لگتی ہے، جسے وہ بیچ کر اپنا گزر اوقات کرتے ہیں۔ کاش یہ جگہ آثار قدیمہ کی تحویل میں ہوتی، اور یوں برباد نہ ہوتی۔ اس پر کام ہوتا اس کا نام اور تعارف کرایا جاتا۔ خدا جانے وہ کس تاریخی مقام اور قوم کے آثار ہیں اور کس واقعے کی علامتیں ہیں۔

صوابی اور مردان میں کتنے ہی مقامات ایسے ہیں جہاں بدھا کے اور بدھ ازم کے آثار موجود ہیں۔ دنیا بھر میں جاپان حکومت ان کو پروموٹ بھی کرتی ہے، ان کی حفاظت بھی کرتی ہے اور ان پر خرچ بھی کرتی ہے۔ خاص شہر صوابی کے قریب ایک ایسا مقام بھی موجود ہے جس کی تاریخ کوئی دو ہزار سال پرانی بتائی جاتی ہے، وہاں موجود قلعے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے تو سکندر اعظم بھی فتح نہیں کر سکا تھا. اس اعتبار سے تو اس کی تاریخ بہت قدیم قرار دی جا سکتی ہے۔

صوابی ہی کے پاس محمود غزنوی کے وزیر ایاز کا مزار بھی ہے، وہ اس علاقے میں محمود غزنوی کا گورنر رہا تھا۔ اسی طرح قریب میں ایک جگہ ایسی ہے جہاں سے دریائے سندھ سکندر اعظم سے لے کر بابر تک بہت سے حکمرانوں نے پار کیا تھا اور وہ افغانستان سے آتے ہوئے خیبرپختونخوا سے گزر کر پنجاب میں داخل ہوئے تھے۔ اسے بہت بڑے پکنک پوائنٹ کا درجہ دیا جاسکتا ہے اس لیے کہ وہاں بہت کشادہ جگہ موجود ہے۔ یہ ہنڈ نامی گاؤں کا حصہ ہے، اور تمام حضرات اہل تاریخ لکھتے رہے ہیں کہ سکندر اعظم نے یہیں سے دریا پار کیا تھا۔ اس بات کو بین الاقوامی سطح پر کتنے اہتمام سے بیچا جاسکتا ہے، یہ بتانے کی کسی باخبر کو ضرورت نہیں۔

تجاویز
چند اچھے پروڈیوسرز اور فلم میکرز کو ہائر کر کے چھوٹی چھوٹی دستاویزی فلمیں تیار کی جاسکتی ہیں جو ان مقامات کی تشہیر کا باعث ہوں۔ ان مقامات پر بنیادی سہولتیں موجود نہیں ہیں وہ فراہم کرنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ خاص طور پر اٹھنے بیٹھنے، واش رومز، آرام گاہوں اور بنیادی خوراک کا انتظام کرنے کے لیے چھوٹے پیمانے کے کینٹین اور ہوٹل کا ہونا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہیں پر یا قریب کی آبادیوں میں گیسٹ ہاؤسز کا قیام نہایت ضروری ہے جن کا کرایہ معقول ہو۔ہمارے ہاں سیاحت کے فروغ کے لیے اچھی ٹرانسپورٹیشن اور سستے گیسٹ ہاؤس سب سے پہلے ضروری ہیں۔ ہمارے ہاں بہت سے علاقوں میں سیاحوں سے ہر حوالے سے لوٹ مار کرنا کلچر کا حصہ بن چکا ہے اس سے تحفظ کے لیے بھی منصوبہ بندی نہایت ضروری ہے۔

بہت سی بین الاقوامی ایئر لائنز اس سلسلے میں دلچسپی لے سکتی ہیں۔ شنید ہے کہ ترکش ایئر لائن نے کچھ عرصہ پہلے آفر بھی کی تھی۔ اسی طرح قطر ائیر لائن بھی دلچسپی کا مظاہرہ کر سکتی ہے۔ ان کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان کا نیٹ ورک بڑا ہے اس لیے وہ بڑی آسانی کے ساتھ سیاحوں کے لیے پرکشش پیکجز پیش کر سکتے ہیں۔ پوری دنیا میں موجود ہمارے سفارت خانوں کو بھی متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ جنہوں نے ستر برس میں سوائے مراعات اور تنخواہوں کے کوئی کام نہیں کیا۔ الا ما شاء اللہ۔ انہیں چاہیے کہ اس ضمن میں بننے والی دستاویزی فلموں اور ڈاکومنٹریز کو وہاں پھیلائیں اور ان مقامات کی بڑے پیمانے پر تشہیر کا فریضہ انجام دیں۔ تمام ایئرپورٹس پر ٹورسٹ ڈیسک کی موجودگی ناگزیر ہے۔ وغیرہ وغیرہ

یہ چند باتیں ارتجالا پیش کی گئیں۔ ظاہر ہے کہ ہماری آواز کون سنے گا، لیکن ہمیں کم از کم یہ ناشکری نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان کے پاس کیا ہے۔ بہت کچھ بلکہ سب کچھ ہے، ایک با عمل اور شکر گزار قوم کے سوا . اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو